English   /   Kannada   /   Nawayathi

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

share with us

جامعہ کے مہتمم مولانا عبدالباری صاحب ندوی کے ساتھ ہم جامعہ کے اساتذہ کا ایک وفد ایک دورہ سے واپسی میں منگلور سے کچھ دور دھر مستلہ مندر کے پجاری ڈاکٹر ویریندرہیگڈے سے ملنے کے لیے گیا تاکہ بھٹکل میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی صدارت میں ہونے والے کامیاب وعظیم الشان تاریخی جلسہ پیام انسانیت میں ان کی شرکت اور ملک میں بھائی چارگی وانسانیت کے موضوع پر ان کی مؤثرتقریرپران کا شکریہ اداکیا جائے،پورے ملک میں دھرمستلہ کا یہ تاریخی مندر بڑی اہمیت کا حامل ہے ،ملک کے اکثر صدور ووزراء عظم یہاں آتے ہیں ،دس ہزار سے زائد لوگوں کے بیک وقت روزانہ مفت کھانے کا ان کے یہاں انتظام ہوتاہے ،صفائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ، مندر میں ڈالے جانے والے صرف نذرانوں سے انہوں نے مندر ٹرسٹ کے تحت لاکھوں طلباء کی تعلیم کا نظم کیا ہے ،صوبہ بھر میں ان کے درجنوں تعلیمی ادارے پھیلے ہوئے ہیں،انجینئرنگ اور میڈیکل کالج تک کا انہوں نے اپنی قوم کے لیے انتظام کیاہے ، ہماری درگاہوں میں ڈالے جانے والے نذرانوں وعطیات کے متولیوں وذمہ داروں کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ڈاکٹرویریندرہیگڈے صبح مقررہ وقت پر اپنی مخصوص کرسی پربیٹھ کر آنے والے ہزاروں عقیدت مندوں کودورسے ہی صرف اپنے دیدار کا موقع دیتے ہیں، ہم لوگوں نے اپنے آنے کی جب ان کو اطلاع دی تو انہوں نے ہمیں استقبالیہ میں اکرام سے بٹھایا اور خود ہم سے ملنے جلد فارغ ہوکرہماری نشست گاہ میں آگئے،تقریباً آدھ گھنٹے تک بے تکلف گفتگو کرتے رہے ، مفکر اسلام سے بھٹکل میں اپنی ملاقات اوراس آخری عمر میں بھی ان کی ملک ووطن کے لیے محبت وفکرمندی پر اپنی غیر معمولی مسرت بلکہ حیرت کا اظہار کیا ، باتوں باتوں میں ہم مسلمانوں سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے یہاں سے غریبوں کی مدد کا سلسلہ زمانہ دراز سے جاری ہے ،اس سے بڑی تعداد میں مسلمان گھرانے بھی فائدہ اٹھارہے ہیں جس میں بڑی تعداد برقعہ پوش مسلم خواتین کی بھی ہے ، ہم نے پوچھا کہ اس کا کیا طریقہ ہے، کہنے لگے ایک فارم دیاجاتاہے جس میں مدد طلب کرنے والا منجوناتھ سوامی بت کی قسم کھاکر اس سے مددطلب کرتے ہوئے اس کو مخاطب کرتاہے اور اپنی ضروریات وحاجات کو پورا کرنے کی اس سے درخواست کرتاہے ، یہ سننا تھا کہ ہماری رونگھٹے کھڑے ہوگئے ،ہاتھوں کے طوطے اڑگئے،پیرو ں تلے زمیں کھسکنے لگی،ہم جب شہر آئے اور اپنے احباب میں اس ناقابل یقین ایمان سوز واقعہ کا ذکر کیا تو ہمارے ایک ساتھی نے اس سے زیادہ دل دہلادینے والے ایک اور حادثہ کا ذکر کرکے ہمارے ہوش اڑا دئیے ،اس نے بتایا کہ شہرسے سو کلومیٹر کے فاصلہ پر لکشمی شور مندر میں کچھ دن پہلے ایک نہایت دیندار ،متدین اورپنج وقتہ نمازی شخص کو دیکھا گیا جو اپنے گھریلومسائل والجھنوں میں مبتلاہوکر عملیات کے چکر میں ازالہ سحر کے خاطروہاں علاج کے لیے پہنچ گیاتھا،جہاں کا معمول یہ ہے کہ ہر آنے والے شخص کو مندر میں موجود بت کے طواف کرانے کے بعد ہی اس کی گذارشات ومعروضات کو سناجاتاہے ، اس اللہ کے بندہ سے بھی یہ عمل کرایاگیا، انھوں نے بتایاکہ مسلم خاندانوں کا لکشمی شور جانے کا سلسلہ زور وشور سے کئی مہینوں سے جاری ہے ۔
دونوں واقعات کے محرکات :۔ حدیث شریف میں آتاہے فقر بُری بلاہے، کبھی انسان کو تنگدستی کی حالت کفرتک بھی پہنچادیتی ہے،پہلے واقعہ میں کچھ یہی معاملہ تھا،ان مسلم گھرانوں کو مالی مشکلات اور فقروفاقہ نے دھرمستلہ مندر جاکرشاید اس کفر یہ عمل کو کرنے پر مجبور کردیا تھا،دوسرے واقعہ میں گھریلومسائل، ذہنی الجھنوں اورپریشانیوں نے ان اللہ کے بھولے بھالے بندوں کو شرکیہ کام کرنے پر آمادہ کردیا تھالیکن حدیث شریف میں جس فقر کا ذکر ہے وہ موت تک پہنچانے والا فقرہے،جان لیوا تنگدستی ہے ، اس زمانہ میں ہمارے معاشرہ میں کم از کم کوئی ایسا تنگدست نہیں ہے جس کوفاقہ کشی میں جان بچانے کے لیے یہ کفر یہ عمل کرنا پڑتاہو،بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرنے والے اب دیکھنے کو ہی نہیں بلکہ سننے کو بھی نہیں ملتے، اسی طرح جن مسائل ومشکلات اور ذہنی الجھنوں وگھریلوپریشانیوں سے تنگ آکر غیر اسلامی عملیات اورشرکیہ کا موں کو ذریعہ بناکر اس کے ازالہ کی کوشش کی جاتی ہے اس کا تعلق بھی زیادہ تر توہمات سے ہوتاہے اور توہم ایک ایسا مرض ہے جس کا دنیا میں کہیں کوئی علاج نہیں،سحر، جادواور باہری اثر کی باربار رٹ نے ہماری موجودہ سوسائٹی میں انسانوں کی توجہات کو امراض جسمانی کے اصل حقائق، اوراس کے اصل محرکات پرتوجہ مبذول کرنے سے اچھے اچھوں کو روک دیا ہے ، ہمارا یہ حال ہے کہ دعوت میں تیز مرچوں والا مصالحہ دار اور ہضم نہ ہونے والا کھانا پیٹ پھولنے تک نہیں بلکہ سانس پھولنے تک کھائیں گے، اس کے بعد دست اوراجابت کی شکایت ہوگی اور ایک آدھ دن میں افاقہ نہیں ہوگا تو تیسرے دن مریض یا اس کے گھروالے یا اس سے ملنے والے اس کو مشورہ دیں گے کہ یہ شاید باہر کا اثر ہے، کسی اچھے عامل سے جانچ لیں، بیٹی گھر میں بن بیاہی بیٹھی ہے ،نسبت طئے نہیں ہورہی ہے ،6/8ماہ بعد کوشش میں ناکامی کے بعد ہی شور مچنے لگتاہے کہ کسی نے بندش کردی ہے ،جہاں بھی جاتے ہیں لوگ بچی کو پسندکرتے ہیں لیکن عین موقع پر انکار کردیتے ہیں ،نظر اس پر نہیں جاتی کہ باپ یا بھائیوں میں سے کوئی شہر بھر میں اپنی کسی حرکت کی وجہ سے بدنام ہے ، اسی لیے اس گھر سے بچی کو اپنے یہاں لوگ لے آنانہیں چاہتے ،بچہ شہر سے باہر یا بیرون ملک جاکرنوکری کی تلاش میں 6/7ماہ سے کوشش کررہاہے لیکن کہیں ملازمت نہیں مل رہی ہے ،دل میں فوراً بات آتی ہے کہ شاید کسی نے نوکری نہ ملنے کے لیے سحرکردیا ہے، اس کا استحضار نہیں رہتا کہ ہمارا بچہ اپنے پچھلے کسی کرتوت کی وجہ سے اچھی نظروں سے دیکھا نہیں جارہاہے اس لیے اس کو کوئی اپنے یہاں ملازمت دیناپسندنہیں کرتا،ایک صاحب نے تو حدکردی، ان کی بچی غلط صحبت اور بے جالاڈ پیار کی وجہ سے بگڑگئی اور ایک دن اپنے دوست کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ،اس موقع پر اس باپ کو اپنی بچی کو یہ پیغام دیناچاہیے تھاکہ کل سے میرے گھر میں تمہاراداخلہ بند،بدنامی کے اس داغ کے ساتھ میرے گھر واپس نہ آنا،اس کے بجائے وہ صاحب سب سے کہتے پھرتے رہے کہ میری بچی پر کسی نے سحر کردیا اس لئے وہ گھرسے دوست کے ساتھ بھاگ گئی،دودن تک بخار نہیں اتراتو تیسرے دن شبہ ہونے لگتاہے کہ کسی عامل سے معلوم کرناچاہیے کہ کہیں سحر کا اثر تو نہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملیریا،فلو اور ٹائیفیڈ6/7دن تک جانے کانام نہیں لیتے ہیں،بد احتیاطی سے کبھی جانے والا بخار پھر واپس آتاہے اور یہ سلسلہ ہفتوں تک جاری رہتاہے ان سب پر اب ہماری نظرنہیں رہتی،فوراً دل ہی میں نہیں بلکہ زبان پر بات آجاتی ہے کہ باہر کا اثر ہے ،شاید سحر ہوگیا ہے، آج کل بعض معالج اورڈاکٹر بھی اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لیے ان کی دواؤں پر جلد صحت یاب نہ ہونے پر کہہ دیتے ہیں کہ بیر ونی اثرہے ، بیماری کچھ بھی نہیں، کسی عامل سے رجوع کرلیں تو بہتر ہے،اب تو حد ہوگئی ،کینسر قدیم اور مہلک مرض ہے جو کسی سبب کے بغیر بھی کسی کو بھی آسانی سے آدبوچتاہے ، گذشتہ4/5سالوں میں کئی اعلی سطح کے دیندار لوگوں کو دیکھا گیا کہ ان کو اس بیماری کے لاحق ہونے اور اس کاپتہ چلنے کے بعد اعلان کردیا گیا کہ سحر کے ذریعہ اس بیماری میں ان کو مبتلاکردیا گیا ہے ،نتیجہ یہ ہو اکہ علاج سے توجہ ہٹ گئی اور پوری توجہ سحر کے توڑ پر ہوگئی اور دیکھتے دیکھتے یہ سب اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سحر کی شرعی حقیقت:۔ قرآن وحدیث سے معلوم ہوتاہے کہ سحر یعنی جادو اپنی حقیقت رکھتاہے، ہر ایک کے لیے حتی کہ انبیاء ورسولوں کے بھی ذاتی دشمن اللہ نے پیداکئے جو ان کو جسمانی یا روحانی طورپرنقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے، کسی سے حسد ،کینہ ، بغض انسانی فطر ت میں داخل ہے ، کسی کو اچھی حالت میں دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھنا کم ظرف انسانوں کا نفسیاتی مرض ہے، آپ کی نیک نامی ہورہی ہے ،معاشرہ میں آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے ،اللہ تعالی آپ کو مالی ،دینی اور سماجی ترقیات سے نواز رہے ہیں ،آپ کی شہرت بامِ عروج کو پہنچ رہی ہے ، ہرجگہ آپ کا چرچہ ہورہاہے ،اس پر آپ کا کوئی رشتہ دار،ساتھی ،دوست یاآس پاس رہنے والا کوئی بھی کینہ پرور شخص دل ہی دل میں کڑھنے لگتاہے،اس پر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے یہ نعمت ملے یا نہ ملے کم از کم اس سے تو ختم ہوجائے ، اس کے لیے وہ جان توڑ کوشش بھی کرتاہے اور آخر میں سحر سے بھی مدد لیتاہے جس میں شیاطین اور بدکردار جنات سے وہ تعاون لیتا ہے ،یہ عمل پچھلی اقوام میں یہودیوں میں سب سے زیادہ تھا، حسد کے میدان میں ان کو امامت کا درجہ حاصل تھا اور آج بھی ہے ،حضرت سلیمان کے زمانہ میں سحر کے اس عمل کو عروج حاصل ہوا، اس لیے کہ اس زمانہ میں جنات پر بھی ان کی حکومت تھی اور وہ ان کے لیے مسخر کردیئے گئے تھے،لیکن ایک سچے مؤمن کا عقیدہ اور اس کے ایمان کا جزء یہ ہے کہ وہ یہ یقین کامل رکھے کہ سحربھی اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمَاھُمْ بِضَارِّیْنَ بِہِ مِنْ اَحَدٍالِاّبِاِذْنِ اللّہکہ سحر کے ذریعہ بھی کوئی اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
شاید آپ کو یقین نہ آئے:۔ایک عامل سے ہم نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ کے پاس علاج معالجہ کے لیے آنے والے مایوس نہیں جاتے ، کہنے لگے کیا مطلب ؟ میں نے کہا کوئی ایسا شخص آپ بتاسکتے ہیں کہ جس نے سحر کے شبہ میں آپ سے رجوع کیا ہواور آپ نے یہ کہہ کران کو واپس کیا ہو کہ تم پر کوئی سحر کااثر نہیں ، تم ٹھیک ہو،کہنے لگے کہ نفسیاتی طور پر ایسا کہنے سے ان کا ہم پر اعتماد اٹھ جائے گااور وہ پھر کسی اور سے رجوع کرکے علاج کرائے گا، اس لیے ہم مجبوراً ان کو ایسا کہتے ہیں اورسحروباہر کا اثرکہہ کر ان کا علاج کرتے ہیں۔
دلچسپ واقعہ :۔ اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ، ایک صاحب کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ان پر سحر کا اثر ہے ، ان کو ایک عالم دین کے متعلق کسی نے بتایاکہ تم ان سے رجوع کرواور ان سے تعویذ لو، وہ انکار کریں گے پھر بھی تم اصرار سے ان سے چپکے رہنا،جب تک تعویذ نہ دیں نہ لوٹنا، وہ صاحب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے صاف انکار کردیاکہ میں نے آج تک یہ کام نہیں کیا اور مجھے یہ عمل آتا بھی نہیں ، وہ صاحب کسی صورت ان سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اور ہرحال میں تعویذ لے کر ہی جانے کے عزمِ مصمم پر قائم تھے،بالآخر انہوں نے ایک پرچی منگوائی، اس پر کچھ لکھااوراس کو بندکرکے تعویذ کی شکل میں ان کے حوالہ کرکے ان سے کہا اس کو ایک ہفتہ تک ہاتھ پرباندھ کررکھنا ، نہ خود کھولنا اور نہ کسی کو دیکھنے دینا، اگر ایسا کیا تو الٹا اس کا اثر ہوگا، ایک ہفتہ بعدآکر مجھ سے ملنا اور بتانا کہ کیا صورت حال ہے ، وہ صاحب خوش ہوئے ،ایک ہفتہ بعد لوٹے اور کہنے لگے،مولانا:۔ آپ کی تعویذ بڑی مؤثر تھی ، سحر ختم ہوا اور میں اچھا ہوگیا ، انھوں نے اسی وقت ان کی تعویذ نکال کر کھول کر اس میں موجودالفاظ ان کو سنائے ، اس میں لکھا تھا’’ائے اللہ :۔ یہ تیرا بندہ میرے پاس سے واپس جاتانہیں اور میں تعویذ دیتانہیں اور مجھے یہ کام آتانہیں ، ائے اللہ:۔ تو ہی اس سے نپٹ لے ‘‘ وہ صاحب یہ مضمون دیکھ کر منہ تکتے رہ گئے ، عالم دین نے کہا کہ آپ نفسیاتی مریض تھے، آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ میرا علاج فلاں سے ہی ہوگا،آپ کے گمان کے مطابق جب میں نے علاج شروع کیاتو آپ کا مرض بھی زائل ہوگیا۔
کاش وہ بندہ ان کے بجائے اللہ تعالی سے ہی اسی یقین کے ساتھ مانگتا تو اس کا ایمان بھی بچتااور علاج بھی ہوتا۔
عملیات میں شرکیہ عمل کا ارتکاب :۔ اکثر تعویذوں کو کھول کر دیکھنے سے معلوت ہوتاہے کہ اس میں شرکیہ الفاظ لکھے ہوتے ہیں، غیراللہ کو مخاطب کرکے ان سے مدد طلب کی جاتی ہے ، اولیاء اللہ، بزرگان دین اور فرشتوں کے نام اس میں درج ہوتے ہیں ، آج کل کاروبار میں برکت کے لیے دکانو ں اور آفیس وغیرہ میں فریم کے اندر جو الفاظ درج ہوتے ہیں اس پر غور کریں توکمزور صاحب ایمان کا بھی خون کھولنے لگتاہے ، لکھاہوتاہے یاجبریل یا میکائیل المدد المدد۔ ایک صاحب کو دیکھا صبح دوکان کھلتے ہی جیب سے ایک پرچی نکالی ،اس کو کچھ دیر تک دیکھتے رہے پھر اس کو جیب میں رکھ دیا،میں نے اصرار کے ساتھ وہ پرچی لے کر دیکھی تو اس میں لکھا تھا، دوکان وکاروبار میں برکت کے لیے صبح دوکان کھلتے ہی ان الفاظ کو دیکھیں،نیچے تحریریہ تھی (کھیعص، یسٓ،طہ، اآآ وغیرہ)کچھ دنوں کے بعد پھر ان کے یہاں جاناہوا،اس کاغذ کو انہوں نے اب فریم بنواکر اپنے ٹیبل کے اوپر لٹکا دیا تھا۔
ایمان صرف اللہ تعالی کے ایک ماننے کا نام نہیں :۔ کیا غیر اللہ کے علاوہ کسی نبی یا رسول یا فرشتے کے ہاتھ میں نفع نقصان کی قدرت ہے ؟ کیا اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی مخلوقات کی پکار سن سکتاہے ؟ کیا سمیع وبصیر رب العزت کے علاوہ کسی کے پاس انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی قدرت ہے ؟ اگر ہم نے بھی غیر اللہ کو نافع وضارّ سمجھ لیا تو غیروں میں اور ہم میں فرق کیا رہ جاتاہے ؟ اگر ہم نے بھی کسی رسول یا نبی یا فرشتہ وبزرگ کو پکار کر یہ سمجھ لیاکہ وہ ہماری حاجتوں کو پورا کرسکتے ہیں تو یہود ونصاری اور ہم میں کیا امتیاز رہ جاتاہے ؟ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے لکھاہے کہ شرک صرف مندرمیں جاکرگھنٹی بجانے ہی کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالی کے متعلق اس کی قدرتوں واختیارات کے منافی غلط خیالا ت کے آنے کا نام بھی کفروشرک ہے ، ہم اپنی اولاد کو نواقض وضو،مبطلات صلاۃ،نواقض غسل تو یاد کراتے ہیں لیکن نواقض ایمان اور مبطلات اسلام سے باخبر نہیں کرتے ،ایمان صرف اللہ رب العزت کو ایک ماننے کا نام نہیں بلکہ اس کی تمام صفات و کمالات اور قدرتوں کے ساتھ اس کو قادر ومالک ماننے کا نام ہے ، ایمان کا ایک حصہ تقدیر پر ایمان لانا بھی ہے ، اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا، تقدیر کا مطلب ہے کہ ہمیں جو بھی نفع ونقصان پہنچنے والا ہے اس کا ہمارے علیم وخبیر رب کو پہلے سے علم ہے اور یہ سب اسی کے حکم سے ہوتاہے، تقدیر پر ایمان کا حق یہ ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ کوئی شخص ذرہ برابر نقصان ہمارے رب کی اجازت ومنشاء کے بغیرہمیں نہیں پہنچاسکتا، قُلْ لَنْ یُصِیبَناَ اِلّا مَاکَتَبَ اللّہُ لَنا ساری دنیا مل کر ہمیں تکلیف دینا چاہے تو بھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتی الاّ یہ کہ اللہ رب العزت کا حکم ہو، عزت وذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے،جو مصائب ،مسائل اور تکالیف آتی ہیں اس کو وہ ہمارے رب نے ہمیں پیداکرنے سے پہلے ہی ہمارے لیے مقدر کردیا ہے ، اگر ہم گناہ گار ہیں تو اس سے ہمیں ان آزمائشوں سے متنبہ کرکے ہمیں اپنے سے رجوع کرنے اور سنبھلنے کا موقع اللہ دینا چاہتاہے ، اگر ہم نیک ہیں تو اس پر صبر کروا کر ہمارے درجات وہ بلند کرناچاہتاہے۔
پھراس کا شرعی حل کیا ہے :۔ اللہ تعالی نے اس گندہ عمل یعنی سحر کاتوڑ بھی اہل ایمان کو بتادیا ہے، مدینہ کے یہودیوں نے رحمت عالم ﷺ کے خلاف آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے سحر کا سہارا لیا ،آپ ﷺ پر اس کا ہلکا سا اثر ظاہر بھی ہوا لیکن آپ کو فوراً متنبہ بھی کردیا گیا اور اس کے توڑ کے لیے قرآن مجیدکی دوسورتیں معوذتین کی یعنی قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس اتاری گئی ، جیسے ہی یہ سورتیں نازل ہوئیں ،آپ ایک ایک آیت پڑھتے گئے اور آپ پر سے سحر کا پورا اثر ختم ہوا،آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی بندہ اس کو صبح شام تین تین دفعہ پڑھے گا اس کو صبح پڑھنے پر شام تک اور شام کو پڑھنے پر صبح تک اللہ تعالی سحر اور ہرطرح کی بلیات و آزمائشوں سے محفوظ رکھیں گے،رحمت عالم ﷺ اللہ تعالی کی طرف سے ہرطرح کے مصائب سے حفاظت کے وعدے کے باوجود یہ دونوں معوذتین کی سورتیں نہ صرف صبح شام تین تین مرتبہ بلکہ رات کو سوتے وقت بھی تین دفعہ اور ہر فرض نماز کے بعد ایک دفعہ پڑھنے کا معمول رکھتے تھے، اس ارشاد نبوی کے بعد صحابہ کرام کا معمول بن گیا کہ بیماروں اور بچوں پر جو اس کو پڑھ نہیں سکتے تھے پڑھ کر دم کرتے،تاریخ اسلامی میں ایسے سینکڑوں واقعات پیش آئے کہ جنہوں نے ان سورتوں کو پڑھنے کی پابندی کی ، ہزارکوششوں کے باوجود ان پر سحر کا اثر نہیں ہوسکا۔
جامعہ میں پڑھنے کے ابتدائی زمانہ میں مصلح امت شاہ ابرارالحق صاحب ؒ نے ہم طلباء سے خطاب کرتے ہوئے اس کی تاکید کی تھی کہ عزیز طلباء:۔ آپ سب تین تین دفعہ صبح شام معوذتین یعنی سورہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھنے کا معمول رکھیں، اللہ تعالی آپ کو ہر قسم کی تکلیفوں بالخصوص سحر وحسد کے اثرات سے محفو ظ رکھیں گے، جامعہ کے ایک سابق طالب علم پر سحر کا اثر ہوا ،وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں رہتے تھے میں نے ہردوئی حضرت مولانا کی خدمت میں حاضری پر اپنے اس دوست کے لیے دعاکی درخواست کی ، تو مولانا نے پوچھا کہ کیا وہ معوذتین پابندی سے نہیں پڑھتے تھے ؟ اگر اس کا معمول رکھتے تو انھیں یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے، ان سے کہئے کہ روزانہ اس کا معمول رکھیں انہوں نے اس کا معمول شروع کیا تو سحر کا اثر بھی الحمدللہ ختم ہوگیا۔
بچوں کو نظر لگنا تو عام بات ہے ، حدیث شریف میں آتاہے کہ نظر کا لگنا حق ہے ،بچوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی بعض اوقات نظر لگ جاتی ہے،اچھی حالت میں دیکھ کر کسی کی اس پر نگاہ پڑجاتی ہے تو اس کا الٹااثر ظاہر ہوتاہے ،وہ بیمار ہوجاتاہے یا بجھابجھاسارہنے لگتاہے رحمت عالمﷺ جب اپنی چہیتی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لاتے تو اپنے ننھے منے نواسوں حسن وحسین کو بلاکر یہ کلمات پڑھ کر ان پر دم فرماتے کہ میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے واسطہ سے شیطان، بری چیز اور نظر بد سے پناہ مانگتاہوں (اَعُوذُ بِکَلِماَتِ اللّہِ التّامَۃ، مِنْ کُلِّ شیْطَان وَشَرّہَامَّۃ وَمِنْ کُلّ عَیْنٍٍ لَامَّۃٍ)
ایک شخص نے سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے رات بچھو نے ڈس لیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے شام کو یہ دعا کیوں نہ پڑھی کہ میں اللہ سے اس کے مخلوق کے شرسے پناہ طلب کرتاہوں،ان سے آپﷺ نے فرمایا اگر تم یہ دعاپڑھتے تو تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوتی (اَعُوْذُ بِکَلِماَتِ اللّٰہِ الْتّامَاتِ مِنْ شَرِماَخَلَق) صبح شام یہ کہے کہ اللہ کی نام کی برکت سے اس کی اجازت کے بغیر زمین وآسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی اور وہی تنہا سننے اور جاننے والا ہے ، اس کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھاجاتاہے (بِسْمِ اللّہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِہِ شَئٌ فِیْ اْلاَرْضِ وَلَافِی الْسَّماَءِ وَہُوَ الْسَّمِیْعُ الْعَلِیْم)حضرت عثمان کے صاحب زادے حضرت ابان کا معمول روزانہ اس دعاکے پڑھنے کا تھا ، ایک دن ان پر فالج کا اثر ہوا تو انھوں نے کہا کہ میں نے اس دن یہ دعا نہیں پڑھی تھی،حضرت ابوسعید اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہاد میں گئے ہوئے تھے،وہاں ایک قبیلہ پرسے گذرہواجن کے سردار کو بچھونے ڈس لیاتھا،ان کی درخواست پرانہوں نے یہ سوچ کر کہ پورا قرآن شفاہے اور سورہ فاتحہ اس کا خلاصہ ہے ،صرف سورہ فاتحہ سات مرتبہ پڑھ کر اس سردار پر دم کردیا اور وہ شخص اسی وقت شفایاب ہوگیا،حدیث شریف میں آتاہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے ستر ہزارلوگوں کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے اور ان میں سرفہرست وہ لوگ ہوں گے جو تعویذ گنڈوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہر تکلیف اور بیماری میں بھی اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
یہ اوراس طرح کے دسیوں قرآنی دعائیں اور نبوی اذکار واوراد جس سے ہرطرح کی آزمائشوں سے اللہ پاک اس کا ورد رکھنے والوں کو محفوظ رکھتے ہیں،ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ہم بیماریوں،مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلاہوتے ہیں تو اس کے ازالہ کے لیے ہر طرح کا علاج کرتے ہیں ، لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات بے بسی اور مایوسی کے عالم میں غیر شعور ی طورپر شرکیہ عمل وعلاج سے بھی دریغ نہیں کرتے ، لیکن بیماری اور شفا کے تنہا مالک رب العالمین کی طرف سے بتائی گئی پیش بندی کرنے والی ان مؤثر ومجرب دعاؤں ، اذکار واوراد اور پیشگی بتائے گئے اس قرآنی ونبوی مفت علاج کی طرف ہماراذہن نہیں جاتا جس سے صحت وعافیت اور مسائل ومصائب سے حفاظت کے ساتھ ایمان کی بھی سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے ، کاش اس پر ہم توجہ دیتے اور اپنے روزانہ کے معمولات میں چند منٹ نکال کر ان قرآنی ومسنون دعاؤں کو شامل کرتے تو ہمیں وہ بہت سارے دل دہلانے والے معاشرے میں روز پیش آنے والے شرکیہ واقعات کو سننے سے بھی نجات ملتی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا