English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسجد کے لئے جو جگہ وقف ہوجائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے،۔مولانا سید ارشدمدنی

share with us

نئی دہلی 17اکتوبر2019(فکروخبر/پریس ریلیز)سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ  بابری مسجدکے سلسلہ میں مسلمانان ہند کا موقف وہی ہے جس کا اظہارجمعیۃعلماء ہندکی طرف سے باربارکیا جاتا رہاہے کہ جو جگہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے، اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس سے دست بردارہوسکتاہے اور نہ ہی اس کا تبادلہ کر سکتاہے، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیارنہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدریا چیئر مین صرف اس کا منتظم اور نگراں ہوتاہے،مالک نہیں، یہ تولیت کا مقدمہ نہیں بلکہ حق ملکیت کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہر طرح کی مصالحتی کوشش کے ناکام ہونے کہ بعدہی عدالت میں حتمی بحث شروع ہوئی تھی، مگر اب آخری لمحوں میں یہ جو کچھ ہوا اس پر صرف افسوس کا اظہارہی کیا جاسکتاہے، اوریہ مسلمانوں کونفسیاتی اور اخلاقی طورپر پست ہمت کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہوسکتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں ابتداہی سے حق اور انصاف کی جگہ طاقت اور زبردستی کا ہی مظاہرہ ہوتاآیا ہے، مسجد کے اندررات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھی گئیں، مسلمانوں نے انصاف طلب کیا تو نماز پر پابندی عائد کرکے مسجدمیں تالالگادیاگیا، اس کے بعد ایک مقامی عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں تالاکھول تودیا گیا مگر مسلمانوں کو مسجد میں داخل ہونے کا حق نہیں دیا گیا اور بالآخر 6 /دسمبر 1992کو تو آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے شہید بھی کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ ملک کے دستورنے ہمیں جو اختیارات دیئے ہیں ان کا سہارالیکر ہم انصاف کی جنگ قانونی سطح پر لڑتے آئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آئندہ بھی لڑیں گے انہوں نے آگے کہاکہ مسلمان ملک کے آئین، قانون اورعدلیہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرتے ہیں چنانچہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کے منتظرہیں۔ انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ کسی وقف بورڈ یا اس کے صدرکو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقف شدہ آراضی کسی کو فروخت کرے یا تحفہ میں دے کیونکہ وہ صرف وقف کا نگراں اورمحافظ ہوتاہے، دوسرے وقف بورڈ کی حیثیت سرکاری ہوتی ہے، کل کو سرکاراگرچاہئے تو وقف بورڈ کو تحلیل یا ختم کرسکتی ہے تو کیا اس سے وقف اور وقف آراضی کی بھی حیثیت ختم ہوجائے گی؟ نہیں بالکل نہیں وقف آراضی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی وقف کے تعلق سے شریعت کے حکم میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے۔ مولانا مدنی نے
 آخرمیں آپ نے وکلاء کی ٹیم اور خاص طورپر ڈاکٹر راجیودھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان  کا اس بات کیلئے ایک بارپھرشکریہ اداکیا کہ انہوں نے نہ صرف مسجد کے حق میں ایک مؤثر بحث کی بلکہ عدالت کے سامنے تمام ثبوت وشواہد بھی بہتر اندازمیں رکھے اور مخالف فریق کے وکلاء کی بحث کے معقول جوابات بھی دیئے۔

فضل الرحمن قاسمی
آفس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا