English   /   Kannada   /   Nawayathi

نوبل پرائز کی بدلتی شکل وصورت

share with us

ٍ ۱۸۸۸ء میں فرانس کے ایک اخبار نے الفریڈ نوبل کے بھائی کی موت کی خبر کو خود ان کی انتقال کی خبر سمجھ کر اس پر ایک تفصیلی مضمون شائع کردیا جس میں انہیں ڈائنا مائٹ کے بادشاہ اور موت کے سوداگر سے تعبیر کیاگیا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت سے الفریڈ نوبل کے ذہن ودماغ پر سخت ردعمل ہوا ور اس وقت انہوں نے اپنی لامحدود دولت کو مفید کاموں میں خرچ کرنے کا فیصلہ کرلیا چنانچہ انتقال سے ایک سال قبل اپنی خود نوشت وصیت نامے میں نوبل نے یہ ہدایت تحریر کی کہ ان کی وسیع دولت کے بیشتر حصہ کو پانچ بین الاقوامی انعامات کے لئے استعمال کیاجائے اس طرح یہ انعامات فزکس ، کیمسٹری، میڈیسن ،لٹریچر اور پیس(امن) کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو دےئے جانے لگے ۔
کئی برسوں سے نوبل انعام کی عزت میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ اس انعام کو اعلیٰ کارکردگی اور ذہانت کا بین الاقوامی معیار تصویر کیاجانے لگا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے انعامات اگرچہ نسبتاً قدیم اور بیش قیمت ہیں لیکن عزت افزائی کے اعتبار سے نوبل پرائز کے ہم پلہ قرار نہیں پاتے جو دنیا کا سب سے بڑا افتخار ہے جس سے کسی باصلاحیت آادمی کو نوازا جاسکتا ہے۔
نوبل انعامات کے لئے ایک سال قبل امیدواروں کی نامزدگی کے بارے میں دعوت نامے پرانے انعام یافتہ افراد کو اوار ۱۵ ممالک کی یونیورسٹیوں نیز اداروں کو بھیج دےئے جاتے ہیں۔ 
سائنس کے تینوں انعامات کے لئے نامزدگی کے کاغذات انعامات تقسیم ہونے والے سال میں یکم فروی تک وصول ہوجانے چاہئے ، مختلف کمیٹیاں انعامات کی تقسیم عمل میں لاتی ہیں جن میں فزکس اور کیمسٹری کے انعامات کیلئے ’’سویڈش اکاڈمی آف سائنس‘‘ میڈیسن کے انعام کے لئے ’’ اسٹاک ہوم کا کارونسکا انسٹی ٹیوٹ‘‘ ادب کے انعام کے لئے اسٹاک ہوم میں واقع ’’اکاڈمی فارلٹریچر‘‘ اورا من کے انعام کے لئے نارو ے کی پارلیمنٹ کے پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔
مذکورہ کمیٹیاں موصولہ تجاویز کی بنیاد پر جائزہ لیتی ہیں اور اس وقت سے لیکر اکتوبر تک جبکہ انعامات کا اعلان کیاجاتا ہے کمیٹی کے ارکان اور متعدد دیگر ماہر ین امیدواروں کی کارکردگی کی گہری تحقیقات کرتے ہیں۔
ان آٹھ ماہ کے دوران فزکس اور کیمسٹری کے انعامات دینے والی کمیٹی کی نشستیں بارہ مرتبہ ہوتی ہیں جن میں غیررسمی مباحثے شامل نہیں کمیٹی کے مختلف ارکان میں یہ کام تقسیم ہوجاتا ہے کہ وہ احتیاط کے ساتھ ادب کا جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ امیدوار نے کتنی اہلیت، جدت اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے، ممبران یہ فیصلہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آیا انعام پانے والا امیدوار اپنے کا م میں منفرد ہے۔ یا انعام کے حصہ دار کچھ دیگر افراد بھی ہوسکتے ہیں،اس طرح کمیٹیاں ستمبر کے اختتام تک اپنی رپورٹیں پیش کردیتی ہیں اور انعام پانے والوں کا انتخاب اکثریت کے فیصلہ سے کردیاجاتا ہے۔ 
ایک نظر میں انعامات کے لئے انتخاب کا یہ طریقہ مکمل محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں فیصلے کی بعض غلطیاں سرزد ہونے کا امکان بہر حال موجود ہے
کیونکہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ علامہ اقبال جیسے آفاقی شاعر، مہاتماگاندھی جیسے عدم تشدد کے علمبردار اور فیض احمد فیض جیسے مظلوموں کے مسیحا شاعر اور سوشل ورکر کو نوبل انعام دینے پر غور کیوں نہ ہوا، جہانتک ہندوستان کا سوال ہے تو سب سے پہلے ادب کا نوبل پرائز ۱۹۱۳ء میں رابیندر ناتھ ٹیگور کو ملا اور دوسرا پرائز۱۹۳۰ء میں سی وی رمن کو فزکس میں تفویض ہوا تھا ، ۱۹۶۸ء میں ہرگووند کھرانہ بھی دو دیگر کے ساتھ مینڈیسن میں یہ انعام حاصل کرچکے ہیں امن کا انعام پانے والوں میں ایک اہم نام مدرٹریسا کا ہے جو ۱۹۷۹ء میں دیا گیا، ۱۹۸۳ء ہندوستان کو فزکس میں دوسری مرتبہ یہ اعزاز سبرامنیم چندر شیکھر کے ذریعہ ملا، اسی طرح ۱۹۹۸ء میں امرتیہ سین کو معاشیات میں گرانقدر کام پر امن کے لئے یہ انعام دیا گیا جبکہ ۲۰۰۹ء میں کیمسٹری میں یہ انعام وینکٹ رمنا کے حصہ میں آیا تھا، اس کے چھ سال بعد سال گزشتہ امن کا نوبل پرائز پاکستانی لڑکی ملالہ کے ساتھ ہندوستان کے سوشل ورکرس کیلاش ستیارتھی کو دیا گیا ہے جو اس لئے اہم ہے کہ ایک صدی سے زیادہ مدت سے نوبل پرائز کو عام آدمی کیلئے ناقابل رسائی تصور کیا جاتا رہا ہے ماضی کے بیشتر انعامات سائنسی علوم کے ماہروں کیلئے ہی مخصوص رہے لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ نیا رجحان فروغ پایا ہے کہ نمایاں عوامی خدمات پر بھی نوبل انعامات ملنے لگے ہیں اس سال امن کا نوبل انعام تیونس کی چارتنظیموں کو جن کا مزدور، تاجر، انسانی حقوق اور قوانین کے شعبوں سے تعلق ہے دیا گیا ہے، بحیثیت مجموعی اولمپک کھیلوں کی طرح نوبل انعام کی اپنی ایک اہمیت ہے اور یہ الفریڈنوبل کو موت کا سوداگر نہیں علم کا محسن اور امن کو ترقی دینے کا خواہشمند ثابت کرتے رہیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا