English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایسا کہا ں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے۔۔۔

share with us

کئی مرتبہ تووہ یک طرفہ ہی مراسم کو نبھاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اس میں ان کے سیاسی اختلاف روکاٹ نہیں بنتے۔ یہ خوبی نہرو کے علاوہ اندراجی، راجیوگاندھی، ارجن سنگھ، ڈاکٹر کرن سنگھ بی جے پی کے اٹل جی، اڈوانی اور مدن لال کھورانہ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر جموں کشمیر میں حکومت بنانا عوامی فیصلوں کے احترام کا ہی نتیجہ تھا۔
پانچ دہائی قبل مفتی سعید نے جب جموں وکشمیر کی سیاست میں قدم رکھا اس وقت شیخ عبداللہ کی طوطی بولتی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتاتھا کہ وہ بجلی کے کھمبے کو بھی منڈیٹ دے دیں تووہ جیتے گا۔ مفتی صاحب نے اپنی سیاست کانگریس کے ساتھ شروع کی تھی۔ جموں وکشمیر میں اس وقت اس قومی پارٹی سے وابستہ افراد کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرناپڑتا تھا۔ شیخ عبداللہ کانگریس کے لیڈران کو سرعام گٹرکا کیڑا کہاکرتے تھے۔ کئی دہائیوں تک مفتی صاحب نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں کوئی الیکشن تونہیں جیت سکے لیکن شیخ عبداللہ کو چنوتی دیتے رہے۔ جب فاروق عبداللہ کی حکومت گرنے کے بعد کانگریس نیشنل کانفرنس کے 13باغیوں کے ذریعہ بنائی گئی حکومت کی حمایت کررہی تھی تب پارٹی کو آر ایس پورہ سے اپنے رکن اسمبلی کو استعفیٰ دینے کیلئے کہنا پڑاتھا تاکہ وہاں سے پارٹی کے صدر مفتی محمد سعید کو اسمبلی میں بھیجاجاسکے۔
کشمیری عوام کو بھارت کی مین اسٹریم سے جوڑنے میں مفتی سعید نے اپنی پوری زندگی لگادی۔ وہ بھارت کے حامی ہونے کے ساتھ ریاست کی سیاسی پیچیدگیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جموں،کشمیر اورلداخ الگ قسم کے حصے ہیں۔ یہاں کی زبانیں الگ الگ ہیں۔ یہاں کے کھانے، لباس ،رہن سہن کے طریقہ الگ ہیں۔ یہاں تک کہ ان علاقوں کی تاریخ وتہذیب بھی الگ الگ ہے ۔ایسے میں تینوں کو ساتھ لے کر چلنا ان میں توازن قائم کرنا اوریہ یقینی بناناکہ سبھی کو اس کا مناسب حق ملے کافی حساس مسئلہ ہے۔2014میں انہوں نے اس شکل کو آسان کرنے کیلئے بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکار بنائی، جسے دیکھ کر سب حیرت زدہ تھے۔ عام لوگوں کو یہی لگ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ یا کیسے ہو رہا ہے ۔مفتی صاحب سوچ سمجھ کر بہت اطمینان سے کام کرنے والے لوگوں میں رہے ہیں۔ انہیں کسی بھی معاملے میں جلدی نہیں ہوتی تھی۔ اس مسئلہ پر بھی ان کی سوچ صاف تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ عوام کے فیصلے کی پوری عزت ہونی چاہئے۔ انہیں شاید یہ بھی لگاہوگا کہ اگر بھاجپا کے ساتھ مل کر سرکار نہیں بنائی گئی تو تلخی بڑھ سکتی ہے اورٹکراؤ کی صورت بنی رہے گی جو ریاست کے حق میں مناسب نہیں ہوگا۔ حالانکہ ان کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ گٹھ بندھن بنانا وہ بھی بھاجپا جیسی پارٹی کے ساتھ۔ جن کے بارے میں وادی کے لوگوں کے ذہن میں کئی ساری باتیں تھیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ بھاجپا۔پی ڈی پی گٹھ بندھن مفتی صاحب جیسے کھلے ذہن کے سیاست داں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔
اعلیٰ سیاسی بصیرت کے حامل مفتی محمد سعید کو ترقی پسند عوامی رہنما، کشمیر کی سیاست میں انقلابی تبدیلیاں لانے والی شخصیت کے طورپر ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔ انہوں نے ریاست میں کانگریس کو مضبوط بناکر نیشنل کانفرنس کیلئے شدید مشکلات کھڑی کی تھیں۔ یہ کام اس زمانے میں کیا جب کانگریس کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ کانگریس قیادت کو یہ لگنے لگا کہ کانگریس کو مقبول بنانے میں مفتی صاحب کی کوشش کا نہیں بلکہ ان کی پالیسیوں اورقومی رہنماؤں کی مقبولیت کا ہاتھ ہے۔مفتی سعید کو کانگریس ہائی کمان کا یہ رویہ پسندنہیںآیا۔ انہوں نے کانگریس سے کنارہ کیا اور جنتا دل میں شامل ہوگئے۔ راجیوگاندھی کے زوال کے بعد جب وشوناتھ پرتاپ سنگھ کو ملک کا اقتدارملا توانہوں نے مفتی سعید کی صلاحیتوں اورکشمیرمیں ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملک کا وزیرداخلہ بناکر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیا۔ مفتی سعید کو ملک کا پہلا مسلم ہوم منسٹر بننے کا اعزاز حاصل ہے،جو وی پی سنگھ کی بدولت ممکن ہوا۔ ان کی حکومت گرنے کے ساتھ ہی مفتی سعید سے یہ منصب چھن گیا۔ کانگریس جو مسلمانوں کے ووٹوں کی وجہ سے لمبے عرصے تک ملک کے اقتدار پر قابض رہی وہ کبھی اس کرسی پر کسی مسلمان کو بٹھانے کی ہمت نہیں کرسکی۔
بابری مسجد تنازعہ کی وجہ سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے تھے۔ اس وقت وہ مہاراشٹر کے دورے پر گئے تھے، وہاں کے لوگوں
کے مطابق مفتی صاحب نے مہاراشٹر کے 19اضلاع کے دورے کے دوران اقلیتی فرقہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف بے باکانہ انداز میں سرکاری افسران سے باز پرس کی۔اور ان کی سرزنش کی وہیں مسلم طبقہ کو بھی امن امان قائم رکھنے کی تلقین کر نے سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ شروع سے ہی امن پسند، روشن خیال مزاج کے تھے۔ قیام امن ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہا۔ کشمیر کے علاحدگی پسندوں نے ان کی بیٹی روبیہ سعید کو 1998میں ان کے وزیرداخلہ رہتے ہوئے اغواکرلیا تھا۔ شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا۔ اس کے بعد ہی کشمیر میں دہشت گردی کے کھیل نے خونین رنگ اختیارکیا۔ دہشت گردی کے سب سے خراب دور1990کی شروعاتی دہائی میں انہوں نے جموں کشمیر کے گاؤں گاؤں میں گھوم کر لوگوں کو سمجھایا۔ وہ روایتی رہنماؤں سے الگ تھے، ان کا ماننا تھا کہ جو کام گولی سے نہیں ہوسکتا وہ بولی سے ہوسکتا ہے۔ وادی کشمیر میں ہرطبقہ سے ان کے رشتے اچھے بنے رہے۔1999میں انہوں نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کرریاستی پارٹی پی ڈی پی قائم کی۔ اسی کے ساتھ ایک نئے مفتی محمد سعید کا جنم ہوا، جنہوں نے صرف اپنے بل بوتے پر کشمیر میں سیاست کی اور کشمیر کے اہم ترین سیاسی لیڈروں میں سے ایک بن گئے۔ نیشنل کانفرنس سے ناراض افراد کی بڑی تعداد ان کے ساتھ آگئی۔2002کے انتخاب میں 18سیٹیں جیت کر کانگریس کے تعاون سے وہ پہلی مرتبہ ریاست کے وزیراعلیٰ بنے۔
مفتی سعید کے دور حکومت میں علیحدگی پسندی کبھی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ ان کی شبیہ ایسے سنجیدہ رہنما کی رہی جو شدت پسند سیاست کرنے والے علیحدگی پسند لیڈروں سے بھی رابطہ بنالے جاتا تھا۔2002-05کے دوران کانگریس کے ساتھ گٹھ بندھن میں وزیراعلیٰ رہتے ہوئے ان کی انتظامی صلاحیت ابھرکرسامنے آئی تھی۔ مقامی سیاست کے ساتھ ملک کی راج نیتی کے ساتھ تال میل بٹھانے کا انہوں نے بہترین مظاہرہ کیا تھا۔ تب کتنے ہی بے گناہ نوجوانوں کو رہا کراکر صوبے میں روزی روزگار پیدا کرلوگوں کا یقین جیتا تھا۔ اس بار بھی بی جے پی۔ پی ڈی پی سرکار بنی تووزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے کچھ ایسے فیصلے لئے جن سے ان پر علیحدگی پسندوں کے آگے جھکنے کا الزام لگا۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ ریاست کے حق میں کیا بہتر ہے۔ اس لئے انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ وہ اپنے فیصلوں پر قائم رہنے والے لوگوں میں رہے ہیں۔ عام آدمی کا پچھلے لوک سبھا اور ودھان سبھا انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان پر کشمیریوں کے اعتماد کو ظاہر کرتاہے کہ محض16برسوں میں پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس کو آمنے سامنے کی ٹکر دی۔28سیٹیں حاصل کرکے پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
بھارت پاک کے بہترتعلقات کو وہ ریاست کی ترقی کیلئے ضروری مانتے تھے۔ اٹل جی دوراندیش کوششوں سے جب بھارت پاک کے 
رشتوں کی برف پگھلی تو سری نگر مظفرآباد روڈ کھولنے کا فیصلہ ہوا۔ مفتی صاحب نے سری نگر سے مظفرآباد بس سروس کو بحال کیا۔ 13مارچ2005کو جب انہوں نے امن سیتو پر قدم رکھا تو ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ 200فٹ لمبے اس پل پر قدم رکھنے والے وہ پہلے سیاستداں تھے۔ وہ اس کو کشمیر کے لئے نئے باب کے آغاز کے طورپر دیکھتے تھے جس میں بھارت کے ساتھ رہتے ہوئے جموں و کشمیر میں’’سیلف رول‘‘(خودحکمرانی)ہو ۔ جونہ صرف آزادی کے جنون کو کم کردے بلکہ جموں وکشمیر کے تنازعہ کے خاتمے کا باعث بنے۔ وہ جہاں یہ مانتے تھے کہ بھارت پاک کے رشتوں کا سدھرنا جموں وکشمیر کے حق میں ہے وہیں وہ یہ کہنا بھی نہیں بھولتے تھے کہ جموں وکشمیر کوجو خصوصی درجہ بھارت میں ہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچناچاہئے۔ ابھی دفعہ370کو لے کر جو بحث چل رہی تھی اس میں ان کی رائے صاف تھی کہ اس حق کو چھیڑنا مناسب نہیں۔ بی جے پی کے لیڈران کبھی جوش میں ایسے بیان دے دیتے ہیں جس سے بے وجہ شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ جموں وکشمیر میں ملی کامیابی کو وہ اپنا دائرہ بڑھانے کے موقع کی شکل میں دیکھتے ہیں جبکہ ریاست کے ہت(مفاد) میں یہی ہے کہ وہاں کی مقامی پارٹیوں کوآگے رکھاجائے۔
جنوبی کشمیر کے قصبہ بج بہاڑہ کے ایک مذہبی رہنما مفتی غلام محمد کے گھر میں مفتی محمدسعید12جنوری1936میں پیدا ہوئے تھے۔ مفتی غلام محمد کی مالی حالت اچھی نہیں تھی نہ توان کے پاس زمین جائیداد تھی اورنہ آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ۔ گھرکا خرچ اس رقم سے چلتا تھا جو بچوں کو دینی تعلیم دینے کے عوض میں ان کے والد کو ملتی تھی اس لئے مفتی سعید کو کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے کا خیال بھی دل میں لانا ممکن نہیں تھا مگران کو پڑھنے کا شوق تھا۔1950میں اس وقت کے وزیراعلیٰ بخشی غلام محمد سے مل کر انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کیلئے وظیفہ دےئے جانے کی گزارش کی جس کو بخشی صاحب نے منظور کرلیا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعدقانون کی ڈگری حاصل کی۔ غالباً اسی دوران مفتی صاحب نے یہ محسوس کیاہوگاکہ کشمیر میں رہ کر صرف کشمیر کی بات نہ کی جائے بلکہ سارے ملک کی بات کی جائے۔ اسی فکر نے انہیں فرش سے عرش پر پہنچادیا۔
وہ داراشکوہ سے متاثر تھے 17 صدی میں داراشکوہ نے بجبہاڑا میں بیٹھ کر اوپنشد کا ترجمہ کیا تھا ۔اس کی یاد میں وہاں مغل گارڈن بنایا گیا تھا مفتی صاحب کی خواہش تھی کہ اس گارڈن کو ٹوریسٹ پلیس کے طور پر ڈیولپ کریں ۔ انہیں برج کھیلنے کا شوق تھا۔ جب بھی دوچار گھنٹے کا وقت ملتا وہ برج کی ٹیبل پر جم جاتے۔ برج کھیلتے وقت وہ بہت سکون میں رہتے تھے۔ اس دوران سیاست کی بات بالکل نہیں کرتے تھے۔ وہ خوب گپے مارتے قہوا پیتے اورکباب کھاتے تھے۔ آج کے دور میں اس طرح کے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں۔
پی ڈی پی کو کھڑا کرنے میں محبوبہ مفتی کی زبردست کوششیں شامل ہیں۔انہوں نے کافی عرصہ تک مفتی صاحب کے ساتھ کام کیا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے وہ زیادہ سرگرم رہی ہیں۔ ان کا مفتی صاحب سے جڑاؤبھی گہرا رہا ہے۔ امید تویہی ہے کہ وہ ریاست میں انہیں نیتیوں کوآگے بڑھائیں گی۔ بھاجپا۔ پی ڈی پی گٹھ بندھن بھی جوں کا توں چلتا رہے گا۔ ابھی تک کسی بھی جانب سے اس کے ٹوٹنے کا اشارہ نہیں ملا ہے۔ بی جے پی کوشش کرسکتی ہے کہ کچھ اورشرطیں پی ڈی پی کے سامنے رکھے، کچھ اورطاقت ورشعبوں کوحاصل کرنا چاہے۔ صوبہ میں صدرراج جاری رہنے سے ابھی تعطل بناہوا ہے۔ سونیا گاندھی کے ملنے اور پی ڈی پی کے مظفرحسین کے بیان سے تبدیلی کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں لیکن ہم تویہی امید کریں گے کہ جو بھی ہو وہ جموں وکشمیر کے عوام کے حق میں بہتر ہو تاکہ ان سے کئے گئے وعدے پورے ہوسکیں۔ جو بھی کرنا ہے وہ محبوبہ مفتی کوہی کرنا ہے کیوں کہ مفتی محمد سعید جیسا اب دوسرا کہاں ملے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا