English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھٹکل کے ایک گمنام داعی  کی وفات : پروفیسر محمد شفیع خان صاحب میسوری کی قابلِ رشک زندگی

share with us

از: عدنان قاضی ندوی 

 (استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل)    

            بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کے سابق نائب صدر و رکن شوریٰ مدرسہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل و سابق ڈی ڈی پی ائی (DDPI) جناب مرحوم قاضی محمد یوسف صاحب کے داماد اور جامعۃ الصالحات بھٹکل کی موجودہ سینئر معلمہ محترمہ شہناز آپا کے شوہر کادو دن کی مختصر علالت کے بعد مؤرخہ12/ شعبان المعظم 1445ھ مطابق 24/ فروری 2024سنیچر کی صبح فجر کی اذان کے وقت انتقال ہوا، مرحوم کی  زندگی نہایت ہی قابلِ رشک تھی انتہائی اعلیٰ درجے کی ڈگریاں اور مناصب کے باوجود ان کی دینداری اور دعوتی جذبہ سننے اور پڑھنے کے قابل ہے وہ انگریزی میں سات کتابوں اور اردو میں ایک کتاب کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ Ph.Dڈاکٹر اور ایک کامیاب وکیل بھی تھے۔

اسمِ گرامی: محمد شفیع ابن عبد الغفار خان

ابتدائی حالات:آ پ کی پیدائش 22 مئی 1957 میسور(کرناٹک)میں ہوئی،تین بھائیوں اور ایک بہن میں آپ سب سے بڑے بھائی تھے اور الحمد للہ سب کے سب دینی مزاج کے حامل تھے، 25ڈسمبر 1989 میں بھٹکل کی ایک مشہور و معروف شخصیت مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل کے سابق صدر دوم اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے رکن شوریٰ مرحوم جناب ماسٹر محمد یوسف قاضی کی دوسری بیٹی (جامعۃ الصالحات بھٹکل کی موجودہ سینئر معلمہ محترمہ شہناز آپا)سے نکاح کیا ۔مرحوم اپنے آبائی وطن میسور میں تقریبا نصف صدی گزارنے کے بعد پچھلے بارہ سال سے قاضی گارڈن، محی الدین اسٹریٹ، مدینہ کالونی بھٹکل میں اپنے ذاتی مکان میں مقیم تھے۔

تعلیمی قابلیت:

M.A   : Middle Eastern Studies in 1979,  

  M.A   : Political Science University of Mysore in 1982,

  D.E.P : University of Mysore in 1982,

  D.P.M: Institute of Management Studies, New Delhi in 1984,

  Ph.D   : (Iranian Revolution & Islamic Constitution, University of Mysore in 1985,            

  L.L.M: Labour & Administrative Law, Annamalai University,

  B.A    : University of Mysore,

  L.L.B : University of Mysore,

 تدریسی و دیگرخدمات:  3/ سال لیڈس ڈگری کا لج شکاری پور میں پرنسپال کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد قوۃ الاسلام کالج بینگلور کے اولین پرنسپال بننے کا بھی ان کو شرف حاصل رہا،بھٹکل انجمن کالج میں تقریباً تین سال MBAڈپارٹمنٹ میں پروفیسر کے عہدہ پر فائز رہ کر طلبہ کو خصوصاً ہندوستانی دستور(Indian Constitution) اور  Professional Ethics کی تعلیم سے آراستہ کیا۔اس کے علاوہ آپ ایک کامیاب وکیل بھی تھے۔ 17/ سال میسور ڈسٹرکٹ کورٹ میں سول اور کریمنل کیسس لڑنے کا تجربہ رکھتے تھے،آپ کی یہ کوشش رہتی تھی کہ کورٹ میں داخل ہوئے بغیر فریقین کی آپس میں صلح صفائی ہوجائے،میاں بیوی کی نااتفاقی کے بہت سے مقدمات انھوں اپنی آفس میں ہی حل کرائے اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو عجیب ملکہ عطا فرمایا تھا۔اسی طرح غریبوں کے  مقدمات بھی مفت میں حل کرائے۔

تصنیفات:  جملہ آٹھ کتابوں کے مصنف تھے، جن میں 7کتابیں انگریزی میں اور ایک اردو میں لکھی۔

روزانہ کے معمولات وگھریلو زندگی: صوم و صلاۃ کی پابندی کے ساتھ ساتھ تہجد،نوافل اور ذکر و تلاوت کا اہتمام ہمیشہ  رہتا، بیوی بچوں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا،روزانہ ان کے ساتھ درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کا معمول، ہر کام مشورے سے کرنا، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، ہر وقت بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر رکھنا ان کا معمول تھا۔ان کی انھیں فکروں کی وجہ سے ان کی اہلیہ محترمہ جامعۃ الصالحات بھٹکل کی معلمہ ہی نہیں بلکہ ان کے دعوتی اسفار میں شانہ بشانہ شریک رہ کر داعیہ بنی، ایک بیٹی عصری تعلیم میں ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ حافظہ قرآن بھی بنی جو اس وقت علی پبلک اسکول بھٹکل کی ایک کامیاب معلمہ ہیں۔

نمایاں اوصاف: ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی سے ملنا،مہمانوں کا اکرام کرنا،پڑوسیوں کا خیال رکھنا،مریضوں کی عیادت کرنا، میت کے گھر جاکر تعزیت کرنا،محلہ کے ہر فرد کی دینی اعتبار سے فکر کرنا،ان کی خبر گیری لینا، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، روزانہ اپنے پلیٹ میں سے ایک لقمہ جانوروں کوکھلاناان کا محبوب مشغلہ تھا ،جب تک والدین حیات تھے ان کی بے لوث خدمت کی والدہ محترمہ کے انتقال سے دو سال پہلے اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ عمرہ کیا،اپنے بھائی بہنوں سے بے حد محبت کرنے والے،ان سب کے علاوہ حد درجہ کا تواضع، انکساری،نرم مزاجی،خوش اخلاقی،دین کے کام میں خلل یا دینی فرائض میں کوتاہی کرنے پر اپنی اولاد پر غصہ ہوتے تھے، ورنہ غصہ ان کے مزاج میں نہیں تھا، یہ وہ تمام نمایاں اوصاف تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھردئیے تھے، ان سب کے علاوہ علمائے کرام،مدراس و اہل مدارس سے محبت رکھتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ آج سے 15/ سال پہلے میسور میں مدرسہ دارالعلوم خاکی شاہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جہاں سے الحمد للہ علماء، حفاظ اور مفتیانِ کرام فارغ ہوکر علمی و دعوتی میدانوں میں اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ان سب کے علاوہ مزید ایک نمایاں وصف مرحوم کے اندر یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں کے پاس جاکر اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرانے پر ابھارتے تھے اور اس سلسلے میں ان کی ذہن سازی کرتے تھے اور مدارس سے تعلیم مکمل کر کے فارغ ہونے والے علمائے کرام کی تشکیل کرکے ان کو ایک سال اللہ کے راستے (جماعت) میں نکلنے کی ترغیب دیتے، اللہ کے فضل و کرم سے ان کی اس محنت کی وجہ سے تقریبا 25/ علمائے کرام جماعتوں میں نکلے ہیں، صرف ان باتوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ راتوں میں اٹھ کر ان سب کا نام لے کر رونااور اللہ سے ہدایت مانگنا اور ان علمائے کرام سے صحیح دین کا کام لینے کی اللہ سے توفیق مانگنا یہ ان کا معمول تھا۔

غیر مسلم برادران کی فکر: مرحوم کی بیٹی کی زبانی یہ بات سامنے آئی کہ ایک ہفتہ قبل جمعہ کے دن نہا دھوکر والد صاحب حمام سے باہر نکلے تو دھاڑے مار مار کر رونے لگے تو ان سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے: میں غیرمسلموں کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعائیں کروں گا، بہت سے ہندو بھائی میرے دوست ہیں۔ آپ کے حسن اخلاق اور دعوت سے بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام بھی ہوئے، ان میں سے ایک ساتھی ڈاکٹر بن کر آج 35 / سال سے مکۃ المکرمہ میں اپنی خدمت انجام دے رہا ہے۔

دعوتی خطوط روانہ کرنا: مرحوم کے اندر اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کا غیر معمولی درد اور کڑھن ودیعت کیا تھا جس کی وجہ سے وہ رات دن تڑپتے تھے اور ان کے لیے دعائیں کرتے تھے، پچھلے دو تین سال سے مرحوم کا رات سونے سے پہلے روزانہ کا یہ معمول تھا کہ حکومتی سطح کے لوگوں، اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ،کرکٹ پلیئرس، فلم ایکٹرس حتی کہ ہندوستان سے باہر بھی حکومتی سطح کے کئی عہدیداران کو اپنے ای میل کے ذریعے دعوتی پیغامات روانہ کرتے جن میں سرفہرست کینڈا کا پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈیو،ملعون اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو، UKکا سابق وزیر اعظم بورس جونسن،کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور ہندوستانی مشہور فلمی ایکٹرس بھی شامل ہیں،خط روانہ کرنے کے بعد ان کے جواب کا انتظار نہیں کرتے تھے، بس ان تک دعوت کو پہنچانا اپنا فریضہ سمجھتے تھے، اگر کسی کاجواب آجاتا تو مرحوم کی خوشی کی انتہا نہ رہتی،اس کا م میں ان کی اولاد ان کا ساتھ دیتی تھی۔

بیرونی ممالک کے اسفار:  موصوف نے تقریباً 14/ ملکوں کا سفر کیا  جس میں ایران اور عراق میں مہمانِ اعزازی بن کر گئے تھے جہاں پر انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینی کی سوانح حیات تحریر کی تھی جس پر ان کو اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا اور بقیہ تمام ممالک میں مرحوم کے دعوتی سفر ہوئے تھے جن میں سرفہرست سری لنکا،ملیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، انگلینڈ، فرانس، امریکہ، کینیڈا، سعودی عربیہ، کویت، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ فرانس میں رہائش کے دوران حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی سرفراز ہوئے۔

دعوت و تبلیغ: سترہ / اٹھارہ سال کی عمر کا نوجوان اور اس پر کالج کی زندگی! عام طور پر اس عمر میں لڑکے آزاد انہ زندگی گزارتے ہیں اور آزاد خیال ہوتے ہیں اور اس پر مزید مرد و زن(Co-Education) کی مخلوط تعلیم۔ عین جوانی کی اس عمر میں یہ نوجوان ایک مرتبہ جماعت کے ساتھیوں کے ہاتھ لگا جو اس کی زندگی کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا، اس وقت سے آخری سانس تک وہ اس دعوت و تبلیغ کی مبارک محنت سے جڑا رہا۔محلہ محلہ، نگر نگر، بستی بستی، قریہ قریہ ہی نہیں قریہ اور شہر سے بڑھ کر تعلقہ، تعلقہ سے بڑھ کر ضلع اور ضلع سے بڑھ کر ریاست اور ریاست سے بڑھ کر ملک بھر میں پیدل جماعت، سوار جماعت کی شکل میں گھومتا پھرتا رہا،اور کئی سینکڑوں نہیں ہزاروں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ہمارے شہر بھٹکل کے اطراف کی ایسی دسیوں بستیاں ان کی فکروں کی فہرست میں تھیں جن بستیوں کے بارے میں آج تک بھی یہاں کے بہت سے باشندے ناآشنا ہیں، اپنی سواری پر اپنے رفیق عبد القدوس محتشم کو بٹھا کر چھوٹی چھوٹی بستیوں میں جانا، جہاں صرف دو چار مسلمانوں کے مکانات ہیں وہاں جا کر ان کو دعوت و تبلیغ کی محنت سمجھانا،اللہ و رسول کے احکام وفرائض کی پابندی پر ابھارنا یہ ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔ حلقے اور شہر کے مشوروں، محلہ کے گشت، پڑوس محلہ کا گشت، ڈھائی گھنٹے کی ترتیب اور ماہانہ سہ روزہ جماعت میں نکلنا یہ ان کا عام معمول بن گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو دنیا کے اعتبار سے بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگریوں سے نوازا تھا لیکن لوگ گواہ ہیں کہ آج تک ان کے کسی عمل سے لوگوں کو پتہ نہ چل سکا کہ یہ بندہ اتنی قابلیت کا مالک تھا،آج ان کی وفات کے بعد ان کے ایک ایک واقعات کا ہم سب کو پتہ چل رہا ہے، لوگ انھیں شفیع ماسٹر یا شفیع سر کی حیثیت سے جانتے تھے اور جماعت کے کاموں میں دیوانوں جیسا گھومنے والا ایک سر پھرا ہی سمجھتے تھے، لیکن اس دعوت و تبلیغ کی محنت نے ان کو دنیا کی تمام ڈگریوں پر فائق کرایا اور آج ہمیں اللہ رب العزت کی ذات عالی سے امید ہے کہ یہ تھکا ہارا انسان آج اپنی ہمیشہ کی آماجگاہ میں آرام سے سو رہا ہوگا اور جنت کے باغیچہ میں آرام کر رہا ہوگا۔

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پرمگر                عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

     بقول استادِ محترم مولانا محمد الیاس صاحب ندوی بھٹکلی(جنرل سکریٹری مولانا ابو الحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی و استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل) کہ:  ”ہمیں ہمیشہ اس کا افسوس رہے گا کہ ہمارے درمیان موجود اس قیمتی موتی کی ہم نے قدر نہیں کی   ؎   ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی  “

خواب میں جنت کی خوشخبری: خواب شرعی اعتبار سے دلیل تو نہیں لیکن قرینہ ضرور ہے جس سے ان کی آخرت میں بخشش کے آثارظاہر ہوتے ہیں ایک رات مرحوم کے بہنوی محمد مصطفی صاحب(جو ایک متقی و پرہیزگار انسان تھے) کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت  ہوئی تو انہوں یہ خو شخبری سنائی کہ بہت بڑی جنت کے مستحق بن گئے اور چالیس حوروں سے نکاح کیا جائے گا، اس پر بہنوئی  خوش ہوکر حضور ﷺ سے سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! کیا یہ سب میرے لیے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا:  کہ جو تیرے پڑوس میں کھڑا ہے اس کو یہ خوشخبری سنادو، جب دائیں جانب مڑ کر دیکھا تو ان کے بڑے سالے (مرحوم پروفیسر شفیع صاحب) تھے، انہوں نے اس بشارت کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ یہ بندہ مخلص بن کرچالیس سال سے میرے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔

آخری لمحات: جمعہ کی نماز کے بعد مجھے آصف بھائی کا فون آیا کہ ذرا شفیع بھائی جان کے گھر آجانا، ان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہے، جب میں حاضر ہوا تو بہن نے آواز دی کی عدنان آیا ہے تو وہیں لیٹے لیٹے مجھ سے کہا کہ قل ھو اللہ احد دس مرتبہ پڑھو، دوپہر سے مرحوم پر غشی طاری تھی، عصر بعد تھوڑا افاقہ ہوا تو اپنی بہن سے فون پر بات کی اور اپنے سالے(محمد آصف قاضی)سے اس ماہ تین دن جماعت میں نہ جانے پر افسوس کا اظہار بھی کیا،مغرب اور عشاء کے بعد محلہ اور جماعت کے بہت سے ذمہ داران نے عیادت بھی کی،جنھوں نے بھی سلام کیا، ان سب کا جواب دیا لیکن آگے کسی سے بات نہیں کی، دیر رات تقریباً ڈھائی بجے ان کے فرزند   (محمد مصعب) اور داماد (محمد مسعود)بھی گھر پہنچے،تہجد کا وقت تھا، اپنی اہلیہ کے ہاتھوں زم زم کا پانی پیا اورتقریباً آدھ منٹ تک اللہ اللہ کا وِرد زبان پر تھا، بس یہی ان کے آخری الفاظ تھے۔

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی                تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

 وفات:   میرے بہنوی(خالہ زاد بہن کے شوہر)  مرحوم پروفیسر شفیع صاحب علیہ الرحمۃ دو دن کی مختصر علالت کے بعد 21/ شعبان المعظم 1445ھ مطابق 24/ فروری 2024سنیچر کی صبح فجر کی اذان کے وقت اپنے پیچھے اہلیہ، ایک فرزند(محمد مصعب)اورچار بیٹیوں کو چھوڑ کراس دارِ فانی سے دار البقا کی طرف کو چ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی                    ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

اسی دن بعد نماز عشاء بھٹکل کی عالیشان مسجد، تنظیم ملیہ جمعہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں قریب و دور سے آئے ہوئے مرحوم کے رشتہ داران کے علاوہ بھٹکل کے علمائے کرام، داعیان اسلام اور ان کے شاگردوں کا ایک جم غفیر تھا اور نوائط کالونی قبرستان میں مرحوم کو سپردِ خاک کیا گیا، مرحوم گویا ہم سب سے یوں مخاطب تھے۔

( اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا