English   /   Kannada   /   Nawayathi

پٹنہ: برقع نشینوں کے سامنے جھکی کالج انتظامیہ، ہنگامہ کے بعد برقع پر پابندی ختم

share with us

پٹنہ: 25جنوری 2020(فکروخبر/ذرائع) بہار کی راجدھانی پٹنہ کے جے ڈی ویمنس کالج میں طالبات کے برقع پہننے پر روک لگانے کے بعد زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے کالج انتظامیہ نے فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کالج انتظامیہ نے یو ٹرن لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ لڑکیاں اپنی خواہش کے مطابق کالج برقع پہن کر بھی آ سکتی ہیں۔ اس سے قبل کالج انتظامیہ نے نیا قانون نافذ کرتے ہوئے مسلم طالبات سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ برقع پہن کر نہ آئیں کیونکہ وہ سبھی طالبات میں یکسانیت دیکھنا چاہتی ہے۔

بہر حال، فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد مسلم طالبات نے راحت کی سانس لی ہے اور اب وہ برقع پہن کر کالج جا سکیں گی۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا تو برقع پہننے والی طابات کو 250 روپے جرمانہ عائد کرنے کی بات کالج انتظامیہ نے کہی تھی۔ کالج انتظامیہ نے کہا تھا کہ ہفتہ (سنیچر) کو چھوڑ کر باقی سبھی دن طالبات یکساں ڈریس کوڈ میں ہی کالج آئیں۔

کالج انتظامیہ کے ذریعہ برقع پر پابندی لگائے جانے کی خبر پھیلتے ہی مسلم طبقہ میں کافی ناراضگی دیکھنے کو ملی تھی۔ طالبات نے خود بھی اس سرکلر پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ کالج کو برقع سے آخر پریشانی کیا ہے۔ اب جب کہ قانون واپس لے لیا گیا ہے تو طالبات میں خوشی کا ماحول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ نے ان کے اوپر جان بوجھ کر یہ قانون تھوپنے کی کوشش کی تھی۔

برقع پر پابندی والی بات جب میڈیا میں آئی تو کچھ لوگوں نے کالج انتظامیہ سے اس سلسلے میں سوال کیا تھا جس پر کالج پرنسپل شیاما رائے نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم نے اس ضابطہ کے بارے میں پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ نئے سیشن کے اورینٹیشن کے وقت بھی طالبات کو اس شرط کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔" پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تھا تاکہ طالبات ظاہری طور پر برابر نظر آئیں۔

مسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی کالج انتظامیہ کے فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ امارت شرعیہ کے کارگزار ناظم مولانا شبلی القاسمی نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پابندی لگی ہے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ مسلم مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جے ڈی ویمنس کالج انتظامیہ کا یہ قدم غلط ہے۔ اس سے پرنسپل کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اس قانون کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سماج کو توڑنے والا قدم ہے۔

دوسری طرف ورلڈ انسٹی ٹیوٹ اآف اسلامک اسٹڈی فور ڈائیلاگ کی ڈی جی ڈاکٹر زینت شوکت علی نے کہا کہ کالج اگر کسی کے خصوصی لباس پر روک لگاتا ہے تو یہ اس شخص کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں خواتین کو باعزت طریقے سے کپڑے پہننے کو کہا گیا ہے اور اس پر طالبات عمل کرتی ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

قومی آوازبیورو

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا