English   /   Kannada   /   Nawayathi

کانگریس کے لئے خودکشی بہترہے یا رضامندانہ موت؟

share with us


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    اگر موت کی خواہش ہو تو کونسا طریقہ زیادہ مناسب ہوتا ہے؟ خودکشی کرلینا چاہئے یا رضامندانہ موت کا راستہ ٹھیک ہے؟ یہ سوال میں کانگریس کے تناظر میں کر رہا ہوں۔ اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، تلنگانہ، آندھراپردیش، تمل ناڈومیں تو پہلے ہی خود کشی کرچکی ہے مگر اب کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر میں وہ رضامندانہ موت کی طرف گامزن ہے۔ ملک کے باقی حصوں میں بھی وہ دوسرے طریقہ موت کو ہی اپنانے میں آسانی محسوس کر ے گی۔ملک کی سب سے پرانی قومی پارٹی نے جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردارنبھایا پھر اس کی تقسیم میں شامل رہی۔ ایک طویل مدت تک حکمرانی کی اور جہاں ملک کے لئے کچھ اہم کام کئے وہیں کئی بڑی غلطیاں بھی کیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک ملک کو کوئی مناسب راہ نہیں مل پائی اور فاسسٹ جماعتوں نے سراٹھانا شروع کردیا اور آج جو صورت حال ہے،وہ سب کے سامنے ہے۔کانگریس نے جو کیا اس کا خمیازہ صرف اسی کو نہیں بلکہ ملک کو بھی بھگتنا پڑ رہاہے۔   
بغیرصدر کے پارٹی
    اس وقت بھی کانگریس ملک کی قومی پارٹی ہے مگر موجودہ وقت میں وہ بغیرصدر کی پارٹی ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس قدیم سیاسی پارٹی کا اگلا صدر کون ہوگا؟ راہل گاندھی کی جگہ کسے پہنایا جائے گا کانٹوں بھرا تاج؟یہ سوالات میڈیا سے لے کر پارٹی کے اندر تک موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں خراب کارکردگی کے بعد، کانگریس کے موجودہ صدر راہول گاندھی نے استعفی دے دیاہے اور اپنے فیصلے پر اڑے ہوئے ہیں جس کے بعد راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کو کانگریس کا نیا قومی صدر بنانے کی خبر سے راجستھان کانگریس پارٹی میں ہلچل مچ گئی تھی۔ اطلاعات تھیں کہ راجستھان کے وزیر اعلی کی کرسی پر سچن پائلٹ بیٹھ سکتے ہیں۔اس خبر کے میڈیا میں آنے کے بعد سے گہلوت  کیمپ اور سچن پائلٹ کیمپ کے لوگوں میں کانا پھوسی تیز ہوگئی تھی۔     راجستھان میں بری طرح انتخابات ہارنے کے بعد سے ہی وزیر اعلی اشوک گہلوت کی راہل گاندھی سے ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس شکست کے لئے گہلوت اور پائلٹ کیمپ ایک دوسرے پر الزام دھر رہا ہے، جس کی وجہ سے کئی طرح کی افواہیں اڑ رہی تھیں لیکن راہول گاندھی کی سالگرہ پر اشوک گہلوت نے ان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ کانگریس کی سب سے بڑی لیڈر سونیا گاندھی نے اشوک گہلوت کو بلا کر ملاقات کی ہے۔ اس مٹینگ کے بعد سے یہ خبر تیزی سے گشت کرنے لگی کہ گاندھی خاندان کے سب سے قابل اعتماد اشوک گہلوت کو کانگریس کا تاج دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جلد ہی دوسری خبر آنے لگی اور ایک پارٹی کی صدارت کے لئے درجن امیدواروں کے نام سامنے آنے لگے۔سچن پائلٹ، جیوتی رادتیہ سندھیا، دگوجے سنگھ، ششی تھرور، شندے، کھڑگے، انٹنی، موتی لال ووہرااور نہ جانے کون کون؟تاہم کسی کے نام پر اتفاق رائے نہیں بن پائی ہے۔ آگے کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ حالانکہ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ صدر پر فیصلہ ہونے کے بعد کیا کانگریس کوئی بڑا تیر مارنے کی پوزیشن میں آجائے گی؟ کیا وہ اس لائق ہوجائے گی کہ بی جے پی کی تنظیمی طاقت سے مقابلہ کرسکے؟
کانگریس میں لیڈروں کی کمی نہیں مگر۔۔
    ظاہر ہے کہ آج پارٹی میں ایسے نیتاؤں کی کوئی کمی نہیں ہے جو کانگریس کی خدمت کرسکتے ہیں۔ اگر کمی ہے تو ایسے لیڈروں کی جو ملک کی سب سے پرانی پارٹی کو اس کی شوکت رفتہ واپس دلاسکیں۔ خاص طور پر جب سونیا گاندھی راے بریلی سے ممبرپارلیمنٹ ہیں اور راہول گاندھی ویناڈ سے الیکشن جیتے ہیں نیز پرینکا گاندھی اے آئی سی سی کی جنرل سکریٹری ہیں، ایسے میں قومی صدر کو ان کا ساتھ ملتا رہے گا۔ پارٹی کے پاس ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔اس وقت پانچ وزیر اعلی ہیں کمل ناتھ، کیپٹن امریندر سنگھ، اشوک گہلوت، بھوپیش بگھیل اور وی نارائن سامی۔ اس کے بعد پارٹی میں غلام نبی آزاد، آنند شرما، پی چدمبرم، احمد پٹیل، مکل واسنک، پرتھوی راج چوہان، جیوتی رادتیہ سندھیا، کپل سبل، دگ وجے سنگھ، ملند دیوڑا، جتن پرساد، ششی تھرور، منیش تیواری، شیو کمار، اجے ماکن جیسے تجربہ کار لیڈر بھی ہیں۔ان میں سے کچھ اگر چہ حال میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں ہار گئے ہوں لیکن ان کے پاس عوامی عہدوں پر رہنے کا بڑا تجربہ ہے۔اس کے علاوہ کانگریس کے پاس ڈاکٹر منموہن سنگھ، اے کے انٹونی، ویرپا موئلی، ملک ارجن کھڑگے، سشیل کمار شندے، میرا کمار، امبیکا سونی، محسنہ قدوائی، شیلا دکشت جیسے کئی بڑے لیڈربھی ہیں جو کئی دہائیوں کے اپنے تجربے کی بنیاد پر مشورہ دے سکتے ہیں۔
    خاتمے کی جانب کانگریس کے قدم
        فی الوقت کانگریس تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ کرناٹک میں جو حالات ہیں سب کے سامنے ہیں۔گوا میں اس کے ممبران اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ مہاراشٹر، مغربی بنگال میں وہ بھاجپا کا دامن پکڑنے کے لئے بے چین ہیں اور بعض تو بھاجپا جوائین بھی کرچکے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس اپنے ممبران اسمبلی کی نگرانی کر رہی ہے تاکہ اس کی سرکار گرنے سے بچ جائے۔اس بیچ تلنگانہ اور آندھرا پردیش جو کبھی کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا،ان علاقوں میں شامل ہوگیا ہے جہاں سے کانگریس کا صفایا ہوچکا ہے۔ حال میں تلنگانہ کانگریسی ممبران اسمبلی نے ٹی آرایس جوائن کرلیا ہے جب کہ آندھرا میں کانگریس کو الیکش میں شکست ہاتھ لگی تھی۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس خطے میں اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوگی؟ کیا وہ حالیہ انتخابات میں شکست اور پھر پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کی دوہری مار سے بچ پائے گی؟ان سوالوں کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ کیا کانگریس کی راکھ سے بھاجپا کو زندگی ملے گی جو، اب تک اس خطے میں خود کو قابل ذکر حالت میں نہیں لاسکی ہے مگر پورا بھگوا پریوار اس کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے اوراس کا ووٹ فیصد لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طرف تلنگانہ میں کانگریس کے پاس ایک مضبوط قیادت کا فقدان ہے تو دوسری طرف اس کے ممبران اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نے ٹی آرایس جوائن کرلی ہے تو دوسری طرف آندھرا پردیش میں اس کا وجود پہلے ہی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔دونوں ریاستوں میں اس کی تنظیمی صلاحیتیں کمزور اور بیمار دکھائی دیتی ہیں۔پہلے ہی پوری پارٹی دوسری پارٹیوں میں ضم ہوچکی ہے اورجو چند افراد پارٹی  میں بچے ہیں وہ حوصلے ہارے ہوئے اور شکست خوردہ نظر آرہے ہیں۔
کانگریس کا برا حال
        گزشتہ دنوں تلنگانہ کانگریس کے ایک درجن ارکان اسمبلی نے حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی جوائن کرلیا۔ انھوں نے دل بدلی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پارٹی بدلی لہٰذا وہ دل بدل قانون سے بھی محفوظ رہے۔ کانگریس میں ایسے وقت میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی جب اس نے عام انتخابات میں تلنگانہ کی17 لوک سبھاسیٹوں میں سے 3 پرجیت بھی حاصل کی ہے۔ حالانکہ پارٹی کی اس سے بری حالت اترپردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش وغیرہ میں ہوئی ہے۔علاوہ ازیں وہ  پنجاب، راجستھان میں داخلی انتشار سے دوچار ہے۔تلنگانہ میں کانگریس کے 12 ارکان اسمبلی کے ٹی آرایس میں شمولیت کے بعد اب کانگریس کے پاس صرف 6 ایم ایل اے رہ گئے ہیں اور اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کا حق بھی اس کے پاس نہیں بچاہے۔ 
        تلنگانہ کے قیام کے بعد 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 119 رکنی اسمبلی میں 21 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس کا ووٹ فیصد 25.2 تھا مگر 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھ کر 28.7 ہوا البتہ اسمبلی کی سیٹیں گھٹ کر 19 ہوگئیں اور اب  ان میں سے بھی 12 نے پارٹی بدل لیا ہے۔کانگریس کے جو 7 ممبران اسمبلی باقی بچے تھے،ان میں سے ایک اتم کمار ریڈی نے لوک سبھامیں جیت کے بعد اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ایم آئی ایم اصل اپوزیشن
        ٹی آر ایس پوری پلاننگ کے تحت کانگریس کو توڑنے کے مشن میں لگی ہوئی تھی  جس کی بھنک بھی کانگریس کو نہیں لگی اور اس طرح سے تقریباً پوری پارٹی خاتمے کی طرف بڑھ گئی۔ مزے کی بات یہ کہ نئی صورت حال میں،اسدالدین اویسی کی پارٹی AIMM  ممبران اسمبلی کے تعداد کے لحاظ سے ریاست کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔ حالانکہ یہ پارٹی ٹی آرایس کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد میں شامل ہے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن میں امیدوار نہیں اتارتی ہیں۔  ایم آئی ایم کے پاس اسمبلی میں سات رکن ہیں جب کہ کانگریس کے پاس صرف چھ قانون سازہیں۔ٹی ڈی پی کے پاس دواور بی جے پی کے پاس ایک ممبراسمبلی ہیں۔ادھر آندھرا اسمبلی میں کانگریس کے پاس ایک ممبر بھی نہیں ہے۔
بھاجپا کے لئے موقع
        آندھرا پردیش میں حکمراں وائی ایس آر کانگریس اصل میں کانگریس سے ہی ٹوٹ کر بنی ہے اور تقریباً پوری پارٹی جگن موہن ریڈی کے ساتھ چلی گئی تھی۔ریاست میں کانگریس نے ٹی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کیا اور اس کی پچھ لگو بن گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کا صفایا ہوگیا۔ اب آندھرا اور تلنگانہ میں اپوزیشن کی جگہ خالی ہونے کے سبب یہاں بی جے پی اپنے امکانات ڈھونڈ رہی ہے۔ سنگھی تنظیمیں یہاں بھاجپا کی جڑیں گاڑنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور اس کے ووٹ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تلنگانہ میں ایم آئی ایم اور ٹی آرایس کے بیچ اتحاد کے سبب بھاجپا کو پھلنے پھولنے میں مدد مل رہی ہے جبکہ آندھرا میں وہ کانگریس اور ٹی ڈی پی کے لیڈروں کو ساتھ لانے کی کوشش میں ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ) 

16جولائی2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا