English   /   Kannada   /   Nawayathi

شوانندا کا انتخابات سے منھ موڑ لینا...

share with us

کل اچانک اپنا فیصلہ بدلتے ہوئے آنا فاناً میں پرچہ نامزدگی واپس لے کر اُتر کنڑاضلع حلقہ کے تمام جے ڈی ایس پارٹی کے حامیوں کو نااُمید کردیا ہے۔جس کی وجہ سے سرسی ، کاروار وغیرہ میں ان کے اس فیصلے کے بعد جے ڈی ایس کے حامیوں نے شوانندا کا پتلا نذر آتش کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کی پرچہ نامزدگی سے کس پارٹی کو زیادہ فائدہ ہوگا یہ دوسری بات ہے ۔مگر انہوں نے واپسی کی ٹکٹ کیوں کاٹی اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ 
بتایا جارہا ہے کہ شوانندا نائک کو جے ڈی ایس میں شامل ہونے کا مشورہ سب سے پہلے دینے والے ضلع کانگریس کے صدر بھیمنا نائک ہیں، یعنی کہ گذشتہ اسمبلی انتخابات سے پہلے ہی شوانندا نائک کو کانگریس میں لانے کی کوششیں جاری تھی، اس سلسلہ میں ہلیال میں دیش پانڈے کے ساتھ ایک میٹنگ منعقدہونے کے باوجود کانگریس میں شامل ہونے کی بات پوری نہیں ہوپائی ۔ بالآخر مدھو بنگارپا کے توسط سے اور بھیمنا نائک کے مدد سے شوانندا نائک کو جے ڈی ایس پارٹی میں شمولیت کے مواقع فراہم ہوئے۔ اس موقع پر نامدھاری طبقے کے ووٹوں سے جے ڈی ایس کو تقویت دئے جانے کی بات ہوئی تھی، اور لازم ہے کہ کسی پارٹی میں شمولیت کا مطلب پارٹی ایک جانب اپنا فائدہ دیکھتی ہے تو دوسری جانب شامل ہونے والا لیڈر بھی اپنا اُلو ٹھیک کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ بتایاجارہا ہے بھیمنا نائک نے کچھ دن قبل اپنے طبقے کے کئی لیڈران کو بلا کر یہ کانا پھوسی کی تھی کہ شوانندا نائک کو پارٹی فنڈ پہنچنے میں دیر ہورہی ہے ممکن ہے نہ پہنچ پائے ایسے حالات میں شونندا کی انتخابات کے سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، ایسے حالات میں ان کی حمایت کرکے بی جے پی کو جتانے کے بجائے لازم ہے کہ کانگریس کا دامن تھام لے۔ 
شیموگہ اور اُترکنڑا حلقہ کے اُمیدوار نامزدگی اور انتخابی اخراجات وغیرہ کی ذمہ داری مدھو بنگارپا کے ذمہ دی گئی تھی، مگر گذشتہ پندرہ دنوں سے کمار سوامی، اور مدھو بنگارپا وغیرہ فون کا جواب نہیں دے رہے تھے، دیوے گوڈاتو دیوے گوڈا ہیں، اس وجہ سے بھی شوانندا دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ 
کاروار کے ایک مشہور کنڑا اخبار کے تبصرے کے مطابق ہلیال کے ایک میٹنگ میں سابق رکن اسمبلی سنیل ہیگڈے نے شوانندا نائک کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پارٹی فنڈ آتاہے تو ٹھیک نہیں تو واپسی کاراستہ بہتر ہے کیوں کہ گوڈاخاندان کی حقیقت کیا ہے یہ میں بہتر جانتا ہوں۔
اس کے علاوہ پارٹی کے کئی لیڈران کی جانب سے نہ ملنے والا تعاون اور پھر ایک دوسرے سے کھینچاتانی بھی اس کی اصل وجہ بتائی جارہی ہے، دنا کر شیٹی اپنی بیٹی کی شادی کا بہانہ بناکر انتخابی مہم سے دور سرک رہے تھے تو سنیل ہیگڈے اندر ہی اندر غلط پرچار کررہے تھے ۔
بعض جے ڈی ایس کے اراکین کھلم کھلا مودی کا نام لے کر بی جے پی میں شمولیت کرلیا تھا، سوائے اکا دکا کہ سب مطلب کے لئے شوانندا نائک سے جڑے تھے، ایک طرف پارٹی کی سردمہری اور دوسری جانب حلقہ کے اراکین و لیڈران کی سستی کی وجہ سے شاید شوانندا نے ٹکٹ واپس لینا ہی بہتر سمجھا ہو۔
یہ وجوہات وہ ہیں جو عام طورپر ایک اُمیدوار کے ٹکٹ واپس لئے جانے پر گمان کیاجاسکتا ہے ، مگر فرقہ واریت کا ذہن رکھنے والے طبقوں کی حسد اور تعصب بھی بعض دفعہ گھٹیا سیاسی چال رچ جاتے ہیں، جیسے کہ شوانندا نائک کے پرچہ نامزدگی واپس لینے کے بعد عوامی سطح پر جو باتیں گشت کررہی ہیں وہ یہ ہے کہ شوانندا نے یاتو بی جے پی سے ساز باز کرلی ہے یا پھر کانگریس سے۔اور یہ ممکن ہے، کیوں کہ شوانندا نائک تو بی جے پی کے جانے پہچانے چہرے تھے، اور پھر ریاست کے بی جے پی پارٹی میں اُتھل پتھل ہونے کے بعد بی جے پی چھوڑ کر کے جی پی اور جب یہ پارٹی بھی ڈوب گئی تو جے ڈی ایس کا سہارلیا۔ کانگریس سے بدلہ لینے کے لیے کیا شوانندا نے ایسے موقع پر ٹکٹ واپس لیا کہ وہاں دوسرے کسی شخص کو نامزدگی کا موقع تک نہیں اور پھر نامدھاری طبقہ جو ہمیشہ سے بی جے پی کو ووٹ ڈالتا ہوا آیاہے کیا کانگریس کو ووٹ کرپائے گا۔ یا پھر اقلیتوں کے ووٹ کو بانٹ کر بی جے پی کے لیے جیت کی راہیں ہموار کریں گے۔؟ اگر شوانندا نائک کو پارٹی فنڈنہیں آرہا تھا تو شوانندا نائک کو ایک دن پہلے ہی پرچہ نامزدگی واپس لینی چاہئے تھی تاکہ پارٹی کی نمائندگی کوئی اور کرسکے ، مگر آخری دن شوانندا نائک کا پرچۂ نامزدگی لینا بھی کسی گھٹیا سیاسی چال کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ شوانندا نائک کس کے اشارے پر یہ فیصلہ لیا یہ فی الحال نہیں کہاجاسکتا ، آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کونسی سیاسی چال رچی گئی تھی...

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا