English   /   Kannada   /   Nawayathi

حکومت مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر قدغن نہ لگائے،بصورتِ دیگر تحریک چلائے جائے گی:صدر پرسنل لاء محمد رابع حسنی ندوی

share with us

عوام میں حکومت کے متعلق یہ تصور پیدا ہوگا کہ وہ سیکولر حکومت ہے، اور وہ اقلیتوں کو بھی وہ حیثیت دیتی ہے جو اس کو دینا چاہئے،مسلم یونیورسٹی کا جو اقلیتی کردار ہے اس کو دینا چاہئے،اور پورے مسلمان اس کے قائل ہیں،اور اس کے لئے پوری کوششیں کی جائیں گی اور تحریک چلائی جائے گی ، تحریک وغیرہ سے حکومت کو پریشانی ہوسکتی ہے،حکومت کو چاہئے کہ مسلم قائدین سے بات کو سمجھ کرصحیح رخ اختیار کرے، یونیورسٹی کو اس کا اقلیتی کردار ملنا چاہئے،مسلمانوں کی اسکے لئے خدمات ہیں اور مسلمان اس سے پوری طرح وابستہ ہے۔یونیورسٹی کے ساتھ اقلیتی کردارکو جوڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کی جائیں گی ،اور نتیجہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے

یواین این : مولانا محترم سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ کو اس سلسلہ میں خط لکھا جائے گا یا کوئی اقدام کیا جائے گا 
مولانا محترم : جن سے بات کی جاسکتی ہے یا کہی جاسکتی ہے اُن سے رابطہ کرکے کوشش کی جائے گی ۔

یوا ین این :دستور بچاؤ تحریک کا منشاء 
مولانا محترم :مسلم پرسنل لاء بورڈ خصوصی طورپر شریعت اور دستور ی مسائل کے حل کے لئے آگے رہتا ہے ، بقیہ جو ملت کے مسائل ہیں اس میں ہندوستا ن کی دیگر تنظیمیں اور جماعتیں بھی کام کرتی ہیں،اب یہ جو تحریک ہے ،اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ ،دستور نے جو حقوق اقلیتوں کو دئے ہیں، وہ ملنے چاہئے،اس کے ملنے میں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہئے،دستور کا تقاضہ بھی یہی ہے اور دستور میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سارے مذاہب اور طبقات کے لوگ،وہ اپنے دین کے مطابق ادارے بھی قائم کرسکتے ہیں،تو دستور کا بھی یہ تقاضا ہے کہ اس میں کوئی مداخلت نہ ہو۔بورڈ کے دستوری تحریک پر کئے گئے سوال پر مولانا کا جواب تھا کہ مختلف مجلسوں میں اور مختلف ملاقاتوں میں بورڈ کے ذمہداروں کی ملاقاتیں جب حکومت کے عہدے داروں سے ہوتی ہیں یا ہوئی ہیں تو وہاں اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھ کر رائے اختیار کی جائے ،تاکہ کسی قوم کو شکایت نہ ہو کہ اس سے اس کا دستوری حق چھینا جارہاہے،اور رہی بات مطالبے کی تو ہم اُسی وقت کوئی مطالبہ کرسکتے ہیں جب پوری بات واضح ہوکر سامنے آئے کہ حکومت دستور میں مداخلت کررہی ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہی ہے،تب تو ہم اُس مسئلہ کو اُٹھاتے ہیں،اور صرف آئندہ کے خطرے کے احساس سے ہم مسائل کو اُٹھائیں یہ قبل از وقت بات ہوجائے گی،یہ بھی ہوسکتاہے کہ تبدیلی لائے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ تبدیلی لائے ،لیکن ہمیں اُمید ہے کے حکومت حالات کو سمجھ کر کوئی تبدیلی نہ لائے ، لہٰذا جب تک کوئی واقعہ پیش نہیں آتا یا بالکل پیش آنے کے حد میں داخل نہیں ہوتا،اس کو لے کر باتوں کو چلانا بے ضرورت ہے۔

یو این این :ملک میں کچھ لوگ عدمِ رواداری کی شکایت کررہے ہیں،بعض لیڈران غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں بعض مندر تعمیر کرنے کی تاریخ متعین کررہے ہیں،اس سلسلہ میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
مولانا محترم : اس سلسلہ میں ہم بار بار اظہار کرتے رہتے ہیں، اتنے بڑے نظام میں غلط لوگ بھی ہوتے ہیں اور غلطی کرتے ہیں اور ہم ہر غلطی کو بڑا بنا کر نہیں پیش کرسکتے،بعض موقعوں پر انسان چھوٹی غلطیکاذکر بار بار کرکے بڑا بنا دیتا ہے،جب بڑا بنادیتا ہے تو مشکلیں اور بڑھ جاتی ہیں،ہر چیز کو اس کی حدمیں رکھنے کی ضرورت ہے،افراد جو بیانات دیتے ہیں،اُن کو وہ اہمیت نہیں دینی چاہئے جو اہمیت حکومت کی ہوتی ہے،یا عدالت کے بیان کی ہوتی ہے،عدالت کا احترام تو حکومت کو بھی کرنا پڑتا ہے،حکومت بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتی ، افراد اگر بیانات دیتے ہیں ان کو وہ اہمیت نہیں دینا چاہئے کیوں کہ ایسے بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ،جب حکومت عدالت کے فیصلے کو رد نہیں کرسکتی اور اس پر تبصرہ نہیں کرسکتی توعوام کی کیا حیثیت ہے،کوئی کرتا ہے تو ناسمجھی کی بات ہے ،کوئی اشتعال پیدا کرنا چاہتا ہے اور اُس اشتعال سے ہم بھی مشتعل ہوجائیں تو بات اور بگڑ جائے گی،جن سے بات ہوسکتی ہے اُن سے بات کرنی چاہئے اور دستوری و قانونی مسئلہ ہے تواسی مناسبت سے بات کرنی چاہئے، یہ سب منصوبہ بنداور حکمت عملی کے ساتھ کرنے کے کام ہوتے ہیں، غلط بیانی پر تبصرہ کردینے سے بات اور اُلجھ جاتی ہے۔ ان باتوں کو مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر تنظیمیں سنجیدگی سے لے رہی ہیں اور اس سلسلہ میں مسائل کے حل کے لئے کوشش بھی کررہے ہیں،اور انشاء اللہ جو کچھ بھی کوششیں ہورہی ہیں سنجیدگی سے ہورہی ہیں اور کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔ 


Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا