English   /   Kannada   /   Nawayathi

حکیم اجمل خانؒ کے خوابوں کا خون!

share with us

اس کے برعکس اس کا چربہ کرنے والی کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے عظیم ملک ہندوستان میں بھی اطبائے سابقین اورمسلم فرمانرواؤں کی خدمات کے نقش ونگار مٹادینے کی مذموم سازشیں ان دنوں عروج پر ہیں۔مگراس میں یہ سازشیں کامیاب ہوسکیں گی یہ کہنا انتہائی مشکل ہے۔کیوں کہ ماضی سے اب تک اس سلسلے میں انجام دی جانے والی سازشیں اوندھے منہ گرتی رہی ہیں اور طب یونانی کا سورج تمام تر نامساعد حالت کے باوجود نصف النہار پر رہاہے۔چونکہ ہمارے اکابرین کے کاموں میں انتہا درجہ کا خلوص وللہیت اورجذبہ حب الوطنی لبریز رہاہے ،لہذا یقین ہے کہ مخالف قوتیں چاہے جو کرلیں ،مگروہ طب یونانی کے اکابرین کی قربانیوں کو ملیا میٹ کرنے کی کسی بھی سازش میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ہم یہاں عظیم مجاہد آزادی ابن سینائے ہند حکیم اجمل خان مرحوم کے خوابوں کی تھوڑی سی تفصیل رقم کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ بابائے طب نے وطن کی آزادی اورآزاد طن میں طب یونانی کی ترویج وترقی کیلئے کیا خواب خواب سنجوئے تھے اورآزادی ملنے کے بعد فن کے دشمنوں نے ان کے خوابوں کوبے نام ونشان کردینے کیلئے کیسے کیسے گل کھلارکھے ہیں۔ البتہ دشمنان طب اس میں کامیاب ہوسکیں گے یہ کہناآسان نہیں ہے ،اس لئے کہ ہزار جتن کے باوجود جب مغربی استعمار اس ساز ش میں کامیاب نہیں ہوسکے تو یہ مٹھی بھراوباشوں کا ٹو لہ کیسے اپنی مراد پاسکتا ہے۔ 
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
جنگل سا جنگل،دارالحکومت دہلی سے باہر‘ شہر سے شہر یار سے ملحق ایک بڑا ویرانہ جس کی حدیں کرنول (ہریانہ) کی حدودں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ ابن سینائے ہندحکیم اجمل خان مرحوم جو نواب رام پور کے سردارانہ عتاب کانشانہ بنے اوراسی کے مہمان خانہ میں راہی ملک عدم ہوئے۔یعنی جام شہادت نوش فرمایااوریہ سارے حالات ان پر طب یونانی کی خدمت کی وجہ سے ہی پیداہوئے۔تصور کیجئے! اس وقت کتنے تازہ دم اوراو لوالعزم رہے ہوں گے جب انہوں نے طب یونانی کوہندوستان میں اس کی نشاۃ ثانیہ واپس دلانے کے تانے بانے تیار کئے ہوں گے۔حکیم صاحب مرحوم کا ایک خواب تھا کہ مادر وطن ہندوستان میں ا یک نیا قریہ آباد کیا جائے ایسا قریہ جو علوم و فنون کی حکمت کا گہوارہ ہو کہ؂
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مگر اس اہل نظر نے اس ویرانے میں کیا دیکھا کہ وہاں ایک تازہ بستی آباد کرنے کا خواب دیکھا، مت پوچھو کہ حکیم صاحب کی دعوت پرطب یونانی کے مستانوں کا جو قافلہ ملک بھر سے دارالحکومت دہلی پہنچا تھا وہ کتنے اوبڑ کھابڑ رستوں پر چل کر یہاں پہنچا۔ اردگرد کچھ تھا ہی نہیں۔ ویرانہ اور پھر ویرانہ، یار حیران کہ اس، صحرائے بے آب و گیاہ میں حکیم صاحب اپنے خواب کا گل و گلزار کیسے کھلائیں گے۔
لیکن عجب ثم العجب اب ہم نے یہاں قدم رکھا ہے تو حیران کہ یا الٰہی وہ ویرانہ کہاں گم ہو گیا۔ یہاں تو سچ مچ ایک تازہ بستی آباد ہو چکی ہے کہ ایک علمی روایت کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔ آپ مرحوم آیور ویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج قرول باغ کا ایک سفر کرلیجئے اور اس وقت کے جغرافیائی منظر کواپنے ذہن میں محفوظ رکھئے جب اس چمن کی پہلی اینٹ 1916میں لارڈ ہارڈنگ ذریعہ رکھی گئی ہوگی اور1921میں جب بابئے قوم مہاتما گاندھی کے ہاتھوں کے ہاتھوں یہاں علوم طب وصحت کی تعلیم کا باضابطہ آغاز ہواگا۔طبیہ کالج قرول باغ کا سنگ بنیاد 29 مارچ 1916 کو لارڈ ہارڈنگ نے رکھا تھا اور 13 فروری 1921 کومہاتما گاندھی نے قومی یکجہتی اور مجاہد آزادی حکیم اجمل خان کے اس شاہکار ادارہ کا افتتاح کیا تھا جس کو اپنے خون جگر سے آخری وقت تک حکیم اجمل خان نے سینچا تھا۔مگرجیسے بندر کے ہاتھ ناریل بے معنی ہوجاتے ہیں ویسے آج نااہلوں کے ہاتھوں میں یہ عظیم سرمایہ حالت نزع میں پہنچ چکا ہے۔
حکیم اجمل خان کی کوششوں سے یہاں جڑی بوٹیوں کی کاشت کے لئے 50 ایکڑ پر مشتمل باغ قائم کیا گیا۔ لیکن یہ سارے اثاثے منتظمین اور دہلی حکومت کی اندیکھی کے سبب تباہی و بربادی کا شکار ہورہے ہیں۔طبیہ کالج اسپتال کی خالی 49 جگہوں میں 10 عہدوں کی تقرری ریگولر بنیاد پر کی گئی، لیکن ان سب کے باوجود ابھی بھی 14سیٹیں خالی ہیں،بلکہ زیادہ تر شعبوں کے پاس تو ایک فیکلٹی بھی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود حکومتی ذمہ داران اور کالج انتظامیہ نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اطلا عا ت کے مطابق کالج احاطہ میں ریلائنس بجلی کمپنی کے قبضہ کے خلاف ہمدردان کالج اور اسپتال انتظامیہ نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت چل رہی ہے۔ مگر اس کی رفتار اس قدر سست ہے کہ اسکی وجہ سے ہر قسم کی پیش رفت جامد پڑی ہے۔
ذرائع کے مطابق طبیہ کالج اور اسپتال کے کل 29 ایکڑ رقبہ میں تقریبا 20ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ اس کھیل میں کالج انتظامیہ کا ہاتھ ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہیں اطلاعات یہ بھی ہیں کہ احاطہ میں واقع جمیل ہاسٹل کی حالت خستہ ہوچکی ہے اوراس کے ایک حصہ کومنہدم کردیا گیا ہے۔ اسے دوبارہ بنانے کی تیاری کئی سال سے کی جا رہی ہے لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہے۔ طبیہ کالج اور اسپتال کی سنگین صورتحال کے بارے میں اگر کالج انتظامیہ اور دہلی حکومت کے لیڈران سے بات کی جائے تو یاتو انہیں سانپ سونگھ جاتاہے یااپنی لاعلمی کا بہانہ بنا کراپنی گردن بچانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔یہ بات سوفیصد درست ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی اور ملی قائدین نے اپنے ہر عمل سے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے وہ اس گنگا جمنی تہذیب کے پرستار وعلمبردار ہیں، جس کی چھاؤ ں میں ہرکسی کو سکون کی نیند میسرہوسکتی ہے۔طبیہ کالج کے اولین ٹرسٹیز کی فہرست کو ایک سرسری نظر سے دیکھ لیجئے !آ پ یہ بخوبی اندازہ لگائیں گے کہ ابن سینائے ہندکا سینہ کسی بھی قسم کے مذہبی عصبیت کے جراثیم سے سوفیصد پاک تھااور آپ اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے کالج کے ٹرسٹیزمیں بلااستثناء تمام مذاہب کے ماننے والوں کو نمائندگی عنایت کی۔اگرآپ نے اپنی تحریک میں اس وقت طب یونانی کے ساتھ آیورویدک کو بھی شامل نہیں کیا ہوتا توشاید دہلی میں اس فن کے لئے امکانات معدوم ہوچکے ہوتے۔مگر یہ کیا کہ جس شعبہ آیور وید کو حکیم اجمل خان مرحوم نے بیساکھی دے کر کھڑاکیا تھاوہ لہلارہا ہے ۔مگرطب یونانی جس کیلئے انہوں نے کشکول تک اٹھالئے تھے وہ اسی احاطہ میں دم توڑ رہاہے۔آج آیور ویدک کو ایک طرف ہرجگہ نمایاں مقام حاصل ہے۔ مگرطبیہ کالج میں وہی طب یونانی اپنے ماضی کے دن یاد کرکے گھٹ گھٹ کردم توڑ رہی ہے۔کسی بھی شعبہ کو لیجئے وہ ادھورا ہی ملے گا۔کہیں اساتذہ کی شدید قلت توکہیں لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ابترحالت۔کالج انتظامیہ کی ملی بھگت سے یونانی کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں اورآیوروید کی بیساکھی کے سہارے اسے زندہ رکھنے کی حماقت کی رہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا