English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولاناسید محمود حسنی ندوی ؒ  کو اللہ نے سراپا خضوع وخشوع والا قلب سلیم بخشاتھا:مولاناسیدمسعود حسنی ندوی         

share with us

:11ستمبر 2022(فکروخبرنیوز/ذرائع)گولڈن فیوچر ایجوکیشن اینڈ ویلفئرسوسائٹی کے زیر اہتمام مدرسہ ریاض الجنۃ(برولیا، ڈالی گنج) میں بعنوان ”مولانا سید محمود حسنی ندوی ؒ حیات وخدمات کے آئینے میں“ منعقد جلسہ کا آغازمحمدانس کی تلاوت کلام پا ک سے ہوا۔
      مرحوم کے چھوٹے بھائی مولاناسیدمسعود حسنی ندوی  (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے اپنے برادرمحترمؒ کی ذاتی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے، اورکہاکہ ان کی پوری زندگی تقشف وزہد سے عبارت تھی وہ نورانی نفوس کی صحبتوں سے فیض یافتہ تھے،تصنیف وتالیف ان کا میدان تھا،بزرگوں کی سوانح حیا ت کو اپنی تصنیفی میدان کامحور بنایا،خاندان حسنی کا شجرہ اور بزرگان دین کے ملفوظات ان کو ازبر تھے،وہ مرشدالامت حضرت مولاناسید محمدرابع حسنی دامت برکاتہم(ناظم ندوۃ العلماء) کے  معتمدترین،سفر وحضراور شب وروز کے راز داروں میں تھے،اور والد محترم کی تمناؤں کو بھی پوراکیا،اپنی پوری زندگی علوم اسلامیہ کے فروغ اور اللہ کی رضاجوئی کے لئے وقف کردی تھی،  یقیناوہ سادگی ودرویشی میں ڈھلے،اور قلندرانہ رنگ وآہنگ میں سجے سجائے تھے، نہ ہی نام ونمود، کی ہوس رہی اور نہ ہی کسی خدمات کا صلہ چاہا، اللہ نے انھیں سراپا خضوع وخشوع والا قلب سلیم بخشاتھا۔
    مولانااصطفاء الحسن ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء)نے مولاناؒ سے اپنے رشتوں و خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان کے سینے میں اسلاف کی پاکیزہ روایات اور عزم وعمل کی امانتیں محفوظ تھیں، وہ خانوادہ حسنی کے شریفانہ وعالمانا، اور علمی وفکری روایتوں کے محافظ تھے، حافظہ قوی اور مطالعہ بہت وسیع  تھا،  سینکڑوں صفحات پر مشتمل درجنوں کتابیں اورلوح وقلم کی قیمتی جاگیریں چھوڑ گئے۔
    مولاناطہ اطہر ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے کہا مولاناؒ  ندوی سوچ وفکر کے امین، تبسم آمیز لب ولہجہ، سا دگی وتواضع کی مثال، اورنسل نوکے لئے ایک آئیڈیل تھے، ان کو اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ کرام سے حد درجہ محبت وعقیدت تھی،کسی بھی صحابہ کی شان میں گستاخی کو وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔
    مولاناذکی نور عظیم ندوی نے مولاناسید محمود حسنیؒ کے اوصاف حمیدہ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اندازمیں محبت کا عکس جمیل،خمیر میں انسانیت اورہمدردی تھی، وہ خانوادہ حسنی کا ابھرتاہوا  ایساگلاب تھے جس کاکھلنا ابھی باقی تھا۔
    مولاناڈاکٹر ہارون رشید ندوی نے مولاناؒ کی حیات وخدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانامحمود حسنی ندویؒخدمت خلق کے جذبہ سے سرشار،   اسلامی افکار،اور علوم اسلامیہ کے فروغ میں کافی فکر مندرہتے،کچھ کر ڈالنے کی دھن ہروقت رہتی، اورزندگی کے ہرلمحہ کو امانت خداوندی سمجھتے ہوئے پل پل کو بڑی امانت داری سے استعمال کیا۔
    مولاناجاوید اختر ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) مرحوم کی حیات وخدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ وہ درس وتدریس کے علاوہ پندرہ روزہ تعمیر حیات کے نائب مدیر بھی تھے، تقوی وپرہیز گاری کے ساتھ اکابرین ندوہ کا ذوق ان میں پوری طرح رچابساتھا، طبعیت بنیادی طور پر تصوف کی طرف مائل تھی، اٹھتے بیٹھتے لکھنے پڑھنے کا مزاج  تھا۔
    نظامت کے فرائض انجام دے ر ہے مولانامحمدشمیم ندوی نے مرحوم سے اپنے گہرے تعلق کااظہارکرتے ہو ئے کہ ہر ملاقات پر اپنائیت وحلاوت کے یادگاری تحفے دیئے،’ وہ نمونہ تھے سادگی اور تواضع کا،بے نفسی اور بے نیازی کا،  انکے یہاں علم بھی تھا،اورعمل بھی،ذکر واذکار بھی تھا، اور دعاؤں کا اہتمام بھی، اورایمان واخلاق کی بلندی کے ساتھ نظر آئے۔
        اس موقع پر خاص طور سے مولانامسعود حسنی ندوی،الحاج انجینئرامیتاز احمدصاحب،مولاناہارون رشید ندوی،ابوبکر صدیق ندوی،اصطفاء الحسن  جاوید اخترندوی ،طہٰ اطہر ندوی،سلمان بجنوری ندوی، ندوی،عبدالوکیل ندوی،عمربن عبدالعزیزندوی، ادیب الرحمن ندوی،احمد میاں،حافظ اسلام ندوی،مصبا ح الدین ضیاء الرحمن ندوی،عبدالرحمن،اطیع اللہ ندوی،قاری حسان،حافظ شاداب، حافظ انس،حذیفہ، وغیرہ موجود تھے، مولاناؒ کے لئے ایصال ثواب اور بلندئی درجات کی دعاکی گئی، مولانا سلمان نقوی کی دعاپر جلسہ کا اختتام ہوا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا