English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایک ارب لوگ جو کورونا سے بچاؤ کی تجاویز پر عمل نہیں کر سکتے

share with us

21/ مارچ 2020(فکروخبر /ذرائع)اپنے ہاتھ بار بار دھوئئں، دوسروں سے فاصلے پر رہیں، اگر آپ میں علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو خود کو قرنطینہ میں رکھیں۔۔۔ یہی وہ سارے مشورے ہیں جو عالمی ادارہِ صحت کورونا وائرس کو روکنے کے لیے دے رہا ہے۔

مگر لاکھوں لوگوں کو ان اقدامات سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔

دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ شہروں کچی بستیوں جیسے حالات میں رہتے ہیں جو کہ شہری آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ یہاں مکانات میں ہوا کے راستے کم اور گٹروں کا نظام ناقص ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے امکانات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔

43 سالہ سیلستین آدھیامبو نائروبی میں موکورو نامی کچی آبادی کی رہائشی ہیں جہاں وہ اپنے شوہر اور چھ بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس فیملی کے ایک کمرے کے مکان میں نہ تو ہانی آتا ہے نہ ہی بجلی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بچے گھر کے اندر ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر چل پھر نہیں سکتے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی انفیکشن کی صورت میں ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم ایک بچے کو باقی بچوں سے علیحدہ کر سکیں۔ ہمارے پاس جگہ ہی نہیں ہے۔ کوئی کمرے نہیں ہیں۔ حکومت کو متاثرہ لوگوں کو ہسپتالوں میں لے جانا چاہیے۔‘

ان کے شوہر بڑھئی کا کام کرتے ہیں اور جس دن ان کو مزدوری مل جائے تو وہ 400 کینیائی شیلنگ (تقریباً 4 ڈالر) تک کما لیتے ہیں جبکہ ہر روز اس خاندان کو 50 شیلنگ (تقریباً نصف ڈالر) پانی خریدنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔

تاہم پانی کی رسد غیر مستحکم ہے اور جن دونوں پانی نہیں ملتا اس فیملی کے لوگ غسل نہیں کر سکتے۔

موکورو میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ ان کے مکانات کارڈ بورڈ یا پلاسٹک کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جس کے پاس کچھ پیسے آ جائیں وہ آئرن شیٹوں کا گھر بنا لیتا ہے۔ یہاں کوئی کوڑا اکھٹا نہیں کرتا۔ کوڑا سیدھا دریا میں جاتا ہے۔

موکورو مرسی نامی ایک مقامی این جی او چار پرائمری سکور چلاتی ہے جن میں تقریباً 7000 طلبہ ہیں۔ تنظیم کی سربراہ میری کلین کا کہنا ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف صابن خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

سیلستین کہتی ہیں ’میں پریشان ہوں۔ اگر ہمارے علاقے میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکل ہوجائے گی۔‘

عالمی ادارہِ صحت کے سابق اہلکار ڈاکٹر پیئر پیلے نے بہت سے افریقی ممالک میں کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افریقی ممالک میں گھروں میں قدرے زیادہ لوگ رہے ہیں اور کہیں کہیں تو ایک ہی مکان میں بارہ لوگ رہتے ہیں۔ ’خود کو قرنطینہ کرنا ایسی صورتحال میں ناممکن ہے۔‘

اور یہ صرف کچی آبادیاں ہی نہیں جو کہ پانی کی رسد میں کمی کا شکار ہیں۔ جنوبی افریقہ کا شہر جوہانسبرگ اور انڈیا کا شہر چنائی دونوں میں گذشتہ سال پانی کی شدید قلت تھی اور پانی تقریباً ختم ہوگیا تھا۔

چنائی کے مضافات میں رہنے والی شانتی ساسندراناتھ کے دو بچے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گذشتہ سال کی طرح پانی کی قلت ہوئی تو بار بار ہاتھ دھونا مشکل ہوجائے گا۔‘

گذشتہ سال پانی کی قلت کے دوران ان کی فیملی نے 50 کلومیٹر دور زرعی کنوؤں سے پانی خرید کر گزارا کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ عوامی باتھ روم بہت کم ہیں اور لوگ صحت عامہ کی تجاویز پر عمل نہیں کر رہے۔

’لوکل ٹرین پر تو لوگ آپ سے چند انچ کے فاصلے پر منہ پر ہاتھ رکھے بغیر کھانستے ہیں۔ اگر آپ کسی کو منع کریں تو کچھ تو معافی مانگتے ہیں اور کچھ لڑنے لگتے ہیں۔‘

ان کے عزیز و اقارب روز ان کے گھر آتے ہیں اور انھوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ لوگوں کا آنا جانا کیسے کم کریں۔

میں اپنے بچوں کو ہاتھ آہستہ سے اور مکمل طور پر دھونے کو کہہ رہی ہوں۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ جب بھی وہ باہر سے آییں تو اپنے ہاتھ دھؤیں چاہے وہ پانچ منٹ کے لیے ہی باہر کیوں نہ گئے ہوں۔ اور ہماری فیملی زیادہ باہر بھی نہیں جا رہی۔‘

یونیورسٹی آف گلاسگو کے ڈاکٹر لیمبرٹن کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا ہوگا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگوں کے پاس دو ہفتے کا راشن خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ وہ بالکل روزانہ کی اجرت پر گزارا کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس کھانا رکھنے کے لیے فریج نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں „کچھ حکومتیں غریب ہیں مگر ان لوگوں سے زیادہ غریب نہیں۔ وبا پھیلنے کی صورت میں انھیں پوری کمیونٹی کو علیحدہ کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

مگر ادھر موکورو نے گذشتہ چند ہفتوں میں کچھ نہیں بدلا۔ سیلستین آدھیامبو کہتی ہیں کہ انھیں لگ رہا ہے کہ ان کے پاس دفاع کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جو واحد چیز کر سکتی ہوں کر رہی ہوں۔۔۔ ’خدا سے دعا کرتی ہوں کہ ہمیں اور ہمارے علاقے کو اس وائرس سے بچا کر رکھنا۔‘

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا