English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھٹکل کے مزاج میں زندہ دلی اور فطرت میں سلامتی ہے : مولانا سجاد نعمانی

share with us

مولانا: بھٹکل ہندوستان کے ان چند شہروں میں ہے جو اپنی کچھ امتیازی شان رکھتا ہے ۔ عام طور سے ہندوستان کے شہروں کا جو حال ہے اس میں یہ مسلمان کچھ پسماندہ سے نظر آتے ہیں ، بجھے ہوئے اور کہیں افسردہ اور مایوس ۔ بھٹکل کے مزاج میں زندہ دلی ہے اور فطرت میں اس کے سلامتی ، صفائی ، سلیقہ اور نفاست ہے ، ترقی پسندی ، روشن خیالی اور دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ایک ذوق ہے اور بھٹکل کی بڑی خوش نصیبی ہے کہ اس کا رابطہ ایسی دینی قیادت سے ہوا جس نے اس کے اس فطری ذوق کی آبیاری کی ۔ میری مرادخاص طور پر دینی مدارس کے سلسلہ سے ہے اور اس میں بھی مخصوص طور پر ندوۃ العلماء او راس کے شخصیت مثالیہ اور ولی اللہی ذوق اور ندوی جو فکر ہے اس کی جو شخصیتِ مثالیہ گذری ہے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی اس سے بھٹکل کو قلبی رابطہ ہوا ، گہرا قلبی رابطہ ہوا ۔ یوں تو قدردان بہت ہیں لیکن جو محبت والا رابطہ ہوتا ہے اس سے فیض منتقل ہوتا ہے ’’ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ‘‘۔ میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں جب سے میں نے ندوہ میں پڑھنا شروع کیا او ربھٹکل کے طلباء او راپنے ساتھیوں کو دیکھتا تھا پھر اس کے بعد سے اب تک دنیا بھر کے شہروں میں جانا ہوتا ہے لیکن کچھ امتیاز بھٹکل کو حاصل رہا ہے اور دعا یہ ہے کہ ہماری جو نئی نسل ہے وہ اپنی اس ایڈینٹٹی کو مینٹین کرے ، اپنی انفرادیت کو پہچانیں اورمیں پرامید ہوں اگر کوئی ان سے ٹھیک سے انٹروڈیوس کرائے کہ آپ کے پاس وہ کیا خاص دولت ہے آپ اس کی قدر کریں ۔ زیادہ کچھ لکچر دینے کی مجھے یہاں ضرورت نہیں ہے صرف انسپائر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان کو پتا چلے کہ ان کے پاس کیا ہے؟ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ مستقبل بھی انشاء اللہ تاریک نہیں ہے ۔ روشن ہے ۔ علماء جس طرح یہاں پر کام کررہے ہیں اور ان کے دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتے جارہے ہیں اپنی دینی شناخت کے ساتھ آئسولوشن سے نکل کر وہ گویا کمونیکیشن کی طرف آرہے ہیں خود آپ کا فکروخبر اس کا ایک ثبوت اور مظہر ہے ۔ ہمارے مسئلہ کا حل نہ کنفیوٹریشن ہے اور نہ آئسولوشن (Isolation)ہے ۔ ہمارے مسئلہ کا حل کمیونیکیشن ہے اور کمیونیکیشن کا ذوق اہل بھٹکل کو دن بہ دن ترقی پر لے جارہا ہے اور میں برابر اس کو دیکھ رہا ہوں ۔ اللہ نظر بد سے بچائے (آمین )
 فکروخبر: آپ پورے عالم میں مشہور ہیں ہی اور اگر میں یہ پوچھوں گا کہ آپ اپنے سلسلہ میں بتائے تو خود اپنی زبان سے تعریف کرنے کے لائق ہوگا لیکن اس کے باوجود میں چاہتا ہوں کہ فکروخبر کے قارئین اور ناظرین کو آپ کے سلسلہ میں کچھ تعارف ہو؟
مولانا: میں ہرگز تشریح نہیں کرتا کہ میں دنیا بھر میں مشہور ہوں ۔ دنیا اتنی چھوٹی نہیں ہے جتنی فکروخبر والوں کو نظر آرہی ہے ۔ دنیا بہت بڑی ہے ۔ میں بالکل معمولی سا طالب علم ہوں میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ مواقع تو بہت ملے لیکن میں نے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بہترین گھرانے میں مجھے اللہ نے پیدا کیا ۔ میرے والد ماجدحضرت مولانا منظور نعمانی گذشتہ صدی کے عظیم ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے ۔ کوئی چھوٹی سی چھوٹی لسٹ اگر بنائی جائے۔ عالمی سطح پر فکراسلامی کو کتاب وسنت سے سو فیصد وابستہ رکھتے ہوئے اور عہد جدید کے ذہن کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی کس نے پیش کیا ، کس کی تحریروں میں اتنا رسوخ ہے کہ ایک بھی تعبیر اس کی کتاب وسنت اور سلف کے طرز سے مختلف نہیں ڈھونڈی جاسکتی اور پھر بھی وہ جدید ترین ذہنوں کو مطمئن کرنے والا شخص تھا ، وہ بہت غیر معمولی شخصیت تھی انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا بہت ہے اور اس لئے ان کی شخصیت کے بہت سے کمالات اس دور میں سامنے نہیں آسکے ۔ بہر حال وہ علم کے لحاظ سے ، عمل کے لحاظ سے ،اخلاص کے لحاظ سے ، فراست کے لحاظ سے ، حمیّتِ دینی کے لحاظ سے ، شجاعت کے لحاظ سے ، حق گوئی اور بے باکی کے لحاظ سے ، ذوق دعا او رعبادت کے ساتھ ساتھ ذوقِ دعوت وعزیمت کے لحاظ سے بہت ممتاز شخص تھے اور ہمارے سلف کے نمائندے تھے ، فکرِ ولی اللہی اور مزاج ولی اللہی میں سرتاپا غرق تھے اور وہی قدرِ مشترک تھی مولانا ابوالحسن ندوی اور ان کے درمیان ۔ حالانکہ مولانا ابوالحسن علی ندوی عمر کے لحاظ سے دس سال سے بھی زیادہ چھوٹے تھے لیکن جو منہجی مناسبت اور ذوقی ہمہ آہنگی ان دونوں کے درمیان تھی وہ بہت کم دو ایسے معاصر علماء کے درمیان تلاش کی جاسکتی ہے جن کی اپنی اپنی نشو نما الگ الگ قسم کے ماحول میں ہوئی ہو اور پھر بھی وہ اس طرح الأرواح جنود مجندۃ کی مثال تھے ، وہ دو مل کر ایک بنتے تھے ، ایک سے ملاقات ہوتی تھی تو دوسرے کا تذکرہ لازماً آتا تھا ۔ میں نے تو زندگی کے بیس تیس سال دیکھے ہیں بلکہ اس سے زیادہ شعوری زندگی میں دیکھے ہیں، وہ گویا مکمل ہی نہیں ہوتے تھے ایک دوسرے کے بغیر ۔ میری تعلیم ندوۃ العلماء میں ہوئی ، چند مہینے علی گڑھ میں بھی پڑھا پھر دارالعلوم دیوبند میں پڑھائی کا بہت شرف ملا اس پر مجھے بہت فخر ہے ایک طرف لگتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتا تومیری شخصیت ادھوری رہ جاتی ۔ مولانا علی میاں نے مجھے اصرار کرکے دارالعلوم دیوبند بھیجا تھا اور مجھے فرمایا کہ میں نے ندوہ کی فراغت کے بعد خود مجھے ایک سال دارالعلوم دیوبند میں رہنے کا موقع ملا ، میں جانتا ہوں کہ دیوبند کے ایک سال نے مجھے کیا دیا تھا وہ میری زندگی میں ایک سال دیوبند کا نہ ہوتا تو ابوالحسن ندوی کچھ اور ہوتاخود مولانا علی میاں ندوی نے مجھ سے کئی بار فرمایا اور مجھے اصرار سے دارالعلوم دیوبند بھیجا ، حضرت والد صاحب کو راضی کیا کہ آپ ان کو ایک سال وہاں ضرور بھیجیں پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں میرا داخلہ ہوگیا اور پھر میں مدینہ چلا گیا اور آٹھ سال ساڑھے آٹھ، پاؤنے نو سال مدینہ میں رہا ۔ واپسی کے بعد فوراً ندوہ میں تدریسی خدمات میرے حوالے کی گئیں پھر ۱۹۸۸ ؁ ء تک ایک مدرس کی حیثیت سے میں نے وہاں خدمات انجام دیں ۔ ۸۸ ؁ء میں میں طویل بیماری کا شکار ہوگیا ۔ کئی مہینے میں صاحبِ فراش رہا بلکہ اطباء بھی اور میں بھی بظاہر زندگی سے مایوس ہوچکے تھے لیکن اللہ نے کرم کیا ۔ لیکن جو تدریس سے لمبا انقطاع ہوا تو پھر دوبارہ میں تدریس کی طرف واپس نہیں جاسکا ۔ میری دوسری جو دعوتی ،تبلیغی اسفار بہت بڑھ چکے تھے تو پھر میں انہیں میں منہمک ہوگیا ۔ حضرت مولانا نے فرمایا بھی کہ ہم سب لوگوں کی یہی تاریخ رہی ہے کہ ہم نے کچھ سال پڑھایا پھر اس کے بعد ہم مدرس نہیں رہ سکے تو لگتا ہے تمہاری قسمت میں بھی یہی لکھا ہے۔ پھر الفرقان کی ادارت بھی میرے ذمہ ہے ، چند ادارے بھی چلا رہا ہوں ، علماء کی تربیت کا ایک ادارہ ہے ممبئی او رپونے کے بیچ میں جہاں اب میرا مستقل قیام رہتا ہے نیرل وہاں معہد الاما م ولی اللہ الدھلوی للدراسات الاسلامیہ کے نام سے علماء کی تربیت کے لئے دوسالہ کورس چلایا جارہاہے ، ایک نیا مدرسہ قائم کیا ہے کہ اپنے اصل ندوہ کے تخیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کہ دینی تعلیم او رعصری تعلیم دونوں بالکل یکجا ہوں اور خالص مدرسہ کے ماحول میں ہوں تو اسی پروگرام کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے دارالعلوم امام ربانی کے نام سے ۔ یہی میری مصروفیات ہیں ۔

بقیہ انٹرویو کا حصہ انشاء اللہ کل پیش کیا جائے گا

maulana and ansar 1

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا