English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرناٹک اردو اکیڈمی کے سابق صدر ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کا ’’پریس کلب‘‘ میں صحافیوں سے خطاب

share with us

اکیڈمی کے رسائل نے ادبی دنیا اور عالمی اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی۔ بالخصوص ’’اذکار‘‘ نے سنجیدہ ادبی حلقے میں اپنا مقام بنایا۔ اور ساری اردو دنیا کی توجہ کرناٹک اردو اکیڈمی کو حاصل ہوگئی۔ مگر موجودہ حکومت نے مجھے وقت سے پہلے مستعفی ہونے پر مجبور کیا، جب کہ ادب، ادیب، زبان اور کلچر و ثقافت کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ اور کوئی بھی غیرجانبدار حکومت اسے اس نظر سے دیکھتی بھی نہیں ہے۔ مگر حکومت وقت کا المیہ دیکھئے کہ اس نے استعفیٰ لینے کے لیے تو بڑی عجلت دکھائی۔ مگر اس جگہ کو پُر کرنے کے لیے اپنی دلچسپی دکھانے سے قاصر رہی۔ 
نتیجہ یہ ہوا کہ آج ریاست کی تیرہ اکیڈمیوں کے چیرمینوں کا انتخاب ہوگیا مگر کرناٹک اردو اکیڈمی لاوارث رہ گئی۔ گویا حکومت کی نظر میں اقلیت، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک مخصوص اقلیت، اور اس کی زبان اور اس کے ادب و تہذیب کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ جب کہ وہ اقلیتوں کا دوست ہونے کا خوب خوب دعویٰ کرتی ہے۔ 
جناب قمرالاسلام صاحب جو اقلیت کے وزیر ہیں، فی الوقت وہی اکیڈمی کے چیرمین بھی ہیں، قاعدے کے مطابق اکیڈمی کو اس وقت زیادہ فعال ہونا چاہیے کہ چیرمین کی بہ نسبت وزیر زیادہ پاور فل اور بااختیار ہوتے ہیں۔ مگر اردو کی بدنصیبی دیکھئے کہ اردواکیڈمی کا بجٹ جو 77تھا، آج گھٹ کر 50کے آس پاس آگیا ہے۔ اور آگے نہ جانے مزید کیا حالت ہوگی۔ حافظ کرناٹکی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ: 
المیہ تو یہ بھی ہے کہ جناب قمرالاسلام صاحب نے اکیڈمی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ایک بار بھی کرناٹک کی اردو برادری، اساتذہ برادری، یا ادباء و شعراء اور دانشور سے گفتگو کرنے کی کوشش نہیں کی، گویا ان کی نظر میں اردو کے شعرا و ادبا اور دانشور کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ 
انہوں نے یہ بھی کہا کہ: 
سابقہ حکومت کے دور میں اکیڈمی کی یہ جو شبیہ تھی کہ یہ صرف بنگلور اور گلبرگہ والوں کی اکیڈمی ہے،وہ پوری طرح بدل گئی۔ اور اردو برادری کو احساس ہوا کہ یہ اکیڈمی سب کی ہے، کسی ایک دو ضلعے کی وراثت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت اکیڈمی کی اسی پرانی تصویر کو پھر سے قائم کرنا چاہتی ہے اور اپنی تمام ہمدردیاں انہیں مخصوص حلقوں کے احباب کے ساتھ شےئر کرنا چاہتی ہے۔ حافظ کرناٹکی نے اپنے اکیڈمی کے صدارتی دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: 
ہم نے طرح طرح کے ثقافتی اور ادبی پروگرام کئے، سمینار، جلسے، مشاعرے، مرثیہ خوانی، محفل قوالی، اساتذہ کے تربیتی پروگرام، طلبا کے لیے پروگرام، ادب صحافت کے لیے پروگرام، اردو بیداری مہم، وغیرہ، اور ریاست کے ہر خطے میں پہونچنے اور وہاں کی اردو برادری سے اکیڈمی کو مربوط کرنے کی کوشش کی۔ مگر افسوس کہ اس سات آٹھ مہینے کے تعطل نے اکیڈمی کی شناخت کو دھندلا کررکھ دیا۔ 
حافظ کرناٹکی نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ حکومت نے اکیڈمی کی مزید ترقی کے لیے اسے اقلیتی بہبود کے تحت کیا تھا۔ مگر خود اقلیتی بہبود کے ذمہ دار اسے زیادہ فعال اور ہمہ جہت نہیں بنا سکے۔ 
حافظ کرناٹکی نے کہا کہ میں جناب قمرالاسلام صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی نگرانی میں کرناٹک اردو اکیڈمی کو اقلیتی بہبود میں دائمی شکل دے دیں۔ تاکہ حکومت کے بدلنے اور منسٹروں کے بدلنے کے باوجود یہ سر سبز وشاداب رہے۔ اور زیادہ یکسوئی سے کام کرسکے۔ مجھے امید ہے کہ وزیر موصوف اس طرف خصوصی توجہ کریں گے۔ 
اخیر میں انہوں نے اردو برادری کے ہر فرد اور بالخصوص شعرا و ادبا سے اپیل کی کہ حکومت کی طرف سے اردو اکیڈمی کو نظر انداز کیے جانے کے اس رویے پر احتجاج کریں اور اردو کے حق کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھیں۔ تاکہ ناانصافی کا یہ سلسلہ دراز نہ ہوسکے۔ 
پریس کلب میں اردو کے معروف اور بزرگ شاعر و مترجم جناب ساغر کرناٹکی ، جناب ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی ،جناب محمد اسعد معروفی، جناب سمیع اللہ ، محمد عادل وغیرہ بھی موجود تھے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا