English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہریدوار دھرم سنسد پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریرکے بعد عالمی میڈیا میں ہندوستان کی ہورہی ہے بےعزتی ، الجزیرہ سمیت نیویارک ٹائمز کا سخت تبصرہ ،  حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے کھڑے کیے کئی سوال

share with us

نئی دہلی 26؍دسمبر:(فکروخبرنیوز/اردودنیا.اِن/ایجنسیاں) بین الاقوامی میڈیانے ہریدوار میں متنازعہ اوراشتعال انگیز دھرم سنسد نامی پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے معاملے پر کافی توجہ دی ہے۔اس واقعہ پر پولیس کی کارروائی اور اس پر ہندوستان کی حکمران جماعت کی خاموشی سے متعلق خبریں امریکہ سے خلیجی ممالک کے اخبارات نے اپنے صفحات پر شائع کی ہیں۔

الجزیرہ،نیویارک ٹائمز،حقوق انسانی کی تنظیموں کے حوالے سے بھی لکھاگیاہے کہ انھوں نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے سیاسی لیڈروں کی خاموشی پرسوال اٹھائے ہیں۔بی بی سی نے اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ کس طرح اس واقعہ سے ملک کی شبیہ پر اثر پڑاہے،جہاں وزیراعظم سب کاساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں،وہیں ایسے عوامل،ملکی شبیہ کونقصان پہونچاتے ہیں۔

ہریدوار کی طرح ایک پروگرام 19 دسمبر کو ملک کی راجدھانی دہلی میں ہندو یووا واہنی نامی تنظیم کی جانب سے منعقد کیاگیاجس میں وہاں موجود لوگوں کو ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حلف دلایا گیا تھا۔ہریدوار واقعہ پر

امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے اس واقعے کی خبر دی ہے، جس کا عنوان ہے ’ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل کا مطالبہ، بھارت کے رہنما خاموش‘۔خبر میں لکھا گیا ہے کہ اس ہفتے سیکڑوں دائیں بازو کے ہندو کارکنوں اور سنتوں نے ایک کانفرنس میں ایک آواز میں حلف لیا۔

وہ آئینی طور پر ایک سیکولر ملک کو ہندو قوم میں تبدیل کر دیں گے، چاہے اسے مرنا اور مارا جانا ہی کیوں نہ پڑے۔ہندو مہاسبھا کی رہنما پوجا پانڈے نے کہاہے کہ اگر ہم میں سے 100 لوگ ان 20 لاکھ لوگوں کو مارنے کے لیے تیار ہیں تو ہم جیت جائیں گے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائیں گے۔

ان کا اشارہ مبینہ طورپرملک کے مسلمانوں کی طرف تھا، اس نے کہاہے کہ مارنے اور جیل جانے کے لیے تیاررہو۔ مزید برآں نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے کہ بھارتی پولیس جو انسانی حقوق کے کارکنوں اور مزاح نگاروں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بھی جیل بھیجنے کے لیے تیار ہے، اس معاملے میں کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اخبار نے پولیس کے بعد اپوزیشن سیاست دانوں کی خاموشی پر بھی لکھا ہے کہ اس معاملے میں اپوزیشن کے سیاسی گروپوں کی خاموشی بھی برقرار ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں نے اپنے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

مسٹر مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے کہ اشتعال انگیز تبصرے اس وقت آ رہے ہیں جب مسٹر مودی کی بی جے پی کچھ ریاستی حکومتوں میں برسراقتدار ہے اور اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مسٹر مودی اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست برسوں سے آن لائن تشدد کو فروغ دے رہے ہیں، لیکن حال ہی میں تشدد سڑکوں پر پہنچا ہے۔ مسلمان پھل فروشوں کو سڑکوں پر مارا پیٹا گیا اور ہندو خواتین کو پھنسانے کا الزام لگا کر ان سے ان کی کمائی چھین لی گئی۔

مسلم کارکنوں کو انسداد دہشت گردی قانون کے ذریعے دھمکیاں دی گئی ہیں۔اسی طرح میڈیا گروپ الجزیرہ نے بھی اس واقعے سے متعلق خبریں اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہیں۔

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ کا عنوان دیا ہے‘انڈیا: ہندو کنونشن پر غم و غصہ جس میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا گیا، مسلم مخالف تقریر پر پولیس کی تحقیقات۔ایک طرف جہاں غیر ملکی میڈیا نے اس خبر کو جگہ دی وہیں دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر کئی لوگوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے نیویارک ٹائمز کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت بھر میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات کی ایک زندہ مثال۔ بھارت کے رہنما۔ چپ ہیں۔

واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریذیڈنٹ اسکالر اسکالر حسین ابیش نے ٹویٹ کیاہے کہ مودی کی بنیاد کا اہم حصہ: ایک بھرے آڈیٹوریم میں جہاں دائیں بازوکے ہندو سنتوں نے دوسرے ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے کہا۔ وہ لوگ جن کے مودی کی حکمراں پارٹی سے قریبی تعلقات ہیں اور بہت سے لوگ پارٹی کے ممبر ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا