English   /   Kannada   /   Nawayathi

بے نقاب ہوتے کانگریسی چہرے

share with us

ظہیر الدن صدیقی اورنگ آباد      
 

    کانگریس کے سیکولرازم پر تو اسی وقت سوالیہ نشان لگ گیا تھا جب آزادی کے فوری بعد ۸۴۹۱ء میں پولس ایکشن کے نام پر صوبہ دکن میں فوجی کاروائی انجام دی گئی، ۹۴۹۱ء میں بابری مسجد میں غاصبانہ طور پر مورتی نصب کی گئی، اور ۰۵۹۱ء میں حکومت نے ایک حکم نامہ کے ذریعہ یہ اعلان کر دیا کہ شیڈول کاسٹ کو حاصل مراعات صرف ہندوؤں کو حاصل ہوگی مسلمان شیڈول کاسٹ کو یہ مراعات حاصل نہیں ہوگی۔ یعنی مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ان مراعات سے محروم کر دیا گیا جب کہ ہمارا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مذہب کے نام پر بھارت کے کسی بھی شہری میں کوئی امتیازنہیں کیا جائیگا۔ پتہ نہیں اس وقت کے مسلمانوں نے حکومت کے اس اعلان پر کیا رد عمل پیش کیا تھا، انہوں نے اس حکم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا تھا یا نہیں اور اگر کیا تھا تو آئینی ضمانت کے باوجود یہ حکم نامہ آج تک کیوں رو بہ عمل ہے؟ کیوں مسلمان شیڈول کاسٹ آج بھی ان مراعات سے محروم ہیں۔ حالانکہ اس حکم نامہ میں ترمیم کرکے بعد میں سکھ اور عیسائی درج فہرست طبقات کو بھی اس زمرے میں شامل کر لیا گیا لیکن مسلمان ہنوز اس سے محروم ہی ہیں۔ اس کے بعدکانگریس کی فرقہ پرستی، تعصب، مسلم دشمنی کی ستّر سالہ طویل داستاں ہے جس کا ذکر ہزاروں مرتبہ ذی شعور مسلم دانشوروں نے اپنی تحریر و تقریر میں کیا، لیکن اِن سب کے باوجود آزاد بھارت کا مسلمان کبھی ہندو مہا سبھا کے ڈر سے،تو کبھی جن سنگھ کے خوف سے، تو کبھی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے نام  نہاد سیکولر کانگریس کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتا رہا، اُسی کو ووٹ دیتا رہا اور زمام حکومت اسی کے حوالے کرتا رہا۔ اور اپنے آپ کو اس خود فریبی میں مبتلاء رکھا کہ کانگریس ایک سیکولر جماعت ہے، سخت پتھر کے مقابلہ میں اینٹنرمہے، کھلی فرقہ پرستی کے تقابل میں نام نہاد سیکولرازم بہتر ہے، اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلہ میں کانگریس کی مسلم دشمنی قابل قبول ہے۔ ہمارے اکابرین بھی اس بات پر مطمئین تھے کہ انہیں اس ملک میں مذہبی آزادی حاصل ہے، اپنے مسلک و مکتب کی تبلیغ و ترویج کے مواقع حاصل ہیں جس کی آڑ میں ان کے ادارے اور تنظیمیں پھل پھول رہے ہیں۔ انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ کانگریس کی نرم اور دوغلی پالیسی کی وجہ سے کٹّر فرقہ پرست طاقتیں دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہیں، جو مستقبل میں کانگریس اور مسلمان دونوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔جاری دہائی میں فرقہ پرستوں کے اقتدار پر قبضہ نے جہاں مسلمانوں کو فکر مند کردیا وہیں کانگریس کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ کانگریس اپنے بنیادی سیکولر نظریات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنی سیکولرشبیہ کو تبدیل کرنے میں لگ گئی۔ سب سے پہلے محترمہ سونیا گاندھی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کانگریس کی شناخت مسلم پارٹی کی ہوگئی ہے، ہمیں اسے بدلنا ہوگا۔ اس کے بعد کانگریس نے سخت گیر ہندوتوؤ کے مقابلے میں نرم ہندوتوؤ کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا۔ عیسائی ماں اور پارسی باپ کے شہزادہ نے گنگا اشنان اور مندروں کے درشن کرکے اپنے آپ کو جنیوا دھاری ہندو براہمن ثابت کرنے میں پورا زورصرف کردیا لیکن ہندوؤں کا اعتماد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ مورخ جب کانگریس کے زوال کی تاریخ رقم کریں گے تو یہ بات ضرور لکھی جائے گی کہ ”اپنے سیکولر نظریات سے انحراف نے کانگریس کو نہ گھر کا رکھا نہ گھاٹ کااور اس نے نرم ہندوتوؤ کے زہر سے خود کشی کرلی“۔ سنا ہے جب جہاز ڈوبتا ہے تو سب سے پہلے چوہے جہاز سے بھاگ جاتے ہیں۔یہاں تو ملاح ہی جہاز چھوڑ کر بھاگ رہا ہے تو جہاز کا انجام کیا ہوگا وہ بتانے کی ضرور ت نہیں۔ ۴۱۰۲ء میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پورے ملک کے سیکولر طبقات کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ اگر آئندہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا ہے تو تمام سیکولر جماعتوں کو ایک مضبوط محاذ قائم کرکے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، مہا گٹ بندھن بنانے کی تمام تر کوششوں کے باوجودایسا کوئی اتحاد قائم نہیں ہوسکا، ہم سب جانتے ہیں کہ اس انتشار کے لئے کانگریس کی ہٹ دھرمی اور اکیلا چلو کی پالیسی ذمہ دار ہے۔چند ریاستی انتخابات اور ملک کے عام انتخابات کے دوران کانگریس نے مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرنا تو دور لفظ مسلمان کا استعمال کرنا بھی گوارانہیں کیا۔ مسلم لیڈروں کو انتخابی تشہیری جلسوں سے دور رکھا گیا، اس کے باوجود مسلم علماء، دانشور اور صحافی مسلمانوں سے یہی اپیل کرتے رہے کہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کانگریس کو ہی ووٹ دیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں نے کانگریس کو ہی ووٹ دیا لیکن کانگریس غیر مسلم رائے دہندگان کو ہندو ہونے سے روک نہیں سکی اور فرقہ پرست پوری اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوگئے۔ نہ کانگریس کی نرم ہندوتوؤ کی پالیسی اسکے کچھ کام آئی اورنہ ہی مسلمانوں سے دوری اختیار کرنے سے اسے کچھ فائدہ ہوا۔ کانگریس کی پہ در پہ ناکامیوں سے دل برداشتہ آئے دن قد آور کانگریسی قائدین بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے سیکولر ہونے کی قسمیں مسلمان بھی کھایا کرتے تھے۔ کرنا ٹک اور گوا میں سیکولرازم کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے منتخب کانگریسی ایم ایل ایزجس طرح کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں وہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ کانگریسیوں کا سیکولر ازم محض ایک دکھاوا ہے، ان کے پاس نظریات کی کوئی وقعت نہیں بس اقتدار ہی سب کچھ ہے۔کانگریس کا سیکولر ازم اس وقت بھی بے نقاب ہو گیاجب مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت نے گائے کشی کے الزام میں ملوث تین مسلم نوجوانوں پر این ایس اے (نیشنل سیکوریٹی ایکٹ) لاگو کرنے کو جائز قرار دیا۔ ہمارے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ گائے کشی سے قومی سلامتی کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ ملک کی کچھ ریاستوں میں ابھی بھی گاؤ کشی قانوناً جائز ہے۔ کانگریس کے سیکولرازم پر اس وقت بھی سوال اٹھتا ہے جب راجستھان کی سیکولر کانگریس حکومت گاؤ تسکری کے نام پر ہجومی تشدد میں مارے گئے پہلو خان کے لڑکوں پر مقدمات درج کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ کانگریس کے سیکولرازم کا بھرم اس وقت بھی کھل جاتا ہے جب مہاراشٹرا کے دھولیہ شہر کے کانگریسی رکن اسمبلی اور پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار کنال پاٹل ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہجومی تشدد کرنے والے مقامی ملز م سنجے شرما پرلگائی گئی دفعہ ۷۰۳  ہٹا دی جائے۔واضح ہو کہ کنال پاٹل کا تعلق اس خاندان سے ہے جن کی تین نسلیں سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی رہیں، اگر اس بار بھی مسلمان کنا ل پاٹل کو ووٹ نہیں دیتے تو ان کی ضمانت بھی ضبط ہو جاتی۔وہ کنال پاٹل فرقہ پرستوں کو سبق سکھانے کے بجائے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان پر سے ۷۰۳ کی دفعہ منسوخ کی جائے یعنی کیس کمزور کردیا جائے۔کچھ بعید نہیں کہ کنال پاٹل اگلے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار ہوں۔کیونکہ ہر حلقہ سے یہ خبریں آرہی ہیکہ کانگریسی اراکین اسمبلی بی جے پی میں شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ کانگریس اور کانگریسیوں کا سیکولر ازم بے نقاب ہو گیا ہے۔ وہ افراد جو انتخابات سے قبل بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں وہ تو کسی حد تک قابل معافی ہیں لیکن ان کا کیا جو سیکولرازم کے نام پر منتخب ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں؟اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جنہیں عوام سیکولر امیدوار سمجھ کر منتخب کریں گی وہ مستقبل میں فرقہ پرست پارٹیوں میں شامل نہیں ہوں گے؟ 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

20جولائی2019۰فکروکبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا