English   /   Kannada   /   Nawayathi

نئے سال کا کلینڈر: اپریل فول کا   پلندہ  نہیں! عدل وانصاف کاپیکرہو قسط اول

share with us
new year

    از:ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

             صحت اور فراغ (وقت) خدا کی ہزارہانعمتوں میں سے دو بہت بڑی نعمت ہیں،سال، مہینہ اور دن ورات اسی وقت کے مجموعے کاالگ الگ نام ہے،وقت کی قدر کرکے ادنی آدمی اورایک محنتی طالب علم وقت کا بہت بڑاانسان اور انقلاب آمیز شخصیت بھی بن سکتاہے ورنہ اسکے ضیاع اور اپنے برے اعمال وکرتوت کی وجہ سے دنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، دنیامیں بدنامی کا ٹیکہ اورقیامت کے دن مجرموں کی صف میں کھڑا بھی ہوسکتاہے، سورہ یسن میں اللہ کا کھلا فرمان ہے، جسکی تلاوت ہم روزآنہ  کرتے ہیں:”وامتازوالیوم أیھاالمجرمون،ألم أعھد إلیکم یابنی آدم أن لاتعبدواالشیطان،إنہ لکم عدو مبین، وأن اعبدونی ھذاصراط مستقیم، ولقد أضل منکم جبلا کثیرا، أفلم تکونوا تعقلون“، جس کالب لباب اور ماحصل یہ ہے کہ کل قیامت کے دن اچھے مسلمانوں، دنیا کے مجرمین اور شرپسندوں کے درمیان نمایاں فرق کردیا جائے گا، آدم کی اولاد سے شیطانوں کی عبادت نہ کرنے کا اللہ نے معاہدہ لیاہے اور بتایا ہے کہ ابلیس تمہارا کھلا دشمن ہے، صرف اللہ کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے، البتہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کررکھاہے،پھر بھی عقلمندوں کو قرآن کی بات سمجھ میں نہیں آتی!آج ہم شیطانوں کی لپیٹ میں رہ کر بھی روشنی اورہدایت کیطرف جانے کے بجائے اندھیروں میں بھٹکتے جارہے ہیں،حتی کہ مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک اور ٹیپ ٹاپ کے چکر میں پھنس کر نئے سال، مہینہ اوراسکے ایام کا اسلامی احتساب  کرنے کے بجائے ہم سال نو کے غیر اسلامی استقبال میں اسطرح منہمک ہوجاتے ہیں کہ غلط رسومات اور اچھی چیزوں میں امتیاز بھی نہیں رہ پاتا! اسی طرح ہم مرورایام اور مسائل وفتنوں کے گرداب میں رہنے کے باوجودبھی اپنی حقیقی ذمہ داریوں اور انکے تقاضوں سے ہی غافل اور دور ہوتے جارہے ہیں اور بیکار وفالتو چیزوں میں اپنا قیمتی وقت،صحت اور انرجی صرف کرنے کے بجائے ہم دنیا کے جھمیلوں اور مشغلوں میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں،اپنی اسی بے راہ روی اور کارستانی کے نتیجے ہم دوسروں کو بھی دین سے قربت کے بجائے دوری ومتنفر کا سبب بن رہے ہیں،اسطرح ہم دین کی سچی تصویر پیش کرنے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں، درحقیقت آخرت کے دن میں اسی قیمتی نعمت ودولت کاہم سب سے حساب و کتاب ہوگا، کہاں سے ہم نے دولت کمائی اور کہاں پر ہم نے اسے خرچ کیا، اس دن ہرچیز کاہم سے حساب وکتاب ہوگا،اگرہم نے دنیاکی زندگی اور ایام کوخدا کی بڑی نعمت سمجھ کرایمان ویقین،عدل وانصاف،خیر وبھلائی، عبادت وریاضت اوراخوت ومودت کیساتھ گزاراہوگا تو ہم وہاں بھی سرخرو ہونگے اور یہاں میں بھی عزت وبلندی سے سرفراز ہونگے، اسی لئے دنیاہمارا اصلی گھر نہیں بلکہ ایک امتحان گاہ یا قید خانہ کی مانند ہے اور آخرت ہماری ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے!امتحان گاہ اور قیدخانے کے کچھ ضابطے ہوتے ہیں،جنکے اصول وضوابط کی ہمیں وہاں پابندی کرنی پڑتی ہے، اسی طرح اسلام کے مطابق جینے اوررہنے کے بھی کچھ آداب و اصول ہیں۔ جنکے مطابق ہر مسلمان مردوعورت اور نوجوان بچے اور بچیوں کا چلنا ہر سال،ہرمہینہ بلکہ ہر دن ضروری اورلازمی ہے۔ یہی وقت کااہم تقاضا بھی ہے۔

            مگر افسوس!کتنے سال آتے ہیں گزر جاتے ہیں،اب تو ہمارے اوقات سے بھی برکت اٹھا لی گئی ہے اور ہر طرح کی محرومی کاہمیں شکوہ ہے،مگر اعمال وکردار کی اصلاح کی فکر ندارد!ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ایام، مہینے اور سال لمحوں اور منٹوں میں گزر جارہے ہیں، وقت سے بھی برکت اٹھا لی گئی ہے،پھر بھی ہمیں نعمت کی قدر نہیں!سال نوکی آمد اور خوشیوں کی محفلیں بڑے ذوق وشوق سے منعقد توکرتے ہیں مگراپنی ہی بے ڈھنگی والی زندگی پر ہماری نگاہ نہیں پڑتی! اصلاح کی توفیق حاصل نہیں ہوپاتی!وہ سال ہی سال کیا!جس میں انسان کو سچی ہدایت نصیب نہیں! بیس کی ٹیس،اکیس کی تکلیف اوراسکے تلخ تجربات و مشاہدات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، سال گزرنے کوتو گزر گیا، مگر اسکی تلخ یادیں ہمارے دلوں میں باقی رہ گئیں اور مظلوموں کا زخم مندمل ہونے کے بجائے تروتازہ ہی رہ گیا،اسکی ٹیس مہینہ اور سال کے بدلنے کے باوجودبھی بدستورقائم ہے،وہ سال ہی سال کیا، جس کے ۵۶۳دنوں میں سے کسی گھڑی بھی مظلوموں کے دردکا احساس نہیں ہوا، اسکی ٹیس سے ہم مضطرب وبے قرارنہیں ہوئے،دراصل بدن کاظاہری زخم چند دنوں میں مندمل ہوجاتا ہے اور تھوڑے بہت علاج و معالجے کے بعد انسان مکمل شفا یاب ہوجاتا ہے، مگر دل اورزبان کا زخم،بیجا ظلم و زیادتی، ناحق قتل وخون کا بھیانک منظر، نفرت کا زہر، عداوت کی فضا اور متعدد سیاسی گھاؤسال کے گزرنے اور مہینے کے بدلنے کے باوجودبھی تروتازہ اورہرا بھرا رہتا ہے! وہ شیطان صفت انسان ہی ہوسکتا ہے! جو دوسروں کے درد کو اپنا درد محسوس نا کرے! اسکا فاعل انسانیت کا کھلادشمن ہی ہوسکتا ہے! جواپنے مفادات کی خاطر جھوٹ بات پھیلائے اور اپنی حرص وہوس کو تسلی دینے کیلئے بے گناہوں کا خون بہائے، وہ کرسی کا بھوکا ہی کہلاسکتا ہے!جو دوغلی زبان اور دوہرے معیارسے قوم وملک کودھوکے میں رکھے اور نئے سال کی آمد کی خوشیاں کے نام پر درد کا صحیح مداواپیش کرنے کے بجائے بہکی بہکی باتوں میں لوگوں کوالجھائے رکھے، اسکے فریب میں حقیقی دردکاتذکرمجہول ہوجائے،جواپنے بھائی کے درد کی کوئی پرواہ نہ کرے!نئے سال کے تحفوں کے نام پر قوموں کو طرح طرح سے پھسلائے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے، من کی باتوں سے اپنی ظاہری شکل دکھائے اور پس پردہ اپنے چھپے چہروں سے ہندوستان اور مسلمان پر جبر استبداد کاسیاہ کارنامہ انجام دے، جیسا کہ ہم نے اور آپ نے سن اکیس کے آخری مہینہ دسمبرمیں ھری دواراورچھتیس گڑھ کے دھرم سنسد وں سے سادھوسنتوں کی زبان سے مسلمانوں کیخلاف بلکہ قتل عام کے سلسلے میں تعجب انگیردھمکیاں سنیں!کیاان باتوں سے کوئی عقلمند انسان ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش سمجھے گا یا وطن عزیز سے محبت و اخوت اور جمہوریت کی علامت؟! کیا ان سے ہمارے وطن عزیزاور اسکے آئین کی کھلے عام توہین نہیں ہورہی ہے؟ کیاان باتوں سے صد سالہ گنگا جمنی تہذیب کو دغدارکرنے کی ناپاک کوشش نہیں ہورہی ہے؟ایسے لوگوں پر آخر قانونی شکنجہ کب کسا جائے گا؟ ایسے زر خرید غلاموں سے ہمارا ملک کس سال اور کس مہینہ میں پاک وصاف ہوگا؟ بیس بھی اپنی ٹیس کے ساتھ گزر گیا! اکیس بھی اپنی بے پناہ تکلیف ودرد کیساتھ روانہ ہو گیا!مگر تکلیف ودردمیں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا! اب بائیس کی آمد آمد ہے! مظالم وجرائم سے توبہ واستغفار کا سال آخر کون سا سال ہوگا؟ ہم ملک کے ارباب اقتدار سے نئے سال کی آمد کے موقعے سے یہی پوچھنا چاہتے ہیں؟ کہ قوم وملک کو ناپاک سازش وپروپیگنڈے سے نجات کاتحفہ کب ملے گا؟کب پیاسی انسانیت کی دادرسی کی جائے گی؟ کس سال رواداری اور عدم تشددکے معاہدے کانفاذ عمل میں آئے گا؟ جونفرت و عداوت اورجبر واستبداد کی پلاننگ سے پاک ہوگا؟ ابلیس کی ناپاک حرکتوں پر کس سن سخت سزائیں ملیں گی؟!یاد رکھا جائے کہ اندھیر نگری چوپٹ راج کاسورج عنقریب غروب ہونے والا ہے اور عدل وانصاف کا سورج ملک میں بہت جلد طلوع ہونے والا ہے؟ یوپی اور دیگر صوبوں کے الیکشن میں ایسی فاشسٹ پارٹیوں کا بیڑہ غرق ہونے والا ہے!خدا ہر چیز پر قادر ہے۔وہی عزت بھی دیتا ہے اور وہی ذلت کا بھی مالک ہے (وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر، انک علی کل شئی قدیر)۔

            ملک کی عوام بخوبی پہچان چکی ہے کہ کون دوغلے ہیں!سال نو کے موقعے سے بھی قوم وملک کو اپریل فول والا تحفہ پیش کررہے ہیں؟جوجھوٹ،مذاق اور فریب ودھوکہ کا پلندہ ہے، یہود ونصاری کی انہیں حرکتوں کیوجہ سے وہ قیامت تک کے لئے گمراہ کاٹھپہ لگ گیا، اور ہمارے ملک میں فاشسٹ طاقتوں کی بھی ان سے بڑی مشابہت ہے؟!آکر کب تک وہ اپناخطرناک چہرہ چھپاتے پھریں گے؟کیونکہ سچے اور ہمدرد انساں و حکمراں کی پہچان انکی زبان و فکر سے ہوتی ہے،انکی زبان سے نکلتی ہوئی میٹھی بول اور دل سے ابھرتے ہوئے اچھے جذبات و احساسات سے اچھے انسان کی شناخت ہوتی ہے،زمانہئ جاہلیت کے کسی مشہور شاعر کا بہترین شعر ہے۔لسان الفتی نصف و نصف فؤادہ۔۔۔  ولم یبق الا صورۃ اللحم والدم۔یعنی انسانی شخصیت میں آدھی چیز اسکی زبان ہوتی ہے اور آدھا اسکا دل اور ضمیرہوتا ہے! جس سے وہ نفرت و عداوت کا قانون بنا کر اور اپنی زبان سے گندی باتوں کا اظہار کرکے ملک کے پرامن ماحول کو خراب بھی کرسکتا ہے!جیسا کہ اسوقت ہمارے ملک میں پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے یا اسی زبان سے انسان محبت و الفت، یکجہتی ویگانگت اور اخوت و مودت کی باتیں عام کر کے اپنے دشمن کو دوست بنا سکتا ہے! ایکتا اور اتحادکی باتیں عام کرکے قووم وملک کو سوپر پاور بنا سکتا ہے!جوچیزیں ہمارے ملک سے مفقود ومجہول ہوتی جارہی ہیں،جو بہت افسوس اور فکر کی بات ہے! سال نو کے موقعے سے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوسکتی کہ ہزار برس سے بھی زائد عرصوں سے چلتے آرہے ہندو اور مسلمان ایکتا کوپھر سے زندہ کیاجائے، انکے درمیان پھیلی زہریلی فکر کی نفرت سے ماحول کوسازگار بنایا جائے تاکہ ابلیس بھی اپنی دم دبا کربھاگ جائے! مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی جارہی ہے! اگر حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا جو کہ ملک کے چارستون ہیں اپنی زبان وحرکت اور قول وفعل سے اس ملک کی پرامن فضا اور صدیوں سے قائم بھائی چارگی کو زہر آلود بنانے پرکڑی سزا عائد کردیں تو کس کی مجال ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرے یا انکاقتل وخون کرنے یا افتراق و بگاڑ کی بولیاں بول سکے؟دھرم سنسدوں میں سادھوں سنتوں کی اتنی ہمت کس نے پیدا کی؟جن کی گرفتاری اور رہائی بھی ایک گمراہ کن سیاست بن گئی ہے؟ ماضی کے تلخ تجربات اور مشاہدات کیا ہمارے ملک کے چاروں ستونوں کو نظر نہیں آرہے ہیں؟ کیا معصوموں اور مظلوموں کے خون کے قطرے انہیں نہیں تڑپا رہے ہیں؟؟ مگر افسوس! کہ ملک کو جس تعمیر وترقی کی شدیدضرورت ہے،اس سے منہ موڑ کرہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور تخریبی افکار و خیالات کا بیج بویاجارہا ہے،اپنے منہ، زبان اور دل سے ایک مخصوص طبقے کے خلاف کھلے عام کھلواڑ کیارہا ہے؟ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا ہر جگہ ستیاناس کیا جارہا ہے!

            افسوس کہ یہ دور جس سے ہم اور آپ گزر رہے ہیں اور بالخصوص 2021 کا سال جس کا ابھی ابھی اختتام پذیر ہوا، مگر اس سے بے شمار تلخ تجربات اور تباہ کن مشاہدات جڑگئے ہیں، جن کے بارے میں سوچ کر اور سن کر زندہ دل کانپ جاتا ہے ا ورانسانی ضمیر تڑپ اٹھتا ہے، بھلے انسانوں کی زبان پکار اٹھتی ہے کہ ہمارے ملک میں جبر واستبداد کی حکومت ہے یاقوم و ملک کے دشمنوں کی؟! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم مردہ ضمیر انسانوں اور ظالم حکمرانوں کی بستی میں مقیم ہوگئے ہیں، جہاں نہ انسانیت کی قدر ہے اور نہ اسکی خیرخواہی کی فکر۔۔ بس نئے سال پر یا حسین یا حسین کا نعرہ لگانے والے بن گئے ہیں!ہم اپنی تمام تر ترقیات اور ایجادات کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی دل و زبان اور انسانیت کی خیرخواہی و بھلائی والی زبانوں اور انسانی اوصاف و صفات والی زندگی سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں! جہاں انسانوں کی جان،مال اور عزت بھی محفوظ نہیں ہے، جہاں انسانوں سے بڑھ کر جانوروں کو فضیلت دی جارہی ہے! نعوذ باللہ! جہاں گائے کو ماتا اور معبود سمجھ کر اسکے گوبر کو بدن پر لگانے اور اسکے ناپاک پیشاب کو پینے پر کورونا وبا سے چھٹکارا کا نسخہ بتایاجارہا ہے؟! زمانہ جاہلیت اور ہمارے ڈیجیٹلائٹ دور کی جہالت میں کیا فرق باقی بچ گیاہے؟! بلکہ ہم تو 2021 میں زبان و دل کے اعتبار سے ان جانوروں کے اوصاف وخصائل سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، جوا پنے مالک کی وفاداری میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں؟!اپنے بچوں پر سھوا پیر رکھنے بھی احتیاط برتتے ہیں،مگر یہاں تو گائے کے گوشت کے بہانے اور شک وشبہ کی بنیاد پر کتنے بے قصورلوگوں کو شر پسند عناصر نے جان سے ہی مار دیاہے! ماب لنچنگ اورہجومی حملوں میں کتنے مسلمانوں کو شہید کردیا گیاہے! ملک ہندوستان کے مشہور صوبہ کیرلا میں ایک ہتھنی کی موت کو لے کرہندو مسلم پر کیا کیا سیاسی ڈرامہ ہوا،وہ سب آپ کو معلوم ہے!

یوپی کی یوگی سرکار نے تو ظلم و زیادتی کی انتہا کردی ہے کہ اسکے دور اقتدار میں کتنی بے قصور جانوں کا نقصان ہوا حتی کہ معقول کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پاپندیاں عائد کردی گئیں!لوگ چاہ کر بھی اپنی پسند کی غذا نہیں کھاسکتے! لو جہاد،طلاق، شادی کی عمراور سی اے اے وغیرہ پر مسلم مخالف متنازعہ قانون بنا لیا گیا، جسکی وجہ سے عوام و خواص تا حال اپنی پریشانی وبے چینی اور درد وکرب کا اظہار کر رہے ہیں، اکیس کی ٹیس،اسکی متعدد تباہ کاریاں وکارستانیاں اور سارے زخم ابھی بھی ہمارے دلوں میں تازہ اور ہرے ہیں۔ملک کی معیشت اور تعلیم و تربیت کے نظام کو کس غار میں دھکیل دیا گیا ہے، جسکی تلافی فی الحال ناممکن اور محال بن گئی ہے، کاش 2022 کا نیا سال اور اسکا سورج ہماری سوچ و فکر اور زبان و ادب میں نمایاں تبدیلی کا سال ثابت ہو، زخموں پر مرہم پٹیوں، امراض واسقام سے ہماری مکمل نجات کے دن ثابت ہوں، کاش! نئے سال کی آمد کے موقع پر حکومت اپنی پالیسیوں کو مظالم سے پاک، فتنوں سے صاف اور سازشوں سے دور تیار کرکے ایک ایسا نظام نافذ کرے جو ہم سبھوں بالخصوص ہندومسلم کیلئے امن وسلامتی کا داعی، اتحاد واتفاق کا پیکر، یکجہتی و یگانگت کاجامع،عدل وانصاف اور مودت و اخوت کا پیکر ہو!ہم سب ایکدوسرے کو محبت کی نگاہوں سے دیکھنے والے اور دعائیں دینے والے بن جائیں،نئے سال کا سفر پوری انسانیت کیلئے نئی صبح، نئی امنگوں اورنئے حوصلوں کا حامل ہو،اور ہم اس شعر کو گنگناتے ہوئے ایکدوسرے کو استقبال کرنے والے بنیں اور نئی زندگی کی شروعات کرنے والے بن جائیں۔

تم  سلامت  رہو  ہزار  برس۔۔۔۔ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

مضمون نگار
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں لکچرار ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا