English   /   Kannada   /   Nawayathi

گنیش ہبا تہوار کے موقع پر بھٹکلی نوجوانوں کی قومی یکجہتی کی زندہ مثال:سیدھی بات: انصارعزیز ندوی ؔ

share with us

شہر بھٹکل کو فرقہ پرست اور عصبیت بھرے میڈیا نے جتنا بدنام کیا ہے شایدہی کوئی اتنا چھوٹا شہر ہو جس کو اس حدتک بدنام کیا گیاہو،مگر شہر بھٹکل اپنی امن پسندی اور ایک دوسرے کی امداد کے لیے اپنے آپ ایک مثال ہے ، میڈیا کو کبھی یہاں کی اچھائیاں نظر نہیں آئیں، وہ لوگ نظر نہیں آئے جو اس شہرکے مثالی ہیں ۔ہمیشہ عصبیت کے چشمے سے دیکھنے والا میڈیا ،یہاں کے چھوٹے چھوٹے معاملہ کو اُچھال کر اس کو بدنام کرنے میں اپنی پوری سازش رچی۔اس سے قبل میں نے اپنی’’ سیدھی بات ‘‘والی تحریروں میں اُن نوجوانوں کا تذکرہ کیا تھا جویہاں کے سڑک حادثوں میں زخمی ہونے والے زخمیوں کو بلا فرق مذہب و ملت سہارا دے کر ان کی حتی الامکان تعاون کیا کرتے ہیں۔ اور خون عطیہ کیمپ کے انعقاد کے ذریعہ ،انسانیت اور ہمدردی کی کھلی مثال بننے والے نوجوانوں اور اسپورٹ سنٹر کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ آج میں نے ایک اور قومی یکجہتی کی زندہ مثال آپ لوگوں کے سامنے رکھنے جارہا ہوں،کچھ ہی دن گذرے ہیں کہ ملک بھر میں گنیش تہوار بڑے جوش و خروش سے جہاں ہمارے ہندو بھائیوں نے منایا وہیں بھٹکل شہر میں بھی یہ تہوار ہمارے ہندو بھائیوں نے بڑے پیمانے پر منایا۔ لیکن گنیش ہبا کے آخری ایام میں جب یہ لوگ اپنی مذہبی رسومات کے تحت گنیش کو پانی کے حوالے کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ یہ خبر ملی کے شہر کے چوتھنی علاقے میں جب ایک گنیش کو پانی کے حوالے کیاجارہا تھا تو اس مذہبی رسم کے دوران ایک نوجوان بنام بھرت منجیا نائک (23)پانی میں غرقآب ہوگیا۔ تہوار کی خوشی پل بھر میں غم میں بدل گئی تھی ، مگر یہ سار امنظر دیکھنے کے لیے تین سو کے قریب ہمارے ہندو بھائی جمع تھے، مگر کسی نے ہمت نہیں کی کہ اس ڈوبتے لاش کو کوئی سہارا دے اور اس کو خشکی پرلے آئے۔ اس موقع پر جن نوجوانوں نے ساتھ دیا وہ ہمارے نوجوان تھے جن کا تعلق شہر کی دومشہور ٹیمیں لائن اسپورٹس سنٹر اوراسداللہ سے ہے ۔ جب بھرت ڈوب چکاتھا تو صلاح سلامتی نامی نوجوان یہ منظر دیکھ رہا تھا، اور اس بات پر بھی افسوس کررہا تھا کہ قریب تین سو کے مجمع میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جواس لاش کو باہر لانے کی ہمت کرسکے، تو اس نوجوان نے فوری اپنے دوستوں سے فون پر رابطہ کیا اور دوستوں کے ساتھ ندی میں چھلانگ مار کر بھرت کی لاش باہر لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کارروائی میں اس کا ساتھ دینے والے نوجوان،زید قاضیا،صلاح سلامتی،عکرمہ موٹیا،معوذ کھروری ،ضیا گتی گاروغیرہ تھے۔ نوجوانوں کی اس کاوش کو دیکھ کر جہاں یہاں موجود مجمع داد دئے بنا نہ رہ سکا وہیں ،بلا فرق قوم ومذہب تعاون کے اس جذبے 
کو دیکھ کر تعریف کئے بنا بھی نہ رہ سکے، پولس افسران جو اس وقت یہاں موجود تھے ،انہوں نے بھی نوجوانوں کی پیٹ تھپتپائی اورپھر تہوار کے آخری دن جس دن شہر کی سب سے بڑی مورتی کو پانی کے حوالے کرنے کا دن تھا توپولس نے ان نوجوانوں کو اپنے سیکوریٹی گاڑی’’ وجرا سوار ی‘‘ میں شامل کرکے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے اپنے ساتھ کر لیا اورپھرچوتھنی کے پل پر تمام نوجوانوں کو کھڑا کیا تاکہ ہنگامی حالات سے نمٹ سکے،اور ڈوبتوں کو بچاسکے۔
دراصل مذہب اسلام اور مسلمان اسی کا نام ہے ، اسلام ہمیشہ سے انسانیت کا درس دیتے ہوئے آیا ہے ، انسانیت میں ،مذہب و ملت ، رنگ و نسب نہیں دیکھا جاتا، یہاں صرف پیار و محبت ،آپسی بھائی چارگی کے پھول بانٹے جاتے ہیں، سلامتی کی دہائی دی جاتی ہے ،مگر افسوس ہے میڈیا پر کہ وہ یہاں کی اچھائیاں دنیا کہ سامنے رکھنے کے بجائے ہر بار اس بات کی کوشش میں رہتا ہے کہ کس طرح اس شہر کو بدنام کیا جائے ۔ 
بحرکیف! فکروخبر ادارہ ان نوجوانوں کی کوششوں کو اور ان کے جذبات کو سلام کرتا ہے ، اور اُمید ظاہرکرتا ہے کہ اس طرح قومی یکجہتی کے کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے نوجوان اسی طرح آگے بڑھتے رہیں گے تاکہ قوم وملت کا نام روشن رہ سکے اورقومی یکجہتی کے لیے شہر بھٹکل ایک مثال ثابت ہوسکے۔ 
ان نوجوانوں کے جذبات کا تقاضہ تھا کہ فوری اس کو تحریر میں لایا جائے مگر اداراتی مصروفیات نے وقت کا دائرہ اتنا تنگ کررکھا ہے کہ احساسات کو زبان دینے کے لیے بمشکل وقت نکل پاتا ہے۔ اخیر میں قومی و ملی اداروں سے درخواست ہے کہ ہم لوگ جہاں تعلیمی ،و دیگر میدانوں میں نوجوانوں کی ہمت افزائی کے لئے ، ایوارڈ،انعامات و دیگر چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں وہیں اس طرح کے سماجی، وفلاحی اور قومی یکجہتی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے نوجوانو ں کی بھی ہمت افزائی کی جائے تاکہ دوسروں کے لیے مشعل راہ ہو۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا