English   /   Kannada   /   Nawayathi

دور کے ڈھول ۔۔۔!

share with us

ایک تو غربت، مجبوری، لڑکیوں کی بڑھتی عمر اور دوسری وجہ کچھ اپنی حرص اور لالچ۔ ہم آئے دن لڑکیوں کے بن بیاہے بوڑھی ہوجانے کا رونا روتے رہتے ہیں‘ اس کے لئے ہم جہیز کے لالچی لڑکوں اور لڑکے والوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جہیز ہمارے معاشرہ کو دیمک کی طرح کھاجارہی ہے۔ مگر جہیز کے لئے ذمہ دار صرف لڑکے والے نہیں ہیں‘ خود لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو منہ مانگے جہیز کی پیشکش کرتے ہیں بلکہ کئی ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آئے ہیں کہ اگر کسی گھر میں کوئی اچھا سا رشتہ آیا ہے اور اس گھر والوں نے لڑکے والوں کو اپنی مرضی، اپنی خواہش کے مطابق جہیز کی فہرست پیش کردی اس کی بھنک جب پڑوسی یا ان کے رشتہ داروں کو پڑجاتی ہے تو وہ ’’ٹنڈر‘‘ کی طرح بولی کی رقم میں اضافہ کرکے اپنی لڑکیوں کے لئے وہی رشتہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اردو اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہار پر نظر ڈالئے... ’’معیاری شادی‘‘ لڑکی کا بھائی باہر سے آیا ہوا ہے‘‘... H1 ویزا، کاروبار لگاکر دیا جائے گا... جیسے لالچ دےئے جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے‘ جس میں سکت ہے جس نے اپنی لڑکیوں کی شادی کے لئے زندگی بھر کی کمائی اٹھا رکھی ہے انہیں روکا نہیں جاسکتا.. لڑکی والوں کی یہی تو خواہش رہتی ہے کہ ان کی بیٹی کا مستقبل محفوظ رہے... وہ خوش رہے... اس کی خوشی کے لئے چاہے انہیں زندگی بھر اپنی خوشیوں کو قربان کیوں نہ کرنا پڑے...
کیا لڑکی صرف ’’باہر‘‘ رہ کر ہی خوش رہ سکتی ہے؟ کیا وہ اپنے وطن میں خوش نہیں رہ سکتی۔ ہاں! لڑکا پہلے سے باہر ہے‘ وہ فیملی کو ساتھ رکھنے کے موقف میں ہے‘ تب الگ بات ہے‘ ویسے جو بیویاں شوہروں کے ساتھ باہر ہیں اگر ان کی حالت ان کے دل سے پوچھئے‘ سارا دن گھر میں مقفل رہتی ہیں‘ خیر یہ مسئلہ اپنی جگہ۔ مگر صرف ’’باہر‘‘ رہنے والے ہی سے شادی کرنے کی روایت کچھ اچھی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنے وطن میں برسر روزگار لڑکوں کی کوئی کمی ہے‘ ان سے رشتہ کرنے والوں کی کمی ضرور ہے۔ شہر میں بے شمار ’’میریج بیورو‘‘ ہیں۔ اگر ان ’’میریج بیوروز‘‘ کے ذمہ داروں سے آپ لڑکے کے رشتہ کی بات کریں گے تو وہ آپ کو ’’مناسب‘‘ لڑکیوں کی فائلس حوالے کردیتے ہیں... یا آپ ضرورت رشتہ کے اشتہارات میں دےئے گئے فون نمبرات پر ربط قائم کریں اور اپنے لڑکوں کی پروفائل (اسم نویسی) ان کی خواہش کے مطابق ای میل کریں یا ’واٹس اَپ‘ پر بھیجیں گے تو ان میں سے بیشتر کا جواب یہی رہے گا کہ لڑکا بیرون ملک ملازم ہونا چاہئے۔ یہ ’’باہر والا‘‘ کا چکر بڑا عجیب ہے۔ اگر ’’باہر‘‘ ہے تو وہاں کیا کررہا ہے‘ اس کی ملازمت مستقل ہے یا عارضی، ہمارے معاشرہ میں سینکڑوں مثالیں ایسے ’’باہر والے‘‘ لڑکوں کی ہیں جو شادی کے بعد ’’باہر‘‘ چلے گئے ہیں تو کئی کئی سال تک واپس نہیں آسکتے۔ اس دوران جو معاشرہ میں بے راہ روی پیدا ہوتی ہے اس سے بھی ہم سب باخبر ہیں۔ کتنے خاندان بکھر گئے... کتنے اجڑ گئے... کتنے رشتے ٹوٹ گئے۔ مگر یہ ’’باہر‘‘ کے لڑکے کا چکر ختم نہیں ہوتا۔ گلف کی حد تک تو ٹھیک ہے۔
کسی ناگہانی صورتحال میں چند گھنٹوں میں اپنے وطن پہنچ سکتے ہیں مگر جو امریکہ، کناڈا ادوسر دوسرے مغربی ممالک میں ہیں‘ ان میں سے بیشتر غیر قانونی طور پر مقیم ہوتے ہیں۔ اور انہیں اپنے طور پر آنے کے لئے کئی کئی برس لگ جاتے ہیں‘ بلکہ ہم ایسے کئی افراد سے واقف ہیں جو بیوی بچوں کو چھوڑ کر ایک بار چلے گئے تو پندرہ پندرہ برس تک واپس نہیں آسکے۔ ان میں سے بیشتر نے وہاں پر ہی اپنے دوسرے گھر بسالئے۔ یہاں جو ہیں وہ ڈالرس اور ہر حیدرآباد آنے والے کے ذریعہ بھیجوائے جانے والے ساز و سامان سے ہی خوش ہیں... ان کی اولاد کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں... ان کا پیسہ کس بے دردی سے اڑایا جاتا ہے‘ اس کا کسے احساس ہے۔
’’باہر‘‘ کے لڑکے کی تلاش کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو ماں باپ لڑکی کی خوشحالی چاہتے ہیں ساتھ ہی ان کی یہ خواہش رہتی ہے کہ ان کی لڑکی کو ساس نندوں کا جھمیلہ نہ ہو اور لڑکے کی ماں اور بہنیں جن آرزوؤں، امیدوں سے گھر کو بہو یا بھاوج لاتے ہیں ان کی حسرتیں ان کے سینے میں دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔ دوسری طرف اپنے وطن سے دور ’’تنہائی‘‘ کی ’’مزے‘‘ کی زندگی گزارنے والے جوڑے مل جل کر رہنے کے عادی نہیں رہتے... ان کے بچے بھی تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ اگر بیوی بچے وطن میں اور شوہر و باپ باہر ہوں تب بھی ایک دوسرے سے ذہنی اہم آہنگی نہیں رہتی۔ اگر بیوی بچے بھی ساتھ ہوں اور وطن سے دور تب بھی دوسرے خونی رشتوں میں گرمجوشی‘ محبت‘ مروت باقی نہیں رہتی۔ بات چھڑی تھی‘ عمان کے دوت مند تاجر کی‘ قلم کی رَو بہکی تو جانے کدھر سے کدھر پہنچ گئی۔ آئے دن دلال عورتیں‘ مرد بلکہ قاضی صاحبان کے مشترکہ ریاکٹ میں معاشی طور پر کمزور لڑکیوں کو پھانسا جاتا ہے‘ ایک خوشحال مستقبل کا لالچ دے کر انہیں جب باہر بھیجوایا جاتا ہے تو یہ وہی جانتی ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر ان لڑکیوں کے جنسی استحصال کی شکایت بھی آتی ہے۔ انہیں ایک کفیل سے دوسرے کفیل کے حوالے بھی کردیا جاتا ہے۔ یہاں سے جنہیں بیاہ کر لے جایا جاتا ہے وہاں لے جاکر انہیں ’’خادمہ‘‘ بنالئے جاتے ہیں‘ دن رات کام لیا جاتا ہے‘ تشدد کیا جاتا ہے بہت کم خوش نصیب خواتین بچ نکلنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
جو اپنے وطن میں ہیں‘ جو محنت کرسکتے ہیں‘ جو اپنے پیروں پر کھڑے ہیں‘ ان سے رشتے کئے جائیں تو لڑکیاں خوش رہ سکتی ہیں۔ اپنی اولاد اپنی نگاہوں کے سامنے‘ ماں باپ کچھ فاصلے پر‘ اچھے اور برے میں سب کا ساتھ... اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ مگر کون کس کو سمجھائے... ہم سب کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت شاید ختم ہورہی ہے۔ باہر کے رشتے پھر بھی اپنے ہم وطن سے ہوں تو ٹھیک ہے‘ بیرونی ملک کے باشندوں کے ساتھ رشتے آج کے حالات میں ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جب سے حیدرآبادی لڑکیوں کی شادی عرب شہریوں سے ہونے لگی اس سے بعض گھرانوں کی غربت ختم ہوئی‘ کیوں کہ ان لڑکیوں نے سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شوہروں کے ذریعہ اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو ’’باہر‘‘ بلالیا جس کی وجہ سے حالات میں سدھار آیا۔ غریب گھرانوں میں بھی تعلیم عام ہوئی۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوا‘ یہ اور بات ہے کہ بہت ساری لغویات کابھی روز مرہ زندگی میں اضافہ ہوا۔ بہت کم بیرونی ملک کے باشندے ایسے ہیں جنہوں نے حیدرآباد کی لڑکیوں سے شادی کے بعد ان سے رشتہ نبھایا ورنہ اکثر و بیشتر نے ان کا استحصال کیا بلکہ حیدرآباد کی غربت کو دیکھتے ہوئے کنٹراکٹ میاریجس کی لعنت بھی یہاں شروع ہوگئی ہے‘ حالیہ عرصہ کے دوران ایسے کئی بیرونی باشندوں، دلالوں اور قاضیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر حیدرآباد کے غریب اوسط گھرانے اپنی لڑکیوں کے رشتے حیدرآباد ہی کے محنتی، تعلیم یافتہ نوجوانوں سے طئے کرے تو وہ بیرونی شہریوں کے مقابلے میں لاکھ درجہ بہتر ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ غربت سے پیچھا چھوڑانے کے لئے ہم رسوائی کو گلے لگالیتے ہیں۔بیرونی شہریوں سے ’’شادی‘‘ کے بعد اگر کچھ ساز و سامان گھر آتا ہے یا تصاویر اور ویڈیو کلیپنگس میں بیٹی کو زیورات سے لدی ہوئی دیکھ کر ماں باپ خوش ہوجاتے ہیں‘ انہیں اپنی بیٹی کے زیوروں کے پیچھے چھپے ہوئے کرب کا اندازہ نہیں ہوتا۔
مقامی نوجوانوں سے شادی ان کے مالی موقف کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔ جو محنتی نوجوان ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو قربان کرکے اپنے بیوی بچوں کو پال سکتاہے۔مگر ہماری نظر میں ان کی محنت، خودداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اگر وہ تعلیم یافتہ بھی ہے تب بھی اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ المیہ ہے جس سے ناقابل تلافی نقصان ہورہاہے۔ کاش اس سلسلہ میں توجہ دی جاتی اور شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا