English   /   Kannada   /   Nawayathi

اردو پروفیسرس کی تنخواہیں کیا بڑھیں... اردو شعبوں کو زوال آگیا

share with us

اور اب 5سے 7فروری تک کونسل کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں عالمی اردو کا کانفنرس کا انعقاد عمل میں آرہا ہے جس کا افتتاح مسز سمرتی ایرانی مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل کریں گی۔ 10؍جنوری 2016 کو وشاکھاپٹنم میں بزم اصنام شکن کے زیر اہتمام سمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کے مہمان خصوصی پروفیسر ارتضیٰ کریم تھے۔ کونسل کی سرگرمیوں اور ان کے اپنے ویژن، مستقبل کے منصوبوں سے متعلق انہوں نے تفصیل سے انٹرویو دیا۔ اس موقع پر ممتاز شاعر‘ ادیب‘ نقاد اور دانشور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی بھی موجود تھے۔
ارتضیٰ کریم خوش شکل‘ خوش لباس کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق بھی ہیں‘ اچھے مقرر ہیں۔ مرصع، مسجع اردو بولتے ہیں۔ اشعار کے برجستہ استعمال سے خوب داد تحسین وصول کرتے ہیں۔ ’’گواہ‘‘ کے لئے دےئے گئے انٹرویو کا خلاصہ آپ کی نذر ہے۔
سوال: این سی پی یو ایل کی ڈائرکٹرشپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کانٹوں کی سیج ہے؟
جواب: کسی عہدہ میں کچھ نہیں ہوتا۔ عہدہ نہ تو چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔ اپنے کام سے متعلق اگر آپ کے پاس کوئی ویژن ہے تو دیانتداری کے ساتھ کام کرتے جائیں کانٹوں کی سیج بھی آسان ہوجائے گی۔
سوال: آپ کا ویژن کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کے تحفظ اور فروغ کا موقع عنایت کیا ہے تو انشاء اللہ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اردو کے منظر نامے میں کوئی نیا رنگ بھریں گے... ایسا رنگ جو چوکھا بھی ہو اور انوکھا بھی۔ جب میں نے عہدہ قبول کیا تو کئی چیالنجس تھے اور ہیں‘ ان کا سامنا کرنا ہے...
سوال: کس قسم کے چیالنجس؟
جواب: این سی پی ایو ایل‘ ایک اشاعتی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم فراخ دلی کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کے لئے مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ کتابوں کی نکاسی کے لئے تھوک خریداری کرتے ہیں۔ مشاعروں، مذاکروں کے لئے گرانٹ جاری کرتے ہیں... کمپیوٹر ٹریننگ سنٹرس قائم کررہے ہیں۔ اردو‘ فارسی اور عربی لرننگ کورسس کا اہتمام کررہے ہیں۔ تاہم ان کے نتائج کیا ہیں‘ کیا ہونا چاہئیں... اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کی ترقی کے لئے تو حکومت سنجیدہ ہے مگر اردو والے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگر اردو والے سنجیدہ ہوں تو اردو کی ترقی ممکن ہے۔
سوال: سنجیدگی سے مراد؟
جواب:اردو والوں نے اردو کے ساتھ وہی احساس پال رکھا ہے جیسا کہ مذہب کے تعلق سے ہے‘ مذہب‘ زبان اور ادب کسی کی میراث نہیں ہے۔ جو ان کے لئے محنت کرتا ہے‘ جو ان کی قدر کرتا ہے یہ ان کے حصے میں آجاتے ہیں۔ اردو والے اپنی زبان اور ادب کی ترقی اس کے تحفظ کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔
سوال: فارسی اور عربی تربیتی کورسس کا مقصد؟
جواب:اردو کا تعلق فارسی اور عربی سے ایسا ہی جیسے ماں اور باپ کا رشتہ۔ اچھی اردو جاننے والے کے لئے فارسی کے ساتھ عربی زبان کی سوجھ بوجھ ضروری ہے۔ یہ غالب کے قصیدوں، اقبال کے کلام، سودا کے اشعار کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔
سوال: این سی پی یو ایل نے سائنس اور ٹکنالوجی کے استعمال اور اس سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر خاص توجہ دی ہے؟
جواب: جی ہاں! یہ دور سائنس اور ٹکنالوجی کا ہے۔ کمپیوٹر ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ ہمیں زمانہ کی رفتار سے ہم آہنگ ہونا چاہئے‘ ورنہ زمانہ ہمارا ساتھ نہ دے گا۔ آگے نکل جائے گا۔ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اس پس منظر میں این سی پی یو ایل نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کمپیوٹر ٹریننگ یعنی DTP ٹریننگ کورسس کا آغاز کیا۔ ملک بھر میں اس کے مراکز قائم کئے گئے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اردو کو کسی حد تک روزگار سے جوڑنے میں کامیابی ملی۔
ایک زمانہ تھا جب اردو اخبارات کے مالکان‘ شاعر اور ادیب اخبارات اور کتابوں کی کتابت کے لئے کاتبین کے رحم و کرم پر ہوا کرتے تھے۔ یہ ممکن بھی نہ تھا کہ ایک آدمی ایک دن میں سو ڈیڑھ سو صفحات کی کتابت کرسکے۔ اب کمپیوٹر کی آمد اِن پیج سافٹ وےئر کے بازار میں آجانے سے بڑی سہولت فراہم ہوگئی۔ اس کے نتیجہ میں کتابوں کی اشاعت نہ صرف تیز ہوتی ہے بلکہ ان میں خوبصورتی‘ نفاست اور دلفریبی آگئی ہے۔ اس کا بڑا فائدہ اردو صحافت کو ہوا ہے۔ تاہم کمپیوٹر سے ایک نقصان یہ ہوا کہ کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی اور چھُپتی رہیں۔ یہ المیہ ہے کہ زیادہ تر توجہ ادب کی ترویج و اشاعت پر مرکوز ہوگئی جبکہ زبان کی ترقی اور ارتقاء کے حوالے سے صرف سینہ کوبی کا شیوہ اختیار کررکھا ہے۔ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری کتابیں سرکاری امداد کے ساتھ چھپ بھی جائیں گی اور چھُپ بھی جائیں گی۔ ان کا پڑھنے والا نہیں ملے گا۔
سوال:این سی پی یو ایل نے اردو صحافت کی ترقی کے لئے تو بہت کچھ کیا ہے اور کرناچاہتی ہے‘ مگر کیا وجہ ہے کہ اچھے اردو صحافی نہیں ملتے... کونسل اس سلسلہ میں کیا کرسکتی ہے؟
جواب:ہم مشینیں، عصری ٹکنالوجی‘ وسائل فراہم کرسکتے ہیں۔ مشینیں ادیب یا صحافی پیدا نہیں کرسکتیں۔ مشینوں کے پاس دماغ اور دل نہیں ہوتا۔ یہ تو ادیب اور صحافی کے پاس ہوتے ہیں۔ ایک صحافی ہی کیا‘ اچھے شاعر و ادیب‘ تنقید نگار بھی کہاں نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مطالعہ کی میز پر ہم نے بیٹھنا کم کردیا ہے
’’وہ شجر بوئے نہیں جن کے ثمر مانگتے ہیں‘‘
اچھے صحافی، اچھے ادیب بننے کے لئے محنت شاقہ کی ضرورت ہے۔ نئی نسل اس محنت سے جی چرارہی ہے۔ اگر نئی نسل کی بھلائی کے لئے سختی کرتے ہیں تو وہ آپ کے حکام بالا سے آپ کی شکایت کرتے ہیں۔ اگر کوئی پروفیسر ریسرچ اسکالر کے مقالے کا ایک سے زائد مرتبہ اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس پر ستانے یا تنگ کرنے کے الزامات عائد ہوجاتے ہیں۔ نیوز ایڈیٹر کسی سب ایڈیٹر یا رپورٹر کی خبر کو ایک سے زائد مرتبہ مسترد کردیتا ہے۔ اس پر ہراسانی کا الزام آجاتا ہے۔
سوال:آپ کے پاس اردو کی ترقی، اچھے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں کی تیاری کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟
جواب:سب سے پہلے اردو والے احساس کمتری کے خول سے باہر نکلیں‘ ہم ذہنی طور پر مغرب کے غلام ہیں۔ ہمارا یہ تصور ہی نہیں ایقان ہے کہ مغرب ہی سب کچھ ہے۔ انگریزی تعلیم، انگریزی زبان، ثقافت میں ہمارا مستقبل ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مشرق نے ہمیشہ مغرب کی رہنمائی کی ہے۔ مشرق نے ہمیشہ تہذیب کی شمع روشن کی ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت اور تہذیب کو سنبھال کر رکھنا ہے۔ اپنے ملک‘ اپنی زبان‘ تہذیب قوم‘ تمام تر حوالوں سے نئے منظر نامے کو مرتب کرنے کی کوشش کریں کسی نے کہا ہے کہ:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
مشکل یہ ہے کہ ہم پیوستگی شجر سے ناآشنا ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی ترقی اور اس کے ارتقاء کے تعلق سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اردو کی ترقی کے لئے ہر اردو والا‘ ایک غیر اردو والے کو اردو پڑھائے... جس دن ہم نے یہ عہد کرلیا‘ اس دن سے ہماری زبان تہذیب اور ثقافت کی بقاء کی طمانیت مل گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم خود اردو اخبارات نہیں پڑھتے‘ اردو کتابیں نہیں پڑھتے۔ہم تین سو کتابیں چھاپتے ہیں تو ڈیڑ سو کتابیں تو دوست و احباب کو تحفہ میں چلی جاتی ہیں‘ باقی کی ڈیڑھ سو کتابیں پتھر کا آچار بن جاتی ہیں۔ پتھر کو گلانے کا کوئی کیمیکل ابھی ایجاد نہیں ہوا۔ پتھر گلانے سے مراد کتابوں کی نکاسی ہے۔ ایسا کیوں‘ اردو کتابوں کے خریدار نہیں ملتے۔ یہی کتابیں دیوناگری میں چھاپی جاتی ہیں تو قابل لحاظ تعداد میں فروخت ہوجاتی ہیں۔ ذرا سنجیدگی سے اس سلسلہ پر غور کیجئے...
ہمیں اردو کا قاری پیدا کرنا ہے۔ اردو کا قاری اردو کے مستقبل کا ضامن ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا