English   /   Kannada   /   Nawayathi

’ہر جرم میری ذات سے منسوب ہوا ہے‘

share with us

ابھی چند دنوں قبل وزیر داخلہ نے مسلمانوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان داعش جیسی ممنوعہ تنظیموں کو ہند وستان میں پنپنے نہیں دیں گے۔ ان باتوں اور حالات سے امید کی ہلکی سی کرن جاگی تھی کہ شاید اب ہمارے نوجوانوں کی بے جا گرفتاری کا تسلسل دم توڑ جائے گا۔۔۔اب مسلمانوں کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے جیل کے سلاخوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔۔۔پھر کسی قتیل کو جیل میں قتل نہیں کیاجائے گا،اب کسی ماں کی گود سونی نہیں کی جائے گی، معصوم کے سروں کو دست شفقت سے محروم نہیں کیا جائے گا، کسی سہاگن کا سہاگ نہیں اجاڑا جائے گا۔ خواب تو خواب ہوتے ہیں، انہیں دیکھنے کا حق تو حاصل ہے لیکن وہ حقیقت میں تبدیل ہوجائے اس کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ جو سلسلہ تھما تھما سا محسوس ہورہا تھا، جہاں سے پانی کے گزرنے کی بھی امید نہیں تھی وہاں ایسا سیلاب آیا کہ سب کچھ بہا لے گیا، یکے بعد دیگرے گرفتاری نے مسلمانوں کے ہوش اڑا دئے اور جس طرح میڈیا نے ان کے خلاف زہر افشانی کی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دہشتگردی کے الزام میں پولس نے نہیں بلکہ انہیں میڈیا والوں نے دھڑ دبوچا ہے اور جو کچھ وہ بیان کررہے ہیں سب مشاہدہ ہے۔ اسی درمیان دہلی کرائم برانچ نے بنگلور کے مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا انظر شاہ قاسمی کو القاعدہ سے تعلقات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ، مولانا ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، ہندوستان میں ایک بڑی تعداد ہے جو حضرت کے بیانات سے استفادہ کرکے اپنی زندگی ایک سچے مسلمان اور بہترین شہری بن کر گزار رہے ہیں، حضرت والا کی تقریریں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں، مولانا نے اپنی زندگی کا مقصد ہی اشاعت اسلام کو بنا لیا ہے، مولانا کے بیانات میں ایک عمومی پہلو جو بہت اجاگر ہوا کرتا ہے وہ اخلاقیات ہے، اخلاقی پہلو پر مولانا کی سیر حاصل تقاریر ابھی بھی موجود ہے، مولانا کی گرفتاری کس بنیاد پر ہوئی ہے ؟ اور کون سے الزام مولانا پر ثابت ہوئے ہیں ؟ یہ تو عدالت میں جانے کے بعد معلوم ہوگا، مولانا باعزت بری کئے جاتے ہیں یا پھر جرم ثابت ہونے پر قید با مشقت کی زندگی زنداں کی تاریکیوں میں گزارتے ہیں۔ ان باتوں کا خلاصہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ عدالت اپنا فیصلہ نہ سنادے، جب تک کسی کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہو اسے مجرم نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہوتا ہے ہندوستانی میڈیا پر جس نے مولانا کی گرفتاری کو اس انداز سے پیش کیا ہے گویا کہ عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور تمام شواہد موجود ہیں، مولانا پر وطن سے غداری کا جرم طشت از بام ہوچکا ہے، ہندوستان کے مشہور ترین نیوز چینل’’آج تک‘‘کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں: ’’بنگلور سے گرفتار ہوا القاعدہ آتنکی بھارت میں اب تک پکڑے گئے القاعدہ کے چار آتنکی، دہلی پولس کی اسپیشل سیل نے پکڑا ہے بنگلور سے ایک آتنکی، دہلی پولس کے شکنجے میں آیا یہ القاعدہ کا چوتھا آتنکی ہے، انظر شاہ نام کے القاعدہ کے آتنکی کو بنگلور کے جے نگر سے پکڑا گیا ہے ، انظر شاہ القاعدہ کے سلیپر سیل کا کمانڈر ہے آتنکیوں کی ہر طرح سے مدد اور ان کو روپیہ پہنچانا اس کا کام تھا، پولس کو انظر شاہ کے آتنکیوں کو مدد فراہم کرنے کے کئی ثبوت بھی ملے ہیں‘‘۔ آخر ایسے کون سے شواہد ہیں، اسی طرح کا معاملہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملا تھا جب ممبئی حج ہاؤس کے امام مولانا یحییٰ صاحب پر الزامات کی بارش کی گئی تھی، انہیں غدار وطن بنانے میں میڈیا نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن جب انہیں راحت ملی تو میڈیا والوں کو سانپ سونگھ گیا، ان کے راحت کی خبر میڈیا کی زینت نہیں بن سکی تھی، اکشر دھام مندر معاملہ میں گیارہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے والے مولانا عبدالقیوم صاحب کی روداد ستم بھی عام ہوچکی ہے، ان کے گرفتاری کی خبر تو پورے زور و شور سے دکھائی جارہی تھی لیکن گیارہ سال کے طویل وقفے کے بعد جب انہیں عدالت عالیہ سے رہائی نصیب ہوئی تو میڈیا والے نہ جانے کس غار میں جا چھپے ۔ 
ہمارے ملک میں القاعدہ اور داعش کے الزام میں مسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دوسری اننگ میں حکومت کتنوں کی زندگی سے کھلواڑ کرتی ہے، کتنے عدالت کے ذریعہ مجرم قرار دیئے جائیں گے اور کتنوں کو رہائی نصیب ہوجائے گی، شک کی بنیاد پر گرفتار کرنے کے بعد پندرہ بیس کی زندگی خراب کردینا ایک عام سی بات ہے، اگر کوئی بے قصور ثابت ہورہا ہے تو اس کے ہرجانہ کی فکر کسی کو نہیں ہوتی ہے، ان کے خلاف کہانی گھڑنے والے کسی دوسرے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں، مسلمانوں کا رشتہ القاعدہ اور داعش جیسی ممنوعہ تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ وہ تنظیمیں ہیں جن کے متعلق مسلم قائدین کے بیانات بھرے پڑے ہیں، مولانا ارشد مدنی، مولانا سجاد نعمانی، مولانا سلمان ندوی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا حالیہ مضمون، مسلمانوں نے ہر طرح سے خود کو اس بات سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن معلوم نہیں کیوں القاعدہ کا بھوت وقفہ وقفہ سے آتا ہی رہتا ہے، کسی شخص واحد کی بے جا حمایت مقصود نہیں ہے، ملک کی سلامتی کیلئے ہر طرح کے اقدامات ضروری ہیں، لیکن اس کا طریقہ کیا ہونا چاہئے یہ قابل غور ہے، انہیں دنوں انل کمار صاحب بھی ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں، مولانا کی گرفتاری بھی اسی عنوان سے ہے لیکن جس طرح کے فیصلہ کن الفاظ اینکر نے مولانا کیلئے بار بار استعمال کیا ہے اس کا انل کمار کی خبر میں دور دور تک گزر نہیں ہے، میڈیا کی ذمہ داری خبروں کو عوام تک پہونچانا ہے نہ کہ اپنے یکطرفہ فیصلہ سنانے ہیں۔ اگر مولانا کو عدالت سے باعزت بری کردیا گیا تو کیا یہ جواب دیں گے کہ انہیں کہاں سے خبر ملی تھی کہ مولانا القاعدہ کے سلیپر سیل کے کمانڈر ہیں ، مولانا کی گرفتاری نے بہت سارے سوالات کھڑے کردیئے ہیں، اور مسلمانوں کو اس مقام پر پہونچادیا ہے کہ ہم اگر اب بھی نہیں سنبھلے تو ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں، مسلکی اختلافات سے پرے خود کو سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر شعبہ جات میں ایک مسلمان کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا، مصیبتیں کبھی بتا کر نہیں آتی ۔ اس سے زیادہ بیوقوف اور کون ہوسکتا ہے جو طوفان نوح میں صحیح راستہ چننے کے بجائے پہاڑ کی بلندی سے امید وفا کر بیٹھے، دنیا میں جس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں ان سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، الجھنے کے بجائے اپنے مسائل کو سلجھانے کی ضرورت ہے، اگر آپ کے کسی بھائی کے ساتھ کوئی پریشانی ہے تو اس کا حل تلاش کیجئے ورنہ یہی ہوگا کہ
’’اس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا*میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے‘‘ 
ہم ایک ایسی قوم کی شکل اختیار کربیٹھے ہیں جو فقیر بھی ہے اور بیوقوف بھی، جس میں عزم و حوصلہ کا گزر بھی نہیں ہے، اور نہ ہم خود ان باتوں کو اپنی زندگی سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور جب تک ہم خود میں تبدیلی کے خواہاں نہیں ہوں گے ہم میں کوئی دوسرا تبدیلی نہیں کرسکتا ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا