English   /   Kannada   /   Nawayathi

خبر ہونے تک.....

share with us

وزیر اعظم نریندر مودی کو غیر ملکوں کے دورے سے فرصت نہیں ہے ایک سال مکمل ہونے پرنمائندہ کو شہر کے سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے ذمہ داراوں سے ان کے تاثرات لیے جو حسب ذیل ہیں۔ مولانا سید خالد اشرف (ورلڈ مشائخ کونسل) : نے کہاکہ مودی سرکار کے ایک سال گزر گئے کچھ پتہ نہیں چلا، اچھے دن کا انتظار کرتے رہے اچھے دن آئے ضرور مگر عوام کے نہیں بلکہ صرف مودی کے لیے آئے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے، مہنگائی کم نہیں ہوئی، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی ہوتی رہی عام آدمی محفوظ نہیں رہا۔ مولانا مستقیم اعظمی (صدرجمعےۃ علماء مہاراشٹر) نے کہاکہ جب سے مودی سرکار بنی ہے تب سے اس ملک میں امیر سے لے کر غریب تک، کسان سے لے کر تاجر تک ہر شخص پریشان ہے، البتہ کارپوریٹر لوگ خوشحال ہوئے ہیں، عام آدمی کے منہ فاقے سے سوکھ رہے ہیں۔ مولانا محمود علی خان دریابادی(جنرل سکریٹری آل انڈیا علماء کونسل) نے کہاکہ اچھے دن کا اب بھی انتظار ہے، زبانی طور پراچھے دن آگئے مگر حقیقت میں ابھی تک اچھے دن نہیں آئے۔ فرقہ پرست طاقتیں جس طرح بے لگام ہوئی ہیں آزادی کے بعد سے ان کی حکومت تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ 15-15لاکھ روپئے کی لالچ میں لوگوں کے اکاؤنٹ کھلوادئے مگر اس میں ایک روپیہ بھی نہیں آیا۔ آپ نے مزید کہاکہ بہت دن تک لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایاجاسکتا۔ مولانا ظہیر عباس رضوی (آل انڈیا شیعہ فیڈریشن) نے کہا کہ مودی سرکار کو ایک سال مکمل ہوگئے مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، اقلیتوں کے لیے کوئی کام نہیں ہوا، بلکہ ان کا مزید نقصان ہوا ہے۔ ایک سال میں مودی نے صرف اپنے لیے کیا ہے۔ گلزار اعظمی (سکریٹری لیگل سیل جمعےۃ علماء) نے کہاکہ مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا وہ پورا نہیں ہوا بلکہ مہنگائی مزید بڑھ گئی ، کالا دھن واپس لانے کی بات ہوا ہوگئی، گھر واپسی اور لوجہاد کی آڑ میں فسادات ہوئے، ان کے راج میں فرقہ پرستوں کو چھوٹ مل گئی ہے وہ جو چاہیں کریں۔ مولانا سید اطہر علی (ناظم دارالعلوم محمدیہ)مودی سرکار نے ایک سال میں کوئی خاص نتیجہ نہیں دیا، وزارت خارجہ کے کچھ معاہدے بہت مفید ہوئے، فرقہ پرستی پر قدغن نہیں لگی، اقلیتوں کو پہلے بھی کوئی امید نہیں تھی اب بھی نہیں ہے۔ پانچ سال کے لیے حکومت ملی ہے ایک سال کی کارکردگی پر کیا رائے دیں، آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ مولانا اعجاز کشمیری (امام وخطیب ہانڈی والامسجد) موذی نے سرکار ایک سال کا سرکس پورا کیا ہے، سرکس دکھانے والا واہ واہی کروارہا ہے، آپ نے مزید کہاکہ ایک سال میں اس حکومت نے معاشی سماجی وملی طور پر ہندوستان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کبھی نہیں ہوا تھا، ترقی کے نام پر سرکار آئی مگر ترقی کچھ نہیں ہوئی، البتہ نفرت کو بڑھاوا ملا ہے یہ سرکار فرقہ پرستوں کی سرکار ہے عوام کی نہیں۔ محمد اسلم غازی (جماعت اسلامی) نے کہاکہ الیکشن کے دوران جو وعدے کیے گئے تھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف الیکشن جیتنے کے لیے تھے، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی گئی تھی مگر جو بل پیش ہوا وہ عام آدمی کے خلاف، سروس ٹیکس بڑھایا اس سے غریب مزید متاثر ہوگا، وزیر اعظم بنتے ہی غیر ملکی دورے شروع کردئے، شاید یہ سوچ کر کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پرانہیں ویزا نہیں ملتا تھا، اب موقع ملا ہے گھوم لیں۔ ایم اے خالد (آل انڈیا ملی کونسل) بی جے پی ایک سال مکمل ہونے پر جشن منارہی ہے جبکہ یہ ماتم کرنے کا موقع ہے، کالا دھن لائیں گے، غریب کے اکاؤنٹ میں 15لاکھ روپئے جمع ہوں گے۔ یہ سب باتیں ہی باتیں تھیں، بین الاقوامی بازار میں تیل کا دام کم ہوا، مگر ہمارے ملک میں پٹرول وڈیزل کے دام بہت بڑھے ہیں، کسانوں کی حالت خستہ ہے، اور مودی سرکار جشن منارہی ہے، انہوں نے کہاکہ مودی اب بول بچن دے رہے ہیں سب کا وکاس کہیں بھی نظر نہیںآتا ہے، اقلیتوں کا ناش ہوا ہے ، آپ نے مزیدکہاکہ نریندر مودی ملک کا پہلا وزیراعظم ہے جس نے نہ تو رمضان میں اور نہ ہی عید کے موقع پر کسی کو مبارک باد دی جبکہ امریکی صدر اوبامہ نے مسلمانوں کو مبارک باد دی ہے اور خواجہ صاحب کے لیے چادر بھی بھجوائی تھی مگر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو فرصت نہیں ہے وہ صرف دورے کرتے رہ گئے۔ فیروز میٹھی بوروالا (بھارت بچاؤ آندولن) نے کہاکہ جہاں تک اندورنی پالیسی ہے اس پر کچھ کام نہیں ہوا، کسانو ں کی حالت مزید ابتر ہوگئی، بدعنوانی، کالا دھن واپسی لینڈ اکوائر بل یہ سب عوام کے مفادات میں نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ وزیراعظم مودی کے لیے سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ اس کے سبھی ممبران پارلیمنٹ وکابینی وزیر ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ سب مسلم اور کرسچن مخالف نعرے لگانے میں ہی مصروف ہیں، ان کے اشتعال انگیز بیانات سے ملک میں نفرت کا ماحول بن رہا ہے، مودی دنیا کے سبھی ممالک کا دورہ کررہے ہیں مگر کسی مسلم ملک کا دورہ نہیں کیا، جبکہ زیادہ تجارت اور کام مسلم ممالک سے ہوتے ہیں، وزیراعظم مودی نے مشرقی دنیا کے ممالک میں آباد ہندوستانیوں (این آر آئی) کو حوصلہ دیا ہے ایک سال کے عرصے میں نچلے او رمتوسط طبقے کے لوگوں کو ایک فیصد بھی فائدہ نہیں ہوا ہے، البتہ اڈانی اور امبانی کو بہت فائدہ ہوا۔ مودی کے لیے ملک میں مثبت رجحان تھا کانگریس مخالف ووٹ ملا تھا مگر مودی اسے سنبھال نہیں سکے۔ وکاس کی باتیں خوب ہوئیں مگر کام نہیں ہوا۔ فریدبٹاٹا والا (مسلم فرنٹ)نے کہاکہ مودی سال بھر پوری دنیا کی سیر کرتے رہے، انہیں ملک کے عوام او راپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے وقت نہیں ملا، ان کے لوگ سال بھر ایسے زہریلے بیانات دیتے رہے جس سے ہر روز ایک بڑے فساد کا خوف رہتا تھا۔ ا نہوں نے مزیدکہاکہ معاشی طور پر ملک پیچھے رہ گیا ہے، پٹرول وڈیزل کے دام بڑھے، اقلیتوں کو ہر محاذ پر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کشور جگتاپ(بھارت مکتی مورچہ) نے کہاکہ جب تک مودی سرکار ہے اس وقت تک نہ اچھے دن آئیں گے اور نہ ہی عوام کو راحت ملے گی، مودی دوسرے ممالک کا دورہ کررہے ہیں، او رملک کی عوام تباہ ہورہی ہے، کسان بھوکوں مر رہا ہے غریب غریب ہوتا جارہا ہے اور مودی امریکہ سے دوستی کرکے اسرائیل کو خوش کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا ملک بھی خوش حال ہوگیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس دیش کو فرقہ پرستی سے آزاد کرانا ضروری ہے ورنہ یہ دیش کٹر پنتھی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں غلام ہوجائے گا اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اوردلتوں پر مظالم بڑھ جائیں گے۔ شانتی لال جین (دکاندار) نے کہاکہ ہم نے اچھے دن کا وعدہ سن کر انہیں ووٹ دیا تھا مگر جب سے یہ سرکار بنائے تب سے ہمارے کاروبار تباہ ہوگئے اس سے اچھی کانگریس سرکار تھی جس میں ہمارا کاروبار توچلتا تھا۔ ببن ر اؤ جادھو (ریٹائرڈ منیجر) نے کہاکہ ہم نے مودی کا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے جھانسے میں آکر انہیں کامیاب کیاتھا مگر نہ کسی کا وکاس ہوا اور نہ ہی اچھے دن آئے۔ بلکہ اب مودی اینڈ کمپنی کے دن آگئے ۔ مستقیم مکی نے کہاکہ ان کے پاس ڈائیلاگ بازی ہے، پوری دنیا میں الگ الگ اسٹائل سے تصاویر کھنچوانا مودی کا مشغلہ ہے، ان کی پارٹی میں سب سے زیادہ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ ہیں جس سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کی فضا بن رہی ہے اگر اس پر روک نہ لگائی گئی تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا، مودی سرکار کا ایک سال ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا ہے۔ 
****

جھوٹ ، ناکامی ، خوف ودہشت اور اندیشوں کا ایک سال 

خبروں کا پوسٹ مارٹم : شکیل رشید 

مودی کے ایک سالہ دور حکومت میں ’اس ترقی‘ کا بڑا چرچا ہے جو ہوئی ہی نہیں! شرمناک بات یہ ہے کہ ’مودی حکومت‘ کی ایک سالہ ’ناکامی‘ کو ’کامیابی‘ کے طور پر پیش کرنے میں جہاں میڈیا زور وشور سے پروپیگنڈہ میں جُٹا ہوا ہے وہیں ہندوستان کے شہریوں کا وہ مخصوص گروہ بھی، جسے صرف اپنی تجوری بھرنے کی پڑی رہتی ہے اور جسے عام ہندوستانیوں کی ترقی اور بھلائی کی چنداں فکر نہیں رہتی، اس پروپیگنڈہ کو ملک اور بیرون ملک میں عام کرنے اور اس کے ذریعے مودی کو ’ترقی کا دوت‘ ثابت کرنے کے لیے اپنی تجویروں کا منہ بڑی بے شرمی سے کھولے ہوئے ہے۔۔۔ یہ پروپیگنڈہ اپنی اصل میں نازی جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر کے دستِ راست گوئبلز کے اس ’ جھوٹ‘ کی طرح ہے جو بار بار بلکہ اتنی بار بولا جاتا ہے کہ لوگ ’اسے سچ‘ ماننے لگتے ہیں۔۔۔ لیکن ہندوستان میں بہرحال عوام کی اکثریت جھوٹ اور سچ کافرق جانتی ہیڈ اسے خوب پتہ ہے کہ جس ’ترقی‘ کا پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے وہ صرف اور صرف دستاویزات کی حد تک محفوظ ہے اور ننگی سچائی صرف اور صرف یہ ہے کہ آج بھی ہندوستانی عوام مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں بلکہ مہنگائی ڈائن نے مودی کے دور میں گزشتہ تمام ریکارڈ توڑدئیے ہیں۔ آج ہی یہ خبر ہے کہ گیس او رڈیزل کے دام مزید بڑھیں گے۔ 
ایک بے حد دلچسپ ’لطیفہ‘ وہاٹس اپ پر پڑھنے کو ملا۔ ویسے اِسے لطیفہ کہناد رست نہیں ہوگا کیوں کہ یہ ایک تلخ سچائی ہے۔ ’وہاٹس اپ‘کی تحریر سے قارئین محظوظ ہوں: 
شکر کے دام ذیابیطس کنٹرول رکھنے کے لیے بڑھائے ہیں۔۔۔ اور پٹرول کے دام تاکہ آپ واکنگ زیادہ کریں، سمجھئے؟ مودی کا دماغ چچا چودھری سے بھی تیز ہے۔۔۔ پریشان نہ ہوں رسوئی گیس کا دام بڑھا کر ڈائٹنگ بھی کروائیں گے۔۔۔ 
بات سچ ہے، اگر مہنگائی کی صورتحال مودی کے دور میں ایسی ہی رہی تو عام شہری کھانے کے لیے ترسیں گے۔ مودی کے ایک سالہ دورِ حکومت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستانی عوام کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔ ان کے قدم یا تو یوروپ اورامریکہ کی طرف یا دوسرے ملکوں کی طرف اُٹھتے رہے۔ شاید ہی کسی وزیراعظم نے ایک سال میں اِتنے غیر ملکی دورے کیے ہوں! ایک معمولی اندازے کے مطابق اِن دوروں پر جو خرچ ہوا ہے اس سے ملک کے غریبوں کا، کم از کم ان کسانوں کا جو روز خودکشی کررہے ہیں، بوجھ ہلکا ہوسکتا تھا اور واقعی ان کے ’اچھے دن‘ آسکتے تھے۔۔۔ ویسے ہمارے خیال میں مودی کا ’اچھے دنوں ‘ کا وعدہ اردو شاعری کے محبوب کا وعدہ ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ 
ایک سالہ دور حکمت اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیتوں کے لیے خوف ودہشت اور اندیشوں سے بھرا رہا ہے۔ وہ وزیراعظم جو بیرون ملک جاکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں ذات، پات اور مذہب کے نام پر نہ کسی کے ساتھ جبر کیاجاتا ہے او رنہ ظلم، یا تو سچائی سے واقف نہیں ہیں یا ہیں تو آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔اور ہمارے خیال میں یہ دوسری بات ہی زیادہ درست ہے کیوں کہ وزیراعظم ہو کر مودی سچائی نہ جانیں یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔ اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے ایک سالہ دور حکومت ہر لمحہ خوف، دہشت اور اندیشوں کا سال رہا ہے۔ ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے اور مسلمانوں سے حقِ رائے دہی چھین لینے کی دھمکیاں، مسلمانوں کامذہب تبدیل کرکے ہندو بنانے کی تحریک، ایودھیا میں رام مندر بنانے کا عزم، بیف پر صرف اس لیے پابندی کہ یہ مسلمانوں کی غذا ہے، پنجاب میں بھاجپائی خواتین کے ذریعے برقعہ جلانے کی مہم، راہ چلتے ، بسوں او رٹرینوں میں باریش مسلمانوں، تبلیغی جماعت کے افراد اور مدرسوں کے طلباء پر حملوں نے ایک زبردست خوف ودہشت کی فضا قائم کی ہے۔۔۔ اور اِن تمام فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز حرکتوں کااہم پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم مودی نے کسی بھی وزیر ، سادھو، سادھوی کے فرقہ وارانہ بیانات اور دھمکیوں کا نہ کوئی نوٹس لیا ، نہ کسی کی سرزنش کی اورنہ ہی مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ’آپ ڈریں نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں‘۔۔۔ مودی کے ہی ایک سالہ دور میں گجرات میں مسلمانوں کو رہائشی کالونیوں سے باہر کھدیڑنے او رہندو بستیوں سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی تحریک بھی چلی۔ اسی ایک سالہ دور میں ذیشان کو صرف اس لیے نوکری نہیں دی گئی کہ وہ مسلمان تھا۔۔۔ نہ جانے مزید کتنے ذیشان ہیں جن کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہو مگر ان کی کہانیاں میڈیا تک نہیں پہنچ سکیں۔۔۔ اگر ہم ایک سطرمیں مودی کے ایک سالہ دور کا خلاصہ کریں تو کہہ سکتے ہیں: ’مودی کا ایک سالہ دور جھوٹ، ناکامی اور خوف ودہشت کا دور تھا ترقی کا نہیں‘۔ 



بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پر پولس کانسٹبل کی پٹائی 

مسافروں کی مدد سے کینیا کے دونوں شہری حراست میں 

ممبئی،؍ مئی: بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پر کینیا کے دوشہریوں نے پلیٹ فارم نمبر چار پر تعینات ریلوے پولس کے کانسٹبل کمبھار کی جم کر پٹائی کی، ریلوے پولس نے اسٹیشن پرموجود مسافروں کی مدد سے دونوں غیر ملکی حملہ آوروں کو پکڑا اور اب سی ایس ٹی ریلوے پولس اس ضمن میں مزید چھان بین کررہی ہے، اس معاملے میں ریلوے پولس کی خاتون ڈی سی پی روپالی امبورے کا کہنا ہے کہ بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم نمبر چار پر یہ واردات ہوئی جہاں کینٹن کے ملازمین کو شبہ ہوا کہ کینیا کے شہریوں نے اس کا موبائل فون چوری کیا ہے، اور اس بات پر کینٹن ملازمین اور دونوں غیر ملکی شہریوں کے درمیان جھگڑے کے بعد مارپیٹ ہونے لگی، کینیا کے دونوں شہریوں نے کینٹن ملازمین کی بڑی پٹائی کی، یہ دیکھ کر ریلوے پولس کانسٹبل کمبھار بھی موقع پر پہنچا اور جھگڑا چھڑانے کی کوشش کی مگر دونوں غیر ملکی ملزمین نے لاٹھی چھین کر پولس کانسٹبل کی جم کر پٹائی کی،نیز پلیٹ فارم پرموجود مسافروں کی مدد سے پولس نے دونوں غیر ملکی ملزمین پر کنٹرول حاصل کیا، اب اس کیس میں سی ایس ٹی ریلوے پولس اسٹیشن کے پولس انسپکٹر شندے مزید تحقیقات کررہے ہیں۔ پولس کے مطابق بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پرموجود مسافروں نے بھی کینیا کے دونوں شہریوں کی پٹائی کی ہے اور پولس کانسٹبل کمبھار ، دونوں کینین کو معمولی چوٹ لگی ہے، اور ان لوگوں کو بغرض علاج اسپتال بھیجاگیا ہے۔ فی الحال ریلوے پولس متاثرہ پولس سپاہی کمبھار اور کینٹن ملازمین کا بیان ریکارڈ کررہی ہے ادور پولس نے پلیٹ فارم پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی جانچ کرنے کافیصلہ کیا ہے اور اس کے بعد ریلوے پولس مزید کارروائی کرے گی۔ 


انٹاپ ہل میں کالا بازاری کرتے ہوئے دکاندار گرفتار 

دو ہزار کلو گرام چاول اور ٹیمپو ضبط 

ممبئی،؍ مئی: انٹاپ ہل پولس نے ایک بیدار شہری کی اطلاع پر سرکاری راشن کی دکان پر کالا بازاری کرنے والے دکاندار ونود گپتا (25) کو گرفتار کیا ہے اور پولس نے دو ہزار کلو گرام چاول نیز ٹیمپو (MH-01-LA-8543)کو اپنی تحویل میں لیا ہے، پولس کے مطابق انٹاپ ہل جے مہاراشٹر نگر میں پرکاشی کیرانہ اسٹور کے مقابل ملزم ونود گپتا کی سرکاری راشن کی دکان ہے اور شب میں ساڑھے بارہ بجے کے قریب راجہ دیویندر (52)نامی شخص نے دیکھا کہ ونود گپتا کی دکان کے پاس مذکورہ ٹیمپو پارک ہے اورٹیمپو میں چاول کی بوریاں رکھی جارہی ہیں، چونکہ شب میں ملزم یہ واردات انجام دے رہا تھا اس لیے شکایت کنندہ شخص راجہ دیویندر سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ رات میں چاول کی بوریاں کہاں بھیج رہا ہے مگر دکاندار ونود گپتا اطمینان بخش جواب نہ دے سکا، اور راجہ دیویندر نے فوراً ہی انٹاپ ہل پولس کو اطلاع دی اور اطلاع ملتے ہی انٹاپ ہل پولس کا اسٹاف موقع پرپہنچا اورمذکورہ ٹیمپو کو اپنی تحویل میں لیا، اس معاملے میں انٹاپ ہل پولس نے بتایاکہ ضبط چاول (دوہزار کلو گرام) کو ملزم ودکاندار ونود گپتا بیرون ممبئی بھیجنے کی کوشش میں تھا اور اس کا لابازاری کے لیے ملزم ونود گپتا نے چاول کی اصل بوریوں کو بھی بدل دیاتھا تاکہ سرکاری بوریوں کی شناخت نہ ہو۔ پولس نے مزید جانکاری دی کہ دراصل دکاندار کو یہ چاول علاقہ کے لوگوں کو سرکاری بھاؤ میں فروخت کرنا تھا مگر ملزم ونود گپتا نے عوام کو فروخت نہ کرتے ہوئے چاول کی کالا بازاری کی، پولس نے اس کارروائی کے بارے میں راشننگ ڈپارٹمنٹ کو بھی اطلاع دی ہے نیز راشننگ ڈپارٹمنٹ بھی اپنے طو رپر جانچ کررہا ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ مقامی ایم ایل اے بذات خود اس کارروائی میں شامل رہے، انٹاپ ہل پولس گرفتار ملزم سے مزید تحقیقات کررہی ہے۔ 


تھانے ضلع میں پانی کٹوتی کا فیصلہ 

باروی ڈیم کی سطح آب میں گراوٹ 

کلیان،؍ مئی: تھانے ضلع کے اہم شہروں کو پانی سپلائی کرنے والے باروی ڈیم کی سطح آب میں گراوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ آب رسانی نے احتیاطاً پانی کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تھانے ضلع کے کلیان، ڈومبیولی ، امبرناتھ ، الہاس نگر، میرا روڈ، بھائیندر او ربھ یونڈی ان نگر پالیکاؤں کو باروی ڈیم کے ذریعہ پینے کا پانی فراہم کیاجاتا ہے موسم گرما میں باروی ڈیم کی سطح آب میں گراوٹ کو دیکھتے ہوئے محکمہ آب رسانی سات سو ڈی ایم ایل ڈی کے بجائے اب روزانہ پانچ ڈی ایم ایل ڈی پانی سپلائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس قدم سے تھانے ضلع کے شہریوں کو 15جولائی سے زائد دنوں تک پانی ملے گا۔ 


تھانے کارپوریشن کی حد میں 2ہزار 593عمارتیں مخدوش 

تھانے،؍ مئی: تھانے کارپوریشن کی حد میں 2ہزار 593عمارتیں مخدوش ہیں، ان میں زیادہ تر عمارتیں ممبرا کوسہ کی حد میں ہیں، اس میں 58عمارتیں انتہائی مخدوش ہیں، ان عمارتوں میں تین لاکھ 56ہزار رہائشی آباد ہیں، جس میں تقریباً 2لاکھ سے زیادہ رہائشی ممبرا کوسہ کے بتائے جاتے ہیں، مانسون کی آمد آمد ہے، اس لیے مانسون میں شیل پھاٹا لکی کمپاؤن کی طرح کوئی سانحہ نہ ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ مخدوش عمارتوں میں صرف 442عمارتیں قانونی ہیں، باقی غیر قانونی ہیں، گزشتہ چار دنوں کا جائزہ لیا جائے تو 4اپریل 2013کو شیل پھاٹا لکی کمپاؤنڈ میں 7منزلہ عمارت منہدم ہوئی تھی جس میں 74افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 22جون 2013کو ممبرا اسٹیشن کے پاس سمرتی عمارت کے سانحہ میں 10افراد جاں گنوا دئیے تھے، 20ستمبر2013کو بانو کمپلیکس ممبرا کی عمارت سانحہ میں تین افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ 


اردو اکیڈمی میں پھیلی ہوئی لاقانونیت دور کی جائے

نقاد، شاعر اور کالم نگار شمیم طارق کا مائناریٹی کمیشن کے چیئرمین کے نام خط

ممبئی ، ؍مئی:مشہور شاعر، نقاد اور کالم نگار شمیم طارق نے اقلیتی کمیشن کے چےئرمین کو خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے مجھ کو ’’انجمن اسلام اور اس کی کریمی لائبریری‘‘کے عنوان سے ایک ریسرچ پروجیکٹ مکمل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ میں نے وہ ذمہ داری پوری کی اور ریسرچ پروجیکٹ اکیڈمی کو جمع کردیا۔ اکیڈمی نے سی ڈی مانگی’’انجمن اسلام کے دو ذمہ داروں کا این او سی مانگا اور میں نے وہ بھی جمع کردیا۔ ۱۳؍جنوری ۵۱۰۲ء کو انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سیمینار میں اکیڈمی کے سابق ایگزیکیوٹیو چیئرمین محمد خورشید صدیقی نے اعلان بھی کردیا کہ شمیم طارق کا ریسرچ پروجیکٹ کتاب کی صورت میں اکیڈمی شائع کرے گی۔۳۱؍فروری کو کسی گمنام شخص نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ اکیڈمی میری کتاب شائع نہیں کرے گی۔میں نے ۶۱؍فروری کو اقلیتی امور کے وزیر صاحب کو خط لکھ کر پوچھا کہ جب اکیڈمی تحلیل ہوچکی ہے تو کتاب نہ شائع کرنے کا فیصلہ کس نے کیا؟ اگر یہ فیصلہ آپ کا ہے تو مجھ کو خوشی سے قبول ہے، لیکن اس کی اطلاع مجھ کو تحریری شکل میں ملنی چاہیے، ساتھ ہی کیلی گرافی پر میرے جو اخراجات ہوئے ہیں وہ بھی ملنے چاہئیں جس کا بل میں اکیڈمی میں جمع کرچکا ہوں۔ میں نے وزیر محترم سے یہ جانچ کرنے کی بھی اپیل کی کہ میرا ریسرچ پروجیکٹ دوسروں کو پڑھنے کے لیے کس نے دیا اور جب اکیڈمی تحلیل ہوچکی ہے تو کس نے فیصلہ کیا کہ میرا ریسرچ پروجیکٹ شائع نہیں کیا جائے گا؟وزیر محترم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ۳۲؍مارچ کو پوسٹ سے خورشید صدیقی کے دستخط سے اکیڈمی کا ایک خط ملا جس پر ۹؍جنوری لکھ کر ۶ جنوری کی تاریخ بنا دی گئی ہے۔میں نے اس خط کا جواب محمد خورشید صدیقی اور اکیڈمی کے ایگزیکیوٹیو افسر وقار قادری کو ۴۱؍مارچ کو بھیجا جو انھوں نے ۵۲مارچ کو قبول کیا۔ اس خط کا متن یہ ہے۔آپ کا مذکورہ خط جس پر ۹؍جنوری لکھ کر ۶؍جنوری ۵۱۰۲ء کی تاریخ بنادی گئی ہے مجھ کو ۳۲؍مارچ ۵۱۰۲ء کو موصول ہوا۔اکیڈمی نے ’’انجمن اسلام اور اس کی کریمی لائبریری‘‘ کے عنوان سے مجھ کو جو پروجیکٹ دیا تھا اور جس کو میں مکمل کرکے اکیڈمی میں جمع کرچکا ہوں اس کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے آپ نے مجھ کو فون کرکے کہا تھا کہ انجمن کے دو ایسے ذمہ داروں کا N.O.Cجمع کردیجیے جنھوں نے میرے مکمل کیے ہوئے پروجیکٹ کا مسودہ پڑھا ہو۔ چونکہ انجمن اسلام کے جوائنٹ سیکریٹری اورکریمی لائبریری کے چیئرمین جناب معین الحق چودھری اور انجمن اسلام پنچ گنی بورڈ کے ایگزیکیوٹیو چیئرمین ڈاکٹر شیخ عبداللہ اردو داں ہیں، انجمن کی تاریخ اور اس کی روایت سے واقف ہیں اور انھوں نے یہ مسودہ حرف بہ حرف پڑھا ہے اس لیے میں نے ان کا NOCجمع کردیا جس کو آپ نے قبول کیا اور فون پر مجھ کو اطلاع بھی دی۔شمیم طارق نے مزید لکھا ہے کہ دو ماہ گذر گئے اس خط کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اکیڈمی نے جب ’’انجمن اسلام اور اس کی کریمی لائبریری‘‘ کے عنوان پر پروجیکٹ دیا تھا تو انجمن ہی کے ایک شخص نے جس کی بدعنوانی کے سبب حکومت نے اردو اکیڈمی کے اہم عہدے سے استعفیٰ طلب کیا تھا جس کی عادت ہے کہ وہ ہر اچھے کام میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے اور جس نے انجمن اسلام کے صدر کے نام خط لکھ کر انجمن اسلام سے شائع ہونے والی میری کتاب ’’تصوف اور بھکتی‘‘ کو رکوانے کی کوشش کی تھی مگر ناکام ہوا تھا اور میری کتاب انجمن نے شائع کی تھی جس کے دو اڈیشن شائع ہوکر ختم ہوچکے ہیں اور جو ڈر رہا تھا کہ ’’انجمن اسلام اور اس کی کریمی لائبریری‘‘ شائع ہوئی تو اس کا سازشی چہرہ دنیا کے سامنے آجائے گا اس لیے اس نے اکیڈمی کے وقار قادری کے ساتھ مل کر سازش رچی اور معلوم نہیں کس سے یا کس کس سے خطوط لکھوا کر کتاب کی اشاعت میں رکاوٹ ڈالی۔مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے پہلی مرتبہ کوئی تاریخی کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے میں نے برسوں کا کام چند مہینوں میں مکمل کرکے جمع کردیا تھا مگر وقار قادری اور اس کے عملے کے دوسرے لوگوں نے سازش کرکے کتاب کی اشاعت کو رکوادیا۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ وزیر محترم کو خط لکھیں اوراکیڈمی کے دوسرے ذمہ داروں سے جواب طلب کریں کہ* شمیم طارق سے جب سی ڈی مانگی گئی اور انھوں نے سی ڈی کے ساتھ کیلی گرافی بل جمع کیا تو فوری طور پر ان کو بل کا پیمینٹ کیوں نہیں کیا گیا۔*پرانی تاریخ میں خط بھیجنے کے لیے ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے کے سبب وقار قادری اور ان کے دوسرے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔*شمیم طارق کے خلاف لکھے یا لکھوائے گئے اس خط یا خطوط کو عام کیا جائے جس کا حوالہ پرانی تاریخ میں لکھے گئے اکیڈمی کے خط میں ہے۔اردو اکیڈمی میں پھیلی ہوئی بدعنوانی اور بے ایمانی کی مکمل جانچ کی جائے اور خطاکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔سابق کار گزار چےئرمین محمد خورشید صدیقی سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے کہا کہ بورڈ میٹنگ میں طے ہوچکا تھا کہ یہ کتاب شائع کی جائے گی مگر اقلیتی شعبہ کے سکریٹری کو ایک لیٹر ملا جس میں کتاب کے تعلق سے کئی متنازعہ باتوں کی نشاندہی کی گئی تھی اس لیے سکریٹری نے اسے روک دیا، یہ خالص سرکاری معاملہ تھا اس میں ہماری طرف سے نہ کوئی رکاوٹ پیدا کی گئی اور نہ ہی بدعنوانی ہوئی ہے۔ خورشید صدیقی نے مزید کہاکہ ہم نے انجمن اسلام اور اس کی کریمی لائبریری کے عنوان پر پروجیکٹ بنانے کے لیے کہا تھا مگر اعتراضات آنے کے بعد ہم نے معاملہ روک دیا، اب یہ چےئرمین (وزیر برائے اقلیتی امور) کے اختیار میں ہے کہ وہ کتاب کو شائع کرانے کی منظوری دے دیں۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا