English   /   Kannada   /   Nawayathi

مہاراشٹر میں مسلم آرکشن اور بمبئی ہائیکورٹ کا فیصلہ

share with us

اس آرڈیننس کو بلاشبہ ایکٹ کا درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہوتی ہیکہ نئی اسمبلی کے وجود کے بعد ۶ ہفتوں کے اندر اس آرڈیننس کو ایکٹ میں ہاؤس تبدیل کر لے یا اس دوران اس آرڈیننس کو اگر ہاؤس میں نامنظور کیا گیا تو کسی بھی وقت آرڈیننس ختم ہو سکتا ہے یا پھر گورنر چاہے تو اسے اس دوران ختم کر سکتا ہے ۔
کیتن تروڑکر اور چند دیگر پٹیشنر نے بمبئی ہائیکورٹ میں ان آرڈیننس کے خلاف اسٹے ایپلیکیشن کے ساتھ ایک پٹیشن داخل کی جس میں ان آرڈیننس کو غیر آئینی اور الیکشن میں ناجائز طریقے سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے ان آرڈیننس کو جاری کیا گیا تھا ، ساتھ ہی مراٹھا سماج کے 75%شکر کارخانے اور تعلیمی ادارے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں اس سماج کے لوگوں کی سیاسی اور مالی حالت پچھڑی ہوئی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ مدوں کے بل بوطے پر پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔ اس پٹیشن پر ستمبر مہینے میں ۳ دن ہائیکورٹ میں سنوائی چلی اور ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۴ ؁.ء کو اسٹے ایپلیکیشن پر آرڈر کیلئے اس معاملہ کو رکھا گیاتھا۔ لیکن اچانک مورخہ ۱۴؍ نومبر ۲۰۱۴ ؁.ء کو کورٹ نے متذکرہ اسٹے ایپلیکیشن پر زبانی آرڈر کے ذریعے مراٹھا آرکشن پر مکمل طور سے انٹیریم اسٹے لگا دیا اور ساتھ ہی مسلم آرکشن میں سے نوکری کے تعلق سے سہولت پر بھی اسٹے لگایا گیا البتہ تعلیمی سہولت کو برقرار رکھا گیاہے ۔ چونکہ تادم تحریر ، کسی قسم کا تحریری فیصلہ ہمارے سامنے موجود نہیں اسلئے اس کی زیادہ تفصیل دینا مناسب نہ ہوگا ۔ لیکن یہ ضروری ہیکہ مسلم آرکشن کیوں ضروری ہے اور ضروری تھا اس بات کا علم ہمیں ہو جائے لہٰذا تفصیلات حاظر ہے ۔ 
جیسا کہ آرڈیننس کی شروعات میں ہی مسلم آرکشن کے تعلق سے یہ بات عیاں کر دی گئی تھی کہ راجے شری شاہو مہاراج نے ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۲ ؁.ء اور ۲؍ اگست ۱۹۰۲ ؁.ء میں ۲ نوٹیفکیشن جاری کئے تھے جس میں سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی بات کہی گئی تھی اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے اسی بات سے متاثر ہو کر آئین ہند میں ریزرویشن کے معاملہ کو شامل کیا تھا ۔ بعدازیں بمبئی گورنمینٹ نے ۲۳؍ اپریل ۱۹۴۲ ؁.ء کو 228 پسماندہ ذاتیں ڈیکلےئر کی تھی جن میں مسلمانوں کا بھی شمار تھا ۔ حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کرتے وقت سچر کمیٹی اور ڈاکٹر محمودالرحمن کمیٹی کی سفارشات کو بھی سامنے رکھا تھا اور آئین ہند کے آرٹیکل 15(4/5), 16(4), 30(1) اور 46کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ آرڈیننس پاس کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہیکہ حکومت نے اپنی طرف سے یہی باتیں آرڈیننس میں رکھی ہے لیکن مائناریٹی ویلفےئر آرگنائیزشن دھولے جس کا صدر راقم الحروف ہے ان کی اور حکومت کی طرف سے کورٹ میں گہری تحقیق کے ذریعے چند معاملے رکھے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 
ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے متعداد فیصلہ جات میں اس بات کی نشاندہی کی ہیکہ ضرورت کے مطابق آئین ہند کے دائرہ میں رہتے ہوئے 50% سے زیادہ ریزرویشن بھی رکھا جا سکتا ہے جس کی مثال تامل ناڈو کی ہے جہاں پر 73% ریزرویشن رکھا گیا ہے ۔ بالخصوص تعلیمی ، اقتصاری اور سماجی اعتبار سے پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن اشد ضروری ہے۔ جہاں تک مسلم آرکشن کا سوال ہے اس کیلئے تو اس کے حق میں حکومت ہند نے قائم کئے گئے بہت سارے کمیشن ، کمیٹی اور پلاننگ کمیشن کی رپورٹس اور سفارشات ساتھ ہی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلہ جات کو اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہیکہ مسلم آرکشن وقت کی ضرورت ہے اور تھی۔ اتنا ہی نہیں اگر آئین ہند کے آرٹیکل 38(2) اور 46 کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو مسلم طبقہ ریزرویشن کا مستحق ہے ۔ آئیے آئین ہند کے آرٹیکل 38(2) کا جائزہ لے ۔ 
آئیے ، اب یکے بعد دیگر متذکرہ دونوں آرٹیکل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں 38(2): The State shall, in particular, strive to minimise the inequalities in income, and endeavour to eliminate inequalities in status, facilities and opportunities, not only amongst individuals but also amongst groups of people residing in different areas or engaged in different vocations. حکومت کو چاہئے کہ بالخصوص آمدنی کے تعلق سے جو غیریکسانیت ہے ، اسے کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ہی سماجی درجہ ، سہولیات اور مواقع کے تعلق سے جو غیریکسانیت ہے ، اسے ختم کرنے کی کوشش منفرد علاقوں میں رہنے والے یا منفرد پیشے سے جڑے طبقات تک ہو۔ اس آرٹیکل کی روشنی میں بیشک شیڈولڈ کاشٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے تعلق سے جو غیر یکسانیت تھی اسے کم کرنے کیلئے حکومت نے یہ موثر قدم اٹھایا ہے ۔ البتہ یہی معاملہ ملک میں بسنے والی سب سے بڑی مسلم اقلیت کے تعلق سے بھی تو صادق آتا ہے ۔
اب اس ضمن میں آئین ہند کے آرٹیکل 46 کی طرف بڑھتے ہیں Promotion of educational and economic interests of Scheduled Castes, Scheduled Tribes and other weaker sections. - The State shall promote with special care the educational and economic interests of the weaker sections of the people, and in particular, of the Scheduled Castes and the Scheduled Tribes, and...۔ پتہ یہ چلتا ہیکہ ایس سی ایس ٹی کے علاوہ ملک کے کمزور طبقہ کی تعلیمی اور اقتصادی معاملات کو بھی حکومت نے فروغ دینے کے تعلق سے خصوصی توجہ دینا چاہئے۔ جہاں تک Weaker Section کی اصطلاح کا تعلق ہے اس تعلق سے آئین ہند کے آرٹیکل 366 میں کہیں بھی اس اصطلاح کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ اس فکر کو لیکر ، فاضل سپریم کورٹ نے کہا ہیکہ ، اس اصطلاح کے تعلق سے آئین ہند میں کوئی بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ اس تعلق سے مناسب ہدایات تیار کی جاسکتی تھی لیکن اس کی طرف کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی۔ شانتی اسٹار بلڈرس بالمقابلہ نارائن 1990(1)SCC550 ۔ ایک دیگر معاملہ میں فاضل سپریم کورٹ نے اظہار خیال کیا ہیکہ Weaker Section یعنی ہر پسماندہ ذات نہیں بلکہ اقتصادی اور تعلیمی معاملہ میں شیڈولڈ کاشٹ اور شیڈولٹ ٹرائب کے متوازی وہ طبقہ ہے جو اندوناک حد تک محرومیت (یاسیت) Dismally Depressed کا شکارہو ۔ (اسٹیٹ آف کیرالا بالمقابلہ این ایم تھامس (1976)(2)SCC310 ) ۔ لہٰذا ، ایس سی ایس ٹی اسکالرشپ نافذ کی گئی ہے ۔ پھر اس آرٹیکل کے تحت Weaker Section کے زمرہ میں جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے تحت مسلمان پسماندہ ہے انھیں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل کمیشن فار ریلیجئس اینڈ لنگوسٹک مائناریٹیس ۲۰۰۷ ؁.ء جسے جسٹس رنگ ناتھ مشرا کمیشن بھی کہا جا تا ہے ، سچر کمیٹی ۲۰۰۶ ؁.ء ، نیشنل پالیسی آن ایجوکیشن ۱۹۸۶ ؁.ء ، نیشنل پالیسی آن ایجوکیشن ۱۹۸۶ ؁.ء پروگرام آف ایکشن ۱۹۹۲ ؁.ء ، رپورٹ آف د اسٹیرنگ کمیٹی آن ایمپاورنمینٹ آف مائناریٹیس ، ۱۱واں پنچ سالہ منصوبہ ، ۱۲واں پنچ سالہ منصوبہ ، یو جی سی اپروچ پیپر ۱۲ پنچ سالہ منصوبہ اور رپورٹ آف د اسٹینڈنگ کمیٹی آف نیشنل مونیٹرنگ کمیٹی فار مائناریٹیس ایجوکیشن ۲۰۱۳ ؁.ء ان تمام دستاویزات کے ہزاروں صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہیکہ مسلم ریزرویشن وقت کی ضرورت ہے اور تھی ۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ جات شانتی اسٹار بلڈرس بالمقابلہ نارائن کے ٹی اے آئے آر ۱۹۹۰ ؁.ء ایس سی ۶۳۰ اور اسٹیٹ آف کیرلا بالمقابلہ این ایم تھامس ۱۹۷۵ ؁.ء ۔ ان تمام رپورٹس ، سفارشات اور فیصلہ جات کے ہزاروں صفحات کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو بمبئی ہائیکورٹ نے جو تعلیم کے تعلق سے مسلم آرکشن کو برقرار رکھا ہے وہ ضروری تھا۔ 
لیکن اب ایک اور معاملہ رہ جاتا ہے نوکری کے تعلق سے مسلم آرکشن پر اسٹے لگ چکا ہے اسے سپریم کورٹ میں ویکیٹ کرنے کیلئے ہم اور آپ کو جنگی پیمانے پر لڑائی لڑنا ہوگی۔ حالانکہ متذکرہ کمیشن ، کمیٹی اور کورٹ کے رپورٹ ، سفارشات اور فیصلہ جات عیاں طور سے ظاہر کرتے ہیں کہ نوکری کے ضمن میں بھی مسلمانوں کو ریزرویشن کی سخت ضرورت ہے۔ خاص بات یہ ہیکہ متذکرہ تمام دستاویزات کوئی خانگی دستاویز نہیں ہے بلکہ ان پر حکومت اور کورٹ کی مہر لگ چکی ہے۔ بات صرف یہ ہیکہ متذکرہ دستاویزات کو اور گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملہ میں اسٹیٹ آف مدراس سپریم کورٹ ۱۹۵۱ ؁.ء ، بالاجی ۱۹۶۳ ؁.ء سپریم کورٹ ، جنرل مینیجر ریلوے ۱۹۶۲ ؁.ء ، اکھل بھارتیہ سوشت کرمچاری سنگھ سپریم کورٹ ۱۹۸۱ ؁.ء ، یونین آف انڈیا ورسیس ورپال سنگھ ۱۹۹۶ ؁.ء، اجیت سنگھ جنوجا بالمقابلہ اسٹیٹ آف پنجاب سپریم کورٹ، ایس ونود کمار ۱۹۹۶ ؁.ء سپریم کورٹ، سورج بھان مینا ۲۰۰۷ ؁.ء سپریم کورٹ، بالا کرشنا ، یو او آئے بالمقابلہ ایس کالوگا سلامرتی ، انّی کرشنن وغیرہ وغیرہ فیصلہ جات کا بھی ضروری ہے یہ بات سہی ہیکہ سپریم کورٹ میں جو وکیل ہماری دفع کریگا اسے ان تمام چیزوں کو کورٹ کے سامنے رکھنا ہو گی لیکن کیا ہی بہتر ہو گا کہ ہم میں سے قانونی طور سے بیدار لوگ بھی اپنی طور سے ان تمام دستاویزات کا مطالعہ کرے جو یقیناًہمارے اپنے وکیل کیلئے معاون ثابت ہو گا اور انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب نوکری کے تعلق سے مسلم آرکشن اسٹے بھی ہٹ جائیگا۔ آمین۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا