English   /   Kannada   /   Nawayathi

عزیز بلگامی کا مجموعۂ غزلیات’’ دِل کے دامن پر ‘‘ کا شہرِ گلستان بنگلور میں اجراء

share with us

دور اُفتادہ ،جزائرانڈمان اور نکوبار کی معروف سماجی کارکن، ساجدہ زبیر نے، جو’’ خواتین کی سماجی تحریک برائے بیداری وتربیت،جزائرانڈمان ‘‘(ISMAT-a women's initiative: Islanders Social Movement for awareness and Training, Andaman)، کی رُکن ہیں، عزیز بلگامی کے نیے مجموعۂ غزلیات کا اجراء فرمایا۔ جلسے کی صدارت سنیل پنوار سنیل ، ڈپٹی کانزرویٹر، فارسٹس، بنرگھٹا نیشنل پارک، بنگلورو نے فرمائی۔
اجراء کے بعد ساجدہ زبیر، نے اپنے خطاب میں عزیز بلگامی کو مبارکباد دی اور کہا کہ اجراء کا یہ انداز غیر روایتی ہونے کے باوجود اپنے آپ میں نہایت دِلچسپ اور قابلِ تقلیدہے۔ شاید اِس نوع کے ادبی واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں کہ ایک بیٹی کو اپنے والدِ محترم کی کتاب کے اجراء کی سعادت نصیب ہوجائے۔ یہ بیٹیوں کی عزّت افزائی کی نادِر مثال ہے۔اُنہوں نے سنیل پنوار(ڈپٹی کانزرویٹر ، فاریسٹس) کی بھی ستائش فرمائی اور اُن کی اُردو نوازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نے اِس پروگرام میں نہ صرف شرکت کی ،بلکہ اپنے محکمے کے رُفقاء کو لے کر اجراء کے لیے خوشگوار ماحول بھی بنایا، جو اُن کی اُردوشاعری سے اور عزیز بلگامی سے اُن کی بے پناہ محبت کی دلیل ہے۔ سنیل پنوار نے اپنے اِظہار خیال میں حیرت و مسرت کے جذبات کے ساتھ عزیز بلگامی کے اِس اِقدام کو سراہا اورکہا کہ وہ اپنی بے پناہ شہرت کے باوجود ایک غیر معروف مقام پر اورخود اپنی بیٹی کے ہاتھوں اجراء کا فیصلہ کیا، اگرچہ، وہ چاہتے تو اپنی عالمی پہچان کے تحت اجراء کے پروگرام کی کسی بھی بڑی شخصیت کے ہاتھوں اور کسی بھی بڑے شہر پربڑے ہی تزک احتشام کے ساتھ تقریبِ اجراء کا انعقاد کر سکتے تھے۔اُنہوں نے اپنے محکمۂ جنگلات کے جملہ اسٹاف کی جانب سے اِس قدر افزائی کے لیے عزیزبلگامی اور اُن کے اہلِ خانہ کا شکریہ ادا کیا۔عزیز بلگامی نے اِس موقع پر تمام متعلقین کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے کتاب کو معرضِ وجود میں لانے اور اِس کے اِجراء کے لیے یہ محفل سجانے میں اُن کے ساتھ تعاون کیا۔بعد ازیں عزیز بلگامی نے اپنی غزل سنائی اور سامعین سے داد وصول کی۔ سنیل پنوار سنیل نے، جو ایک بہت ہی عمدہ شاعر بھی ہیں ،اپنی غزل پیش کرکے سب کا دِل مو ہ لیا۔پی کے ریحان انڈمان نے تلاوتِ کلام پاک اور ترجمہ پیش کیا۔ محمد یونس عزیز نے جلسے کی نظامت فرمائی اور محمد زکریا عزیز نے پروگرام کے یادگار لمحات کو اپنے کیمرے میں بند کر لیا۔علالت کے باوجود عزیزبلگامی کی اہلیہ نورجہاں بیگم نے جلسے کو اپنی شرکت سے نوازا۔ محمد یونس کے شکریہ اور دُعا پر نشست اختتام پذیر ہوئی۔*

سر سید نے جو کارنامہ انجام دیا اس میں ان کے رفقاء کا بڑا اہم کردار ہے۔۔پروفیسر صغیر افراہیم

لکھنؤ۔25اپریل(فکروخبر/ذرائع )سر سید نے جو کارنامہ انجام دیا اس میں ان کے رفقاء کا بڑا اہم کردار ہے، اگر مخلص رفیق نہ ملتے تو سر سید اتنا بڑا کارنامہ شاید انجام نہ دے پاتے۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں پروفیسر صغیر افراہیم ایڈیٹر تہذیب الاخلاق و استاد شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کیا۔ وہ شعبہ اردو کے محمود الحسن رضوی ہال میں ’سر سید کے رفقاء کی عصری معنویت‘ کے موضوع پر توسیعی خطبہ دے رہے تھے۔ انہوں نے سر سید کی ڑرف نگاہی اور بصیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بڑے کام کے لیے ایسے افراد کو اپنا رفیق منتخب کیا جو نہ صرف مخلص تھے بلکہ ان کیاندر قوم کا درد تھا، وہ چاہتے تھے کہ زوال آمادہ اور تعلیم سے بے بہرہ قوم تعلیم یافتہ ہو، اس کے بھی اقبال کے دن آئیں، یہی وجہ ہے کہ سرسید کے تمام رفقاء4 نے ان کا ساتھ دیا۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ سرسید نے مدرسۃ العلوم کے قیام سے پہلے ایسے افراد تیار کیے جو اس کام کے لائق تھے۔ سرسید کے رفقاء4 میں ہندو اور انگریزوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جنہوں نے قدم سے قدم ملا کر ملک و قوم کا مستقبل روشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ تحریک میں صرف مردوں کا ہی اہم کردار نہیں ہے بلکہ خواتین نے بھی بڑی قربانیاں دیں، سرسید نے جب مدرسہ کا منصوبہ بنایا تو انہوں نے سب سے پہلے چندہ کے لیے بھوپال کی نواب شاہ جہاں بیگم سے رابطہ کیا، جنہوں نے ان کی بھرپور مدد کی اسی طرح ان کے انتقال کے بعد سلطان جہاں بیگم نے بھی ہر طرح کی معاونت کی۔ توسیعی خطبہ کے دوران صغیر افراہیم نے کہا کہ سرسید کے سامنے ایک بڑا مشن تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں عمر کا تفاوت کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، انہوں نے کہا کہ مولانا حالی سرسید سے20برس چھوٹے تھے جبکہ علامہ شبلی مولانا حالی سے 20 برس عمر میں چھوٹے تھے۔ اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو علامہ شبلی سرسید سے 40 برس چھوٹے تھے، اس کے باوجود وہ ان کے معتمد اور رفیق کارتھے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی بڑا مشن سامنے ہوتا ہے تو جزوی اختلافات بھی ہوتے ہیں، ایسے میں علامہ شبلی اور سرسید کے درمیان ہونے والے اختلاف کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے تعمیری کاموں کو ہمیں نظر میں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید اور ان کے رفقاء4 کام کرتے تھے، زبانی جمع خرچ میں یقین نہیں رکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ آج ان کا نام روشن ہے۔ اس موقع پر سرسید کے جاری کردہ ماہنامہ تہذیب الاخلاق کیان خصوصی شماروں کا اجراء بھی عمل میں آیا جو رفقائے سرسید مثلاً علامہ شبلی، مولانا حالی اور ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ پروگرام میں مہمان ذی وقار کے طور پر پروفیسر سیما صغیر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شریک ہوئیں ، انہوں نے علی گڑھ تحریک میں خواتین کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ تحریک کو خواتین نے مضبوطی دی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے بیگم سلطان جہاں نے روایت سے ہٹ کر علی گڑھ بھیجا اور ہاسٹل میں رہ کر حصول تعلیم پر مجبور کیا۔ حالانکہ اس دور میں امراء انگلستان میں ہی تعلیم دلاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سلطان جہاں کے علاوہ کئی دیگر خواتین ہیں جنہوں دامے درمے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔پروگرام کی صدارت شعبہ فارسی کے صدر ڈاکٹر عارف ایوبی اور نظامت صدر شعبہ اردو ڈاکٹر عباس رضا نیر نے کی۔ ریسرچ اسکالر یاسر انصاری کے اظہار تشکر پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا