English   /   Kannada   /   Nawayathi

انوپم کھیر کامارچ ملک کیلئے نہیں بی جے پی کی حمایت میں تھا

share with us

مسٹر کھیر کے اس بیان سے معلوم ہورہاتھا کہ شاید ہندوشدت پسندوں کی امن مخالف سرگرمیوں اور افواہ کی بنیاد پر نوئیڈا کے دادری میں اورابھی 2نومبر2015کو ریاست منی پور کے امپھال ضلع کے کوئیراؤ گا ؤں میں ایک معلم کوگائے چوری کی افواہ میں ہجومی دہشت گردی کے ذریعہ قتل بھی ان کے خیال میں ہندو فرقہ پرستی فرقہ پرستی نہیں ہے۔آج مہنگائی کی وجہ سے امیرو غریب کی کھائی کو اورزیادہ گہرا کردیا گیا ہے ،مگر یہاں بھی کھیر جیسے لوگوں کی نظر میں کوئی بری چیز نہیں ہے۔غریبوں کی تھالی سے دال تک چھین لی گئی ہے اور نام نہاد دھرم کا جھنجھنا تھما کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔اے کاش کھیر جیسے لوگ غریبوں کے ہمدرد ہوتے اور انہوں نے تفریق اور عدم رواداری کی سیاست کو مہنگائی کی سرمایہ دار نواز پالیسی کے تناظر میں دیکھنے کی زحمت کی ہوتی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں تو کل کا پورا مارچ ہی بی جے پی اور سنگھ کی مذموم سازشوں کو حمایت دینے کیلئے آرگنائز کیا گیاتھا ،جس کی قیادت اگرچہ انوپم کھیر کررہے تھے ،لیکن وہ بالی ووڈ کے فن کار کے طور پر نہیں بلکہ بی جے پی رکن پارلیامنٹ کے شوہرکے طورپرمارچ کی قیادت کررہے تھے۔ 
انوپم کھیر اور اور ان کے ساتھیوں نے صدر مملکت کو ایک عرضداشت پیش کی ہے جس میں انھوں نے عدم رواداری کی بات کرنے والی فلمی ہستیاں اور دانشور ملک کو غیر ممالک میں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انوپم کھیر اور اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بھارت پوری طرح روادار ملک ہے اور کسی کو بھی اسے عدم روادار کہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ انھوں نے احتجاج کرنے والے ادیبوں اور دانشوروں کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔ تاہم انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔پچھلے دنوں بی جے پی کے سنیئر رہنما وینکیا نائیڈو اور پارٹی صدر امیت شاہ نے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کس طرح عدم رواداری کے خلاف کیا جانے والا احتجاج حکومت کے خلاف مخالف جماعتوں کی ایک سیاسی سازش کا حصہ ہے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے خلاف مصنفین اور فنکاروں کے مظاہرے کے جواب میں بالی ووڈ اداکار انوپم کھیرنے ہفتہ کے روز راشٹرپتی بھون تک ایک مارچ کی قیادت کی۔انہوں نے الزام لگایا کہ ایوارڈ واپسی مہم حالات کی غلط تصویرپیش کرکے ملک کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔چنڈی گڑھ سے بی جے پی ایم پی کرن کھیر کے شوہر نے نامہ نگاروں سے کہاکہ ہندوستان بہت روادار قوم ہے،کچھ لوگوں نے بڑھتے ہوئی عدم برداشت جیسی اصطلاحات ایجاد کی ہے،ان کی تعدادبہت کم ہے،تمام ہندوستانی اس طرح نہیں سوچتے ہیں،ہم لوگ سیکولر ہیں،ہم لوگ چھدم سیکولر ازم میں یقین نہیں کرتے ہیں۔اداکار نے کہا کہ ہم لوگوں نے کئی مصنفین، فنکاروں اور فلم سازوں کے ساتھ ملاقات کی اور ان کا بھی ماننا ہے کہ ملک میں کسی طرح کی عدم رواداری کا ماحول نہیں ہے۔ مارچ بہت سے لوگوں کی طرف سے علامتی طور پر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ایک ہے اور یہاں کسی قسم کی عدم برداشت نہیں ہے۔مدھر بھنڈارکر، اشوک پنڈت، پریہ درشن، منوج جوشی،ابھیجیت بھٹاچاریہ اور مصنف مدھو کشور سمیت کئی فلم سازوں اور فنکاروں نے روینا ٹنڈن سمیت 40سے زائد شخصیات کی طرف سے دستخط میمورنڈم سونپنے کے لئے مارچ میں حصہ لیا۔نیشنل ایوارڈ یافتہ بھنڈارکر نے الزام لگایا کہ جو لوگ عدم برداشت کو لے کر مخالفت کر رہے ہیں ان لوگوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخاب سے پہلے ان کی مخالفت کی تھی جو ان کی منشا پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
عوام کو اچھے دن کا خواب دکھا کر اقتدار کی کرسی پر فائز ہونے والے نریندر مودی اور ان کے دیگر سینئر قائدین پچھلے 18 ماہ سے وقفہ وقفہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں عدم رواداری پھیلانے کے معاملہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں ۔ جہاں تک عدم رواداری کا سوال ہے ، آزادی کے بعد سے اس قدر سنگین صورتحال کبھی بھی ملک میں نہیں دیکھی گئی ۔ اگر دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ایک بڑی سازش کارفرما نظر آتی ہے ۔ سب سے واضح جو بات ہم سمجھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی خفیہ تدابیر کی جارہی ہیں ۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا واحد مقصد ملک کی تمام اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرتے ہوئے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اکثریت حاصل کرنا ہے ۔ تاکہ من مانے فیصلے اور اپنی مرضی موافق بلس منظور کروائے جاسکیں ۔ لیکن ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں ایسا ممکن نہیں ۔ بی جے پی کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے صرف 33 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 67 فیصد ہندوستانی عوام اس کے مخالف ہیں ۔ ایسے میں عدم رواداری کا ماحول پیدا کرکے حالات کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش بے سود ثابت ہوگی ۔ رواداری ، ایثار ، قربانی اور عدم تشدد عالمی سطح پر ہندوستان کی پہچان اور اس کی شناخت ہے ۔ عالم عرب سے لیکر افریقہ اور یوروپ میں بھی بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پیام عدم تشدد کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس بارے میں ہمارے خاموش وزیراعظم نریندر مودی اور سنگھ پریوار کے دیگر قائدین اور تنظیمیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدم رواداری کے خلاف ملک بھر کے ادیبوں ، شعراء اور فنکاروں نے ایوارڈس اور اعزازات واپس کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ خوش آیند ہے ۔ نریندر مودی جی کو سمجھ لینا چاہئے کہ صرف ادیب و شعراء اور فنکار ہی این ڈی اے حکومت میں پھیلی عدم رواداری کے خلاف نہیں ہیں ، بلکہ ساری ہندوستانی قوم اس کی مخالف ہے اور وہ ملک میں امن و امان چاہتی ہے ۔ عام آدمی یہ نہیں چاہتا کہ بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جلایا جائے ۔ ملک کے کسی کونے میں دادری واقعہ کا اعادہ نہ ہونے پائے ۔ توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر نریندر دھابولکر اور گویند پنسارے کو دن دھاڑے قتل نہ کیا جائے ۔ مذہبی استحصال کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کرنے پر کسی کے سر میں گولی نہ ماری جائے ۔ ہندوستانی شہری یہی چاہتے ہیں کہ بیرون ملک ہندوستان کی شان اس کے وقار اور احترام میں کمی نہ آئے ۔ بلکہ ایک روادار ملک کی حیثیت سے ساری دنیا میں اس کی پہچان باقی رہے ۔(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا