English   /   Kannada   /   Nawayathi

مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پراناان کا!

share with us

آپریشن کواس حد تک خفیہ رکھنے کی وجہ سے کہیں کہیں یہ شبہ بھی ظاہر کیاگیاکہ ماضی کی طرح اس باربھی امریکہ جھوٹ بول رہاہے اور اسامہ ابھی بھی زندہ ہی ہے، ایسے بہت سے لوگ تواب بھی ہیں،جوامریکہ کے ایبٹ آبادوالے آپریشن کومحض ایک کھڑاگ مانتے ہیں،مگرامریکہ بہادرکی منطق کے سامنے کسی کی پیشی نہ گئی اور کہہ دیاگیاکہ اس کی لاش کوسمندرکی نذر کردیاگیا۔میڈیامیں کچھ دنوں تک ہوہلّہ ہوااورپھرحسبِ معمول سب اپنے اپنے کام پر لگ گئے۔مگرامریکہ تونہیں چاہتاکہ اسامہ کی موت کے بارے کسی کوکوئی شبہ رہے،سووہ وقفے وقفے سے اس قسم کی چیزیں، رپورٹس اوردستاویزات عام کرتارہتاہے،جس سے اس کا مقصدیہ ہوتاہے کہ دنیا کویہ باورکرادیاجائے کہ واقعتاً امریکہ نے اسامہ کومارگرایاہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی پھر سامنے آئی ہے،اس میں بھی حسبِ سابق عالمی میڈیا بھرپوردل چسپی لے رہاہے،مگراس سے زیادہ ہندوستانی میڈیااسے اُچھالنے میں سرگرم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ایبٹ آبادمیں اسامہ کی رہایش گاہ سے جوکچھ دستاویزات حاصل کیے تھے،ان میں اس کی ایک ذاتی ڈائری بھی تھی،اصلاً یہ ڈائری عربی زبان میں تھی،جس کا انگریزی ترجمہ عام کیاگیا ہے، یہ کل15؍صفحات پر مشتمل ہے اوراس میں بہت سی ’قیمتی اورراز کی باتیں‘ ہیں، جن کازیادہ تر تعلق ہندوستان سے ہے۔اس کے مطابق اسامہ نے ممبئی میں26/11حملے کو’جاں بازانہ‘جبکہ پونے کی جرمن بیکری میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کو’خوب صورت‘قراردیاتھا۔اس کے مطابق القاعدہ لندن میں بم دھماکے کے بعد مصر، انڈونیشیا، پاکستان اور ہندوستان میں ان مقامات پردہشت گردانہ حملے کرنا چاہتاتھا،جہاں امریکی اوریورپی باشندوں کی کثرت ہوتی ہے۔ممبئی کے تاج ہوٹل اورپونے کی جرمن بیکری کا انتخاب بھی اسی مقصدسے کیاگیاتھا؛کیوں کہ ان دونوں مقامات پرغیرملکیوں کی ہی کثرت ہوتی ہے۔ڈائری میں یہ صراحت بھی ہے کہ ممبئی اور پونے حملوں میں پاکستان کے لشکرِ طیبہ کاہاتھ تھا(اب القاعدہ اور لشکرِ طیبہ کے باہمی کنکشن کی تفتیش کون کرے؟!)اسی ڈائری سے ایک اور بات معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اس میں اسامہ نے ذکرکیاہے کہ9۔2008ء کے دوران مدینہ میں مقیم ایک ہندوستانی بھائی نے القاعدہ کی مالی مددکی تھی؛ بلکہ رقم کی مقدارکی بھی صراحت کی گئی ہے،ڈائری کے مطابق اس ہندوستانی نے مئی 2008ء میں القاعدہ کو 292,400پاکستانی روپے بھیجے تھے،جبکہ جولائی2009ء میں اس نے 335,000روپے القاعدہ کوفراہم کیے تھے،ڈائری میں یہ بھی تحریر ہے کہ اسامہ نے رقم پہنچانے والے کوپانچ ہزارروپے ٹپ کے طورپردیاتھا۔اس ڈائری کے علاوہ اوربھی کچھ کتابیں،بہت سی انگریزی کتابوں کی فہرست اوردیگردہشت گردتنظیموں کی جانب سے مطبوعہ موادبھی عام کیے گئے ہیں۔ امریکہ کی قومی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈنونس کہناہے کہ ’’یہ امریکی شہریوں،تعلیم یافتہ افراد،صحافیوں اورتاریخ نگاروں کے لیے اسامہ بن لادن کے دستاویزوں کوپڑھنے اور سمجھنے کا اچھاموقع ہے‘‘۔
کمال ہے جناب!اسامہ کوتوآپ کے بقول ہی آپ نے چارسال پہلے ہی ماردیا،مگراس کے حوالے سے اتنی اہم معلومات اب فراہم کر رہے ہیں،اس کی قیام گاہ سے حاصل ہونے والے یہ دستاویزات اتنے تہہ دارتھے کہ انھیں پڑھنے،جاننے اور سمجھنے میں آپ جیسے ’مہانایکوں‘کوپورے چارسال کا عرصہ لگ گیا!اہم چیزجومذکورہ ڈائری کے حوالے سے سامنے آئی ہے،وہ یہ ہے کہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا مدینہ میں مقیم کسی ہندوستانی سے بڑا گہراتعلق تھا اور وہ ہندوستانی اس کی فنڈنگ کیاکرتاتھا،اسے فنڈنگ کرنے والے تونہ معلوم دنیابھرمیں کہاں کہاں اورکتنے رہے ہوں گے،مگربطورِخاص ایک ہندوستانی کا ذکر اورپھرممبئی اور پونے کے حملوں کا ذکر(جبکہ نائن الیون کاکوئی ذکرنہیں!)توکچھ اورہی بتاتاہے۔اصل ڈائری توہم نے دیکھی نہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں؛ کیوں کہ وہ امریکہ بہادرکی خفیہ ایجنسی کے زیرحفاظت ہے،اس ڈائری میں کیاہے اور کیانہیں ہے،اس کا علم توہمیں امریکہ ہی سے حاصل ہوسکتاہے اورامریکہ نے ہمیں بتادیاہے کہ ممبئی کے تاج ہوٹل اورپونے کی جرمن بیکری میں کیے گئے حملوں سے کہیں نہ کہیں القاعدہ کابھی تعلق تھا،گواسے منطقی انجام تک لشکرِ طیبہ نے پہنچایاتھا،سوہندوستانی میڈیانے نہ صرف اس خبراورمذکورہ ڈائری کے ذریعے فراہم کی گئی معلومات پرآنکھ بند کرکے یقین کرلیاہے؛بلکہ وسیع پیمانے یہ بحث و مباحثہ بھی شروع ہوچکاہے کہ اسامہ نے اپنی ڈائری میں مدینہ میں مقیم جس ہندوستانی ڈونرکاذکر کیاہے،وہ کون ہوسکتاہے ؟اورہم امیدکرتے ہیں کہ ہماری ’’چست اور پھرتیلی‘‘حکومت اپنی خفیہ ایجنسیوں کوفوراًمدینہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کی فہرست سونپ دے گی اور پھروسیع پیمانے تحقیق و تفتیش کا ایک نیادورشروع ہوجائے گااورہماری ان ایجنسیوں کے ہاتھ اتنے ’لمبے‘ہیں کہ وہ ضروراُس ہندوستانی کے گریبان تک جا پہنچیں گے۔
یہ سچ ہے کہ آج دنیابھرمیں جوبدامنی و بے اطمینانی پھیلی ہوئی ہے،اس میں وسیع پیمانے پر دہشت گردانہ افراد،مشنریز،عناصراورتنظیموں کے پھیلاؤکارول ہے،مگرکیایہ سچ نہیں کہ فکرونظراور عقل و دانش کے ہزاردعوے کرنے والی یہ دنیاآج تک دہشت گردی کا صحیح مفہوم ہی طے نہ کر سکی،ہر ملک،ہر حکومت،ہر دانش ور،ہر مفکر،حتی کہ ہر شخص کے نزدیک دہشت گردی کا مفہوم و معنیٰ الگ الگ ہے۔ہاں اگرسبھوں کاکسی بات پراتفاق ساہے،تووہ اس پرکہ عموماً ملک و قوم کو تباہ و برباد کرنے والے لوگ مسلمان ہوتے ہیں،چاہے وہ جس بھی خطۂ ارضی سے تعلق رکھتے ہوں۔کتابوں سے لے کراخباری مضامین تک،اسکولوں سے لے کر کالجوں تک اور ہالی ووڈسے لے کربالی ووڈتک؛ہرجگہ یہ تصوُّریکساں طورپرپایاجاتاہے،گویادہشت گردی کی تعریف،حدود اوردائرۂ کارکی تعیین کے بغیرہی دہشت گردوں کی شبیہ ذہنوں میں موجودہے،پس جب کبھی دنیابھرمیں کہیں بھی کوئی پرتشددکارروائی ہو،تواسے اولاً توفوراً ہی دہشت گردانہ کارروائی قراردے دیاجاتا اورثانیاً کچھ ایسے چہرے بھی تلاش کرلیے جاتے ،جومسلم ناموں والے ہوتے ہیں،ماحول اس قدر دگر گوں ہو چکا ہے کہ آج کے دورمیں وہ دانش وران اورمفکرین بھی اسلام کوتشددسے جوڑکردیکھتے ہیں،جوکسی نہ کسی درجے میں اس کی حقانیت و صداقت و ہمہ گیریت کے قائل ہیں۔امریکہ کوہم نے نہ صرف سیاست و معیشت میں سپرپاورمان کر رکھاہے؛بلکہ ہماری ذہنیت یہ بن چکی ہے کہ فکرونظرکاہروہ زاویہ درست ہے، جو امریکہ نے اختیار کر رکھاہے؛حالاں کہ گزشتہ دودہائیوں کے دوران دنیابھراوربطورخاص مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے والی بدامنی و بے چینی کی تہہ میں جاکر دیکھاجائے،تومعلوم ہوگاکہ یہ ساری کی ساری تباہی امریکہ ہی کی طرف سے برپاکی گئی ہے۔کسی بھی ملک کی سیاست میں بن بلائے مہمان کی طرح مداخلت،ہزارمخالفتوں کے باوجودکسی بھی ملک میں اپنی فوجیں اتاردینااوروہاں کے باشندوں کوبم و بارودکالقمہ بنادینا،خوددنیاکے سب سے بڑے دہشت گرداسرائیل کی پشت پناہی کرنا،امن قائم کرنے کے نام پراپنی معیشت مضبوط کرنے کے لیے ساری دنیامیں ایک سے ایک ہلاکت ناک ہتھیارسپلائی کرنا، انصاف اور انسانیت نوازی کے پرفریب نعروں کے پس پردہ ناانصافی و حیوانیت کا ننگاناچ کرنا؛یہ سب توخودامریکہ کی کم ازکم سوسالہ عادت ہے۔خودنائن الیون کے تعلق سے اب تک تو ایسی ایسی تفتیشی و تحقیقی رپورٹس آچکی ہیں،جنھوں نے اس حقیقت کو طشت ازبام کرکے رکھ دیاہے کہ وہ حملہ القاعدہ یا اسامہ نہیں،خودامریکہ کاپلان کردہ تھا،مگردنیاکوتووہی مانناہے نا،جوامریکہ بہادرکہتاہے،پس اس نے کہاکہ نائن الیون کاحملہ القاعدہ نے کیاتھا،توسب نے مان لیا،پھرامریکہ نے کہاکہ اسامہ افغانستان میں ہے اورہم اسے ختم کرناچاہتے ہیں؛تاکہ دنیاکوپرامن بناسکیں،دنیانے کہاہاں ہاں حضور،ضرور؛چنانچہ دیکھتی آنکھوں افغانستان خاک و رماد کا ڈھیربنادیاگیا،پاکستان نے اس مہیب کارروائی میں امریکہ کے لیے کسی زرخریدغلام کارول اداکیا،مگراسامہ نہیں ملااورسانپ سیڑھی کایہ کھیل جاری رہا،پھرامریکہ نے عراق کونگلا،تیل کے ذخائرپرقبضہ کیااورصدام کوغائب کرکے ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی،جس کے ہاتھوں عراق ریزہ ریزہ ہوکربکھرگیا،پھر2011ء کے اوائل میں تیونس،لیبیا،یمن،شام میں ایک آگ پھیلی،بغاوت کی آگ اوریہ بھی خودامریکہ کے لیے فائدہ بخش تھی؛لہذااب اسامہ اورالقاعدہ کی اُسے ضرورت نہیں تھی، سواس نے اُسی سال مئی میں ایک کھڑاگ رچااوراس میں بھی اپنے زرخریدغلام پاکستان کواستعمال کیااوربالآخراسامہ نامی افسانے کا دی اینڈہوگیا۔
اب جوچارسال بعداُسامہ کی ڈائری کھل کر سامنے آئی ہے ،تواس میں بھی ایک شوشہ چھوڑدیاگیاہے،امریکہ جانتاہے کہ اِس وقت ہندوستان میں حکومت کس کی ہے اوروہ اس کے اشارے پرکیاکچھ کرسکتی ہے،اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ابھی جہاں پاکستان’را‘کے پیچھے پڑاہواہے،وہیں ہندوستان اس سے حافظ سعید،ذکی الرحمن لکھوی اور داؤدابراہیم کے معاملے میں اُلجھاہواہے؛لہذااس ڈائری میں ممبئی اورجرمن بیکری کے حملوں میں لشکرِطیبہ کے ملوث ہونے کی صراحت کرنے کے ساتھ ایک ’ہندوستانی بھائی‘کارشتہ القاعدہ سے بھی جوڑدیاگیاہے،اسے پتہ ہے کہ ہندوستان کے لیے اس سے زیادہ مضبوط سنداورکوئی نہیں ہوسکتی،توآئیے دیکھتے ہیں اُسامہ کی ڈائری کی کرشمہ سازیاں!!(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا