English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھوپال فرضی انکاؤنٹرمعاملہ: عدالت کا مداخلت و ہدایت جاری کرنے سے انکار(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

جمعیۃعلماء ہند کے توسط سے داخل کردہ پٹیشن میں عرضی گذار عبدالرشید محمد یوسف نے8افراد کو فریق بنایا تھا جس میں مدھیہ پردیش سرکار کے پرنسپل سیکریٹری، ڈائرکٹر جنرل آف پولس،انسپکٹر جنرل آف پریزن سینٹرل جیل، سپرنٹنڈنٹ آف پولس ہیڈ کوارٹر، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پریزن(بھوپال)، جیل سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل، اسٹیشن ہاؤس آفیسرپولس ہیڈکوارٹراور اسٹیشن ہاؤس پولس آفیسرگاندھی نگر(بھوپال) شامل تھے ۔پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جانچ کمیشن میں انکاؤنٹر میں مارے گئے مسلم نوجوانوں کے وکلاء کو بھی شامل کیا جائے لیکن اس تعلق سے بھی کوئی حکمنامہ نہیں جاری کیا گیا ۔دفاعی وکلاء نے بحث کے دوران عدالت کو بتایا کہ یکم نومبر کو ایک منصوبہ بند شازش کے تحت مبینہ سیمی کے رکن بتا کر8 مسلم نوجوانوں کا قتل کیا گیا اور اسے بعد میں انکاؤنٹر کا نام دے دیا گیا حالانکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آٹھ مسلم نوجوان ہائی سیکورٹی سیل سے کیسے فرار ہوئے تھے بلکہ پولس کی من گھڑت کہانی سے یہ بات واضح ہوتی ہی کہ مسلم نوجوانوں کو ایک منظم شازش کے تحت قتل کیا گیا جس کی اعلی سطحی اورغیر جانبدارانہ تحقیقات ہونا چاہئے ۔
سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں مدھیہ پردیش سرکار نے ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج جسٹس ایس کے پانڈے کی سربراہی میں ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے ، جس نے اپنی تفتیش شروع کر دی ہے لہذا عرضد گذارکا کوئی بھی مطالبہ اس موقع پر تحقیقات میں رخنہ پیدا کرنے کے متراد ف ہے لہذااس پٹیشن کو خارج کیا جائے ۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد جسٹس سنجو یادو نے اپنے سات صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا کہ اب جبکہ حکومت مدھیہ پردیش نے عدالت عظمی کے رہنما اصولوں کے مطابق جانچ کمیشن بنا دیا ہے لہذا جانچ کمیشن کی مکمل رپورٹ پیش ہونے تک اس تعلق سے کسی بھی طرح کی ہدایت جاری کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔جبل پور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃعلماء ہندمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمین نہیں ہیں اور وہ سینئر وکلاء سے صلاح و مشورہ کے بعد اس تعلق سے عدالت عظمی یعنی کے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جس طریقہ سے بھوپال انکاؤنٹر کیا گیا اس کی وجہ سے وہ خود شک و شبہات کے دائرے میں آ گیا اور مقتولین کے اہل خانہ کو یقین ہے کہ ان لوگوں کو ایک منصوبہ کے تحت پہلے جیل سے فرار کرایا گیا اور پھر پہلے سے تیار سازش کے تحت گھیر کر انکا انکاؤنٹر کر دیاگیا ۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کی سینٹرل جیل سے مبینہ طور پر آٹھ مسلم قیدی جن پر سیمی کے رکن ہونے کا الزام تھا جیل توڑ کر فرار ہوگئے تھے لیکن فرار ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ریاستی انسداد دہشت گرد دستہ نے ان لوگوں کو راجدھانی کے مضافات میں ایک انکاؤنٹر میں قتل کردیا تھا ۔

نوٹ بندی، مودی کے اپنے بھی دور ہونے لگے

نئی دہلی۔31دسمبر:2016(فکروخبر/ذرائع)وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بڑے کرنسی نوٹوں کو ختم کرنے کے فیصلے کے کئی ہفتوں بعد بھی ملک میں نقدی کا بحران جاری ہے جس کی وجہ سے ان کے اتحادی اور ان کی اپنی حکمراں جماعت بی جے پی کے کئی ارکان مضطرب ہیں اور ان میں سے چند نے خود کو متعدد ریاستوں میں ہونے والے انتخابات سے خود کو الگ کر لیا ۔برطانوی خبر رساں ایجنسی نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے چھ ارکان اسمبلی اور اس کی نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک سینیئر رہنما سے انٹرویو کیا جس میں انھوں نے کرنسی نوٹوں کو ختم کرنے کے فیصلے کے بعد نقدی کے بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے آئندہ سال کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں جماعت کی کارکردگی پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔چند ارکان اسمبلی سمجھتے ہیں کہ مودی کا فیصلہ درست تھا لیکن اس پر ٹھیک عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا ہے اور اب انھیں ووٹروں کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس اقدام سے بری طرح پریشان ہیں۔مغربی ریاست اتر پردیش میں بے جی پی کی انتخابی مہم کے سربراہ اور جونیئر وزیر خزانہ سنتوش گنویر کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹروں کو یہ سمھجانا مشکل ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔وزارتِ خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کے 71 ریاستی ارکان اسمبلی اور وزیر خزانہ کا دفتر نقدی کی کمی کے مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہا ہے۔آر ایس ایس کے سینیئر اہلکاروں کے مطابق انھوں نے مودی کو اس فیصلے سے کئی دن پہلے مشورہ دیا تھا کہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے اس کے لیے میدان ہموار کریں، جس نوٹ چھاپنے کے لیے ٹیکسال اور بینکوں کے نیٹ ورک میں توسیع شامل ہیں۔تاہم وزیرِ اعظم نے اس کے باوجود اس منصوبے پر عمل درآمد کا فیصلہ کر لیا، اس لیے حکام کے مطابق اس کی کامیابی یا ناکامی کی ذمہ داری تنہا انہیں کے سر ہو گی۔

شیخ عبدالحق اعظمی کی وفات ایک عظیم علمی سانحہ:مولانااسرارالحق قاسمی

نئی دہلی۔31دسمبر:2016(فکروخبر/ذرائع)دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث اور بزرگ عالم دین مولاناعبدالحق اعظمی کے سانحۂ وفات پراپنے گہرے صدمے کااظہارکرتے ہوئے معروف عالم دین اور ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی نے کہاکہ ان کی وفات دارالعلوم دیوبندہی نہیں پوری علمی دنیاکے لیے ایک عظیم خسارہ ہے جس کی بھرپائی مشکل ہے۔مولانانے کہاکہ موصوف ایک جلیل القدرمحدث اور شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمدمدنی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اورانہوں نے ایک طویل عرصے تک حدیث شریف کی تعلیم و تدریس اور نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا۔مولاناقاسمی نے کہاکہ حضرت شیخ موجودہ علماء دیوبندمیں نہایت مقبول و محترم تھے اوراعلیٰ اخلاق سے متصف انسان تھے۔انھوں نے جس طرح مکمل یکسوئی کے ساتھ علوم نبوی کی نشر و اشاعت میں اپنی ساری عمرصرف کی،وہ قابلِ تقلیداوران کے لیے ذخیرۂ آخرت ہے۔ مولانانے کہاکہ دارالعلوم دیوبندسے دلی نسبت اور لگاؤ کی بناپر حضرت کی وفات ان کے لیے ذاتی صدمہ ہے اورانھوں نے تمام متعلقین دارالعلوم اور مولانا عبدالحق اعظمی کے اہل خانہ کوتعزیت پیش کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی ہے۔واضح رہے کہ مولاناعبدالحق اعظمی گزشتہ 35 سالوں سے دارالعلوم دیوبندمیں استاذِحدیث تھے،صحیح بخاری جلدثانی ،مشکوۃ شریف ،الاشباہ والنظائرجیسی کتابیں مستقل ان کے زیر تدریس رہیں اوران کا اندازِ تدریس طلبہ و علماء میں بیحدمقبول تھا۔دارالعلوم دیوبندسے قبل انھوں نے ایک عرصے تک مدرسہ مطلع العلوم بنارس،مدرسہ حسینیہ جونپوراور دارالعلوم مؤمیں تدریسی خدمات انجام دیں اوراِس وقت ہندوستان کے علاوہ دنیاکے بہت سے ملکوں میں ان کے ہزاروں شاگردپھیلے ہوئے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا