English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلام کو لگا بندھا نظام نہیں بلکہ مقاصدعزیز ہیں: مولانا سجاد نعمانی

share with us

مولانا: میں پرسوں (جب سے ) آیا ہوں یہاں تو ایک دردناک حادثہ کی خبر ساتھ لے کر آیا ۔ میں اسٹیشن سے اترا بالکل خوش خوش اور سارے استقبال کرنے والے دوستوں کا ہجوم ۔ راستہ میں یہ المناک حادثہ کی خبر ملی یعنی مولاناعبداللہ حسنی کی وفات کی ۔ اس کے باوجود مجھے رہ رہ کے وہ شعر یاد آتا ہے ، زمانہ کے بعد گنگناتا رہتا ہوں ہر وقت ۔
فلما نزلنا منزلاً طلہ الندی ..عنیقا وبستانا من نور حالیا
أجادرنا طیب المکان وحسنہ.. مُنیً فتمینا فکنت الأمانیا
تو میں جب بھٹکل آتا ہوں ہمیشہ (اس مرتبہ میں تین دن رہا )حضرت مولانا کی ذات یاد آتی ہے ، ان کی فکر یاد آتی ہے اور بہت دل خوش ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے منع نہیں کرتے ’’ ہرگز نہ میردآں کہ دل از زندہ شرد کہ عشق ‘‘ ’’وہ نہیں مرتا کبھی جس کا دل عشق سے زندہ ہوجاتا ہے ‘‘ تو بالکل صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کی فکر زندہ ہے ، ان کے ولولے زندہ ہیں اور انشاء اللہ یہ قافلۂ نوبہار آگے بڑھے گا ویسے بھی میری سوچ مثبت ہے ، میں بہت منفی حالات میں بھی کچھ مثبت علامتیں تلاش کرلیتا ہوں اور یہاں تو اللہ کا شکر ہے کہ مثبت علامتیں ہی زیادہ موجود ہیں ، تلاش کرنے کے لئے زیادہ کھدائی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور بہت قدر کی بات ہے کہ خود فکروخبر کے ذریعہ جو آپ لوگ خدمات انجام دے رہے ہیں وہ معمولی خدمت نہیں ہے ، اس زمانہ میں بہت بڑا ہتھیار ہے انفارمیشن اور بہت شکست خوردلی کی علامت ہے بے خبری اور پھر آپ نے اسے فکروخبر کا عنوان دیا ہے کہ خبر کے ساتھ کچھ فکر بھی ہے تو ظاہر ہے کہ ترقی پسند ایک مثبت سوچ کے ساتھ اگر ہم فکر دیں تو پھردیکھیں کہ یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ ہمیں کسی بھی حالات میں منفی نفسیات سے اپنے کو بچانا چاہئے ، انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر مثبت سوچ رکھنے والا دنیا میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہے ، دنیا ان کو ستاتی تھی اور وہ ان کے لئے دعا کرتے تھے ، دنیا ان کو ہلاک کرتی تھی او روہ ان کودنیا سے لے کر آخرت تک کامیاب کرنے کی جدوجہد کرتے تھے ، دنیا ان کی دشمن تھی وہ ان کے ساتھ برتاؤ دوستوں سے بھی بہتر کرتے تھے ۔ یہی چیزیں ہیں مثبت سوچ ۔ ہم مسلمانوں کو اس وقت مثبت سوچ کا پیغام ہماری ہر خبر سے ملنا چاہئے ، ہرادارئیے سے ملنا چاہئے ، ہر تبصرے سے ملنا چاہئے ، ہرگفتگوسے ملنا چاہئے ۔ نہ غصہ نہ مایوسی ۔ مسلمان اس وقت دو چیزوں کا شکار ہوتا جارہا تھا ۔ میں جارہاتھا بول رہا ہوں او راللہ کا شکر ہے کہ مجھے ’ہے‘ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے کہ نائن ٹیز ،سکسٹیز ، سوین ٹیز ، ایٹیز اور نائن ٹیز میں مسلمانوں کا دور وہ تھا وہ ایک فیسٹریشن کا تھا ، ایک مایوسی کا تھا ، جھنجھلاہٹ کا تھا ، خوف اور غم کا تھا لیکن اب ہم دیکھ رہے کہ پورے عالم اسلام میں ایک مثبت سوچ کی لہر آئی ہے اوریہ بہت میجر تبدیلی ہے ، بہت صالح تبدیلی ہے اگر حدود کے اندر رہے ، یہ مثبت سوچ گویا مستقل مصالحت تک نہ پہونچادے بلکہ حقیقت پسندانہ رویہ تک پہونچائے اور ہم پریکٹکلی ڈیل کریں کہ بہت پریڈمیٹک کورس کے ساتھ اور بہت ہی حقیقت پسندانہ عملی انداز سے جیسے ترکی خلافت کے خاتمہ کے بعد اگریہ کوشش جاری ہے کہ مصر کا جو حال ہم نے دیکھا کہ مصر میں جو اسلامی تحریک چلی ، ایک زمانہ تک وہ منفی خطوط پر پڑگئی ، ہر وہ شخص کافر ہے جو پارلیمنٹ کا الیکشن لڑے وہ کافر ہے جو سکیولزم ، ڈیموکرسی کو قبول کرلے وہ کافر ہے ، جو پارلیمانی سیاست میں حصہ لے وہ کافر ہے ۔ یہ رجحان تھا ۔خود الاخوان المسلمین کے اندر سے ایسے لوگ پیدا ہوئے ، وہ ایک ابتدائی سطحیت تھی، میں ان کی نیت پر بھی بالکل شک نہیں کرتا لیکن وہ ناتجربہ کاری ہوتی ہے ان نیچوریٹی تھی خود اخوان کی جو سینئر قیادت تھی وہ اس سے خود ناراض اور غیر متفق تھی چنانچہ مرشد عام حسن الحسینی نے جو تاریخ ساز کتاب لکھی ’دعاۃ لاقضاۃ ‘ وہ اسی منفی ذہنیت پر بریک لگانے کے لئے لکھی گئی ہے کہ بھائی ہم جج لوگ نہیں ہے کہ فیصلہ کریں ، ہم قاضی لوگ نہیں ہے کہ کون مسلمان ہے او رکون مسلمان نہیں ہے ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے ، ہم داعی ہیں قاضی نہیں ہے اس کتاب کا تھیم ہی یہ تھا تو سفر ادھر سے گذرا ہے یہی حال لیبیا میں رہا ،تیونس میں رہا ،جزائر میں رہا ، مراکش میں رہا اور اب عالم اسلام ایک نئے انداز سے ڈیل کررہا ہے اور اس میں میجر رول میرے خیال میں ترکی کا ہے ،ترکی کو ایسی قیادت ملی ہے جو زمینی حقائق کو تسلیم کرکے بتدریج انصاف اور امن کے اسلامی اور انسانی مقصد کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اور الفاظ وتعبیرات وہ استعمال کرتے ہیں کہ آج کل لوگوں کی سمجھ میں آئے باعث وحشت نہ بنے اور یہ رجحان امت مسلمہ کے اندر جارہا ہے ۔ یہی فکروخبر کے لئے میرا پیغام ہے کہ اس کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور اس کی تفصیل میں جانے کی کوشش کریں ۔ میں الگ کسی وقت ،میں بھی بالکل تیار ہوں کبھی موقعہ ہوتو میں تفصیل سے سمجھاؤں کہ یہ کیا ہے جو میں نے مختصراً بات کہی ہے ، ورنہ تحریک اسلامی منفی راستہ پر تھی لیکن اب صورتحال بالکل دوسری ہے ، تحریک اسلامی کی قیادت عرب میں ہو کہ عجم میں یہ محسوس کررہی ہے کہ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اور ایمانداری کی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ عقل کے خلاف بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی ہے ۔ میں نے کل یہیں کسی تقریر میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل کے اس نظام کو ٹوٹل لی اگنور نہیں کیا ، نظر انداز نہیں کیا بلکہ آپ نے اسی کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے آگے آگے آہستہ آہستہ قدم اٹھایا اور اسلام تو مقاصد پر زور دیتا ہے ، مسائل کے سلسلہ میں اسلام بہت لچک دار ہے ، بہت لچکدار ہے اگر مقصد عدل کا حاصل ہے اگر واقعی انصاف ہورہا ہے لوگوں کے ساتھ، تو سسٹم اگر کوئی نیا بھی ہو تو اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اتنی فلیکسیبل شریعت ، اتنا لچک دار نظام اور اتنا منجمد مشہور کیا گیا ، اتنا دقیانوسی ، اتنا آرتھوڈوکس ، اتنا ضدی ، اتنا رجیپٹ انگریزی میں جسے کہتے ہیں ، حالانکہ صدیق اکبر کی خلافت کا انداز الگ ، سیدنا عمر کے خلیفہ بننے کا انداز الگ ، حضرت عثمان کے خلیفہ بننے کا انداز الگ ، حضرت علی کے خلیفہ بننے کا انداز الگ ، حضرت معاویہ کے خلیفہ بننے کا انداز الگ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کو مقاصد عزیز ہیں ، اسلام کو کوئی ریچویلس یا کچھ لگا بندھا نظام عزیز نہیں ہے اور ایسے دین میں ہوبھی نہیں سکتا جو قیامت تک کے لئے ہو ، جو یونیورسل ہو ، گلوبل ہو اور اٹرنل ہو یعنی اس کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے تو اس میں تو لچک سب سے زیادہ رہنی چاہئے ، اس وقت ایسے علماء کی ضرورت ہے کہ وہ شریعت وسنت پر سو فیصد عمل کرتے ہوں ، رتی برابر ان کی زندگی میں جھول نہ ہو ، ان کو دیکھ کر سلف کی یاد آئے اور ساتھ ساتھ اتنے لچک دار اور کشادہ دل ہوں ، نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو اور وہ جو ہمارا ندوہ کا ہمیشہ سے سلوگن رہا ہے کہ ’’بین لعومۃ الحریر وصلابۃ الحدید ‘‘کہ فولاد کی طرح سخت اور ریشم کی طرح نرم ‘‘

m sajjad one

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا