English   /   Kannada   /   Nawayathi

حاسد نگاہوں سے بچنے کے لئے مدارسِ اسلامیہ کے نظام میں جان بوجھ کر کمی رکھی گئی ہے

share with us

مولانا نے سورہ کہف کی بہترین تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں پچھلی قومو ں کے واقعات کے ساتھ ساتھ مستقبل میں آنے والے فتنوں سے مقابلہ کی ترکیبیں بیان کی گئیں ہیں اور اس پر فتن دور میں اخلاقی قدروں اور ایمان کو بچانے کے نظام کی وضاحت کی گئی ہے مولانا حالاتِ حاضرہ کے فتنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور دجالی فتنہ کا دور ہے اور بڑے دجال کے آنے سے پہلے چھوٹے دجالی فتنے ابھرتے رہیں گے جس میں لوگ محسوس کریں گے کہ باہر سے کچھ اورہے اور اندر سے کچھ اور ۔ نام کچھ اور ہوگا اور کام کچھ اور ۔ مولانا نے سورہ کہف میں غار والوں کے تذکرہ کئے جانے کے اصل مقصد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ دراصل قرآن میں کسی بھی واقعہ کو بیان کرنا قصہ کہانی سنانے کے لیے نہیں ہے اس میں ایسے رازپوشیدہ ہوتے ہیں کہ اس سے انسان اپنے لئے مشعلِ راہ ڈھونڈلے۔تفصیلی واقعہ کے بیان کے بعد مولانانے یہ نکتہ والی تفسیر بتائی کہ جس طرح وہ لوگ معاشرہ سے نکل کر اپنے ایمان کی حفاظت میں کہف میں جا چھپے تھے اسی طرح ایک دور ایسا آئے گا کہ یہ امت یونیورسٹیوں اور دانشگاہوں سے نکل کر مدرسوں جیسے تہہ خانوں میں اپنے آپ کو بند کرکے اپنی قدیم دینی کتابوں پر قناعت کرتے ہوئے دن رات قرآن وحدیث کے مطالعہ میں لگی رہے گی ۔ مولانا اپنی پہلی بات کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے سورہ کہف میں مذکورہ حضر ت موسیٰ ؑ اور خضر ؑ کے اس سفر کا تفصیلی رخ اور اس سفر کے اہم نکات کو سامعین کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ بظاہر جس کشتی پر سوار ہوئے اس کشتی میں سراخ کرنا واقعی قابلِ تشویش اورسمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی مگر جس طرح آگے جاکریہ صحیح سلامت کشتی باشاہ کی جانب سے لوٹ لی جاتی اسی طرح مدرسہ کا نظام بھی ہے ۔بانیانِ مدارس نے جان بوجھ کرکمی رکھی تھی اور رکھی ہے تاکہ زمانہ کی ظالم نگاہوں سے یہ مدارس محفوظ رہیں ۔مولانا نے اپنے بیان میں سورہ کہف میں مذکو رہ بچہ کے قتل کے واقعہ کے ذیل میں کہا کہ خضر علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ اس نافرمان بچہ کے بدلے اللہ اس کے والدین کو ایسا نیک او رصالح بچہ عطا کرے جو صالحیت کے ساتھ رشتہ داروں سے اچھے تعلقات بھی رکھنے والا ہو ۔ اس واقعہ کے ذریعہ امت کو پیغام دیا جارہا ہے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس سے بچہ صالح ہو اور رشتہ کا پاس ولحاظ رکھنے والابنے ۔ مولانا نے یتیم بچوں کے خزانہ کی دیوار کی مرمت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ جس دیوار کے ذریعہ سے اسلامی ثقافت او راسلامی علوم قائم ہوئے تھے وہ دیوار گرنے کے قریب ہوگی اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے خضر صفت بندوں کو توفیق دے گا کہ مدرسوں کے ذریعہ اس گرتی دیوار کی حفاظت کریں ۔ اور اس کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ مدرسہ کے علوم معاشرہ کے مختلف شعبوں میں نافذ ہوکر رہیں گے ۔مولانا نے اپنے بیان میں مدرسہ اور اس کی اہمیت کے بارے میں زور دیتے ہوئے اس کی حفاظت کرنے کے سلسلہ کی طرف توجہ دلائی نیز مدارس و علماء کو اپنا تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں منھ توڑ جواب دیا کہ مدارس ہیں تو قوم ہے ، مدارس اور خانقاہوں سے ہی ملک کا نظام بدلے گا۔ مولانا نے اس موقع پر اپنے او ربی جے پی لیڈر اڈوانی کے ایک خصوصی اور وفد کی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک ہند میں اگرکہیں زنا بالجبر کی واردات پیش آتی ہے تو وہ کون ہوتے ہیں ، وہ مدارس کے طلباء نہیں ہوتے، کسی ایک ایسے چور اچکے کو یا پھر دل پھینک طالبِ علم کو بتادیں جو اس طرح کے جرائم میں ملوث ہو ، ملک کا نظام بھی اگر بدلنا ہے اور ملک میں امن شانتی کو قائم کرنا ہے تو وہ بھی صر ف مدارسِ اسلامیہ ہی سے ممکن ہے ۔ ملحوظ رہے کہ اس موقع پر مولانانے شہر بھٹکل کے عوام سے پُر اُمید نظر آئے اور ہر بیان میں یہاں کے مسلم طبقہ کو دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ سے ہی یاد کرتے ہوئے اہلیانِ بھٹکل کی خوب توصیف کی۔ مولانا مدظلہ کے بیان سے پہلے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے مہتمم مولانا عبدالباری ندوی نے قرآن کریم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا ۔ مولانا نے کہا کہ قرآن انسانیت کی تحفظ اور سعادتِ ابدی کا ضامن ہے اور اس کتاب کے ذریعہ سے انسانیت کو زندگی گذارنے کے رہنما اصول ملے ۔ جنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن اکیڈمی و ناظم علی پبلک اسکول استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے تأثرات میں کہا کہ اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے لیکن یہ نہیں بیان کیا وہ کن چیزوں کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا ۔ مولانا مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اگر اس کی حفاظت نہیں کریں گے تو اللہ دوسری قوموں کو اس کے لئے تیار کرے گا ۔ مولانا نے اپنے حافظ قرآن نہ ہونے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے لوگوں سے گذارش کی کہ وہ اپنے نونہالوں سے اس بابرکت اعزاز سے ہمکنار کرائیں ۔ مولانا نےجمعیۃکے تمام ذمہ داروں کواس ادارہ کے انعقاد پر مبارکبادی بھی دی ۔ اس آخری نشست میں سابق صدر شعبۂ حفظ جامعہ اسلامیہ بھٹکل جناب حافظ کبیرالدین صاحب کی خدمت میں جمعیۃ الحفاظ کی طرف سے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے ایک لاکھ روپئے کی رقم ہدیہ میں دی گئی ۔ واضح رہے کہ مسابقہ تین گروپ پر تقسیم کیا گیا تھا جس میں اول آنے والے کو 25,000 دوم آنے والوں کو 15,000 اور سوم آنے والوں کو 10,000انعامات سے نوازا گیا اس کے علاوہ ہر مساہم کو تشجیعی انعامات بھی دئے گئے ۔ امتیازی نمبرات سے کامیا ب ہونے والوں کے نام کچھ اس طرح ہیں ۔ سفلی میں اول : اظہار الحسن ابن محمد اسماعیل بیہٹی دوم : سید عبداللہ ابن سید فضل الرحمن برماور سوم : سید نبیغ ابن سید نورالہدیٰ برماور وسطیٰ میں محمد سعود ابن بدرالحسن شنگیٹی دوم : عبدالحی ابن مولانا محمد شعیب ائیکری اور سوم : فائز ابن عبدالجمید صاحب اور علیا میں اول محمد فرقان ابن عبدالغفور صدیقہ دوم : محمد حسن ابن محمد اشفاق گوائی اور سوم : محمد ثانی ابن مولانا محمد حسین رشادی ۔ بالآخر دو روزہ یہ روحانی نشست مولاناموصوف مدظلہ العالی کی رقت آمیز دعائیہ کلمات پرجہاں ہر آنکھ اشکبار تھی اور اپنے رب سے شکوہ کناں تھی، گناہوں کے معافی کے لئے بار بار اصرار کرنے والی زبان پر آمین آمین کے رقت آمیز التجا پر اپنے اختتام کو پہنچی اس جلسہ میں شہر کے علاوہ مضافات شہر سے مرد و خواتین کاایک جم غفیر شریک تھا۔

fdghj

gfhty

ghjk

fgbv

fgh

IMG 0135

IMG 0139

جمعیۃ الحفاظ مسابقہ حفظ قرآن کے تمام نشستوں کی تصاویر اپلوڈ ہوچکی ہیں۔ ملاحظہ کرلیں

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا