English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستانی مسلمانوں کا وجود مدارس اسلامیہ سے وابستہ: غیاث احمد رشادی 

share with us

29اپریل2023۰فکروخبر/پریس ریلیز) یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کا حقیقی وجود یہاں کے دینی مدارس و مکاتب سے وابستہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس ملک کے مسلمانوں کے تشخص کو مدارس اسلامیہ کے بغیر سمجھنا چاہے گا تو یوں تصور کیا جائے گا کہ یہ اس شخص کی خام خیالی ہے۔ ہمارے اکابر نے یوں ہی ان مدارس کو اسلامی قلعوں کا درجہ نہیں دیا ہے بلکہ پورے احساس و شعور اور دور بینی و باریک بینی کے بعد یہ احساس اور فیصلہ پیش کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی صدر منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب تک اس ملک میں یہ دینی مدارس و مکاتب (چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، ذکور کے ہوں یا اناث کے، ہمہ وقتی ہوں یا جز وقتی، اقامتی ہوں یا غیر اقامتی) زندہ و تابندہ ہیں۔ مولانا نے کہا کہ اس وقت تک یہاں کے مسلمان اپنے دین و ایمان اور اسلامی حمیت کے ساتھ اور اپنے ضمیر کے ساتھ زندہ ہیں اس وقت تک یہاں کے مسلمان اپنے دین و ایمان اور اسلامی حمیت کے ساتھ اور اپنے ضمیر کے ساتھ زندہ ہیں۔ اس لیے مسلمان اپنے اپنے علاقوں کے مدارس و مکاتب سے وابستہ ہوجائیں اور ان کے استحکام و ترقی کے لیے جو کچھ قربانیاں دے سکتے ہوں دیں۔ مولانا نے کہا کہ اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جس کو عالم اسلام کی عظیم المرتبت شخصیت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے بیان کیا تھا کہ’’میں مدرسہ کو نائبین رسول وخلافت ِ الہی کافرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد تیار کرنے والوں کا ایک مرکز سمجھتا ہوں، میں مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں۔ جب دنیا میں ہر حقیقت کا انکا رکیا جارہا ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ سوائے طاقت کے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں، جب دنیا میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا جارہا ہو کہ دنیا میں صر ف ایک حقیقت زندہ ہے اور سب حقیقتیں مرچکیں، اخلاقیات مرچکے، صداقت مرچکی، عزت مرچکی، غیرت مرچکی، شرافت مرچکی، خودداری مرچکی، انسانیت مرچکی، صرف ایک حقیقت باقی ہے اور وہ نفع اٹھاناہے اور اپنا کام نکالنا ہے۔ وہ ہر قیمت پر عزت بیچ کر، شرافت بیچ کر، ضمیر بیچ کر، اصول بیچ کر، خودداری بیچ کر صرف چڑھتے سورج کا پجاری بننا ہے، اس وقت مدرسہ اٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ انسانیت مری نہیں ہے، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ نقصان میں نفع ہے، ہارجانے میں جیت ہے،بھوک میں وہ لذت ہے جو کھانے میں نہیں، اس وقت مدرسہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ذلت بعض مرتبہ وہ عزت ہے جو بڑی سے بڑی عزت میں نہیں، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت خدا کی طاقت ہے، سب سے بڑی صداقت حق کی صداقت ہے۔‘‘مولانا نے کہا کہ اس حقیقت کو آب زر سے لکھ دیا جائے تب بھی کم ہے۔ مولانا نے کہا کہ ملک کے نازک حالات کے دوران دینی مدارس کا وجود ایک نعمت ہے امت مسلمہ کو اس نعمت کی قدردانی کرنی چاہیے۔ نیز فتنوں کے اس دور میں جہاں ایمان پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں وہیں یہ مدارس ہیں جو ایمان کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کوشاں نظر آتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ مدارس ہی وہ ذریعہ ہیں جس سے اگلی نسلوں کے دین و ایمان کا تحفظ ممکن ہے۔ مولانا نے کہا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر وہ طلبہ و اولیاء طلبہ قابل مبارکباد ہیں جو مدارس کا رخ کررہے ہیں اور ماں باپ اپنے بچوں کے فراق پر صبر کررہے ہیں اور دعاوں کے ساتھ مدارس کی جانب رخصت کررہے ہیں اور لایا ستارے ہیں وہ طلباء جو حصول علم کے لیے اپنے ماں باپ کو الوداع کہتے ہوئے جارہے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا