English   /   Kannada   /   Nawayathi

جارحانہ قومیت پسندی کا نظریہ  ہندستان-2014ء میں غلط امید سے 2019ء کے بیجا تکبر تک 

share with us


عبدالعزیز
    قومیت یا وطنیت کا اگر مثبت تصور ہو اور انسانی اور تہذیبی قدروں کی پامالی نہ ہو اور انسانوں کے اتحاد اور اخوت میں معاون ہو تو قومیت یا وطنیت کوئی بری چیز نہیں ہے، لیکن اگر قومیت اور وطنیت کا جارحانہ تصور ہو اور رنگ و نسل اور تعصب کی بنیاد پر ہو تو قومیت سراسر ملک اور انسانیت کیلئے نقصان دہ ہے۔ ایسی قومیت انسانیت کے انتشار کا سبب بنتی ہے۔ قوم و وطن کمزور ہوتا ہے۔ انسانیت اور آدمیت تباہ و برباد ہوتی ہے۔ ایشیائی ممالک میں سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم وطنیت میں قومیت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے: 
ان تازہ خداؤں میں وطن سب سے بڑا ہے …… جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے 
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے …… تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے 
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے …… کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے 
اقوام میں مخلوق بٹتی ہے تو اسی سے …… قومیت انصاف کی جڑ کٹتی ہے تو اسی سے 
    علامہ اقبالؒ سامراجیت کو جارحانہ وطنیت کا ایک شاخسانہ تصور کرتے ہیں۔ قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ میرا وطن غلط ہو یاصحیح اور جھوٹی عصبیت حق و باطل میں تمیز نہیں ہونے دیتی۔ جب آدمی جھوٹ اور سچ میں فرق کرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ طرہ یہ کہ خود کو حق بجانب بھی ٹھہراتا ہے۔ 
    لاہور ریڈیواسٹیشن سے یکم جنوری 1938ء کو نشرشدہ سال نو کے پیغام میں بھی علامہ اقبال نے انسانی اتحاد و اخوت کی باتیں کی ہیں جو کہ نسلی قومیت اور رنگ و زباں سے بلند تر ہے۔ انہیں کے الفاظ میں:
    ”دورِ حاضر کو علوم عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقی پر بڑا فخر ہے۔ یہ فخر و ناز یقینا حق بجانب ہے…… آج زمان ومکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں اور انسان نے فطرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور تسخیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن ان تمام ترقی کے باوجود استبدداد نے جمہوریت قومیت اشتراکیت اور فسطائیت اور نہ جانے کیاکیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں …… ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا…… وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوعِ انسانی کی وحدت ہے نسل، زبان اور رنگ سے بالاتر ہے۔جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کے لعنتوں کو پاش پاش نہ کردیاجائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’الخلق عیال اللہ‘ کے اصول کاقائل نہ ہوجائے گا اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایاجائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہیں کرسکیں گے اور اخوت حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہئ معنی نہ ہوں گے“۔
    علامہ اقبالؒ کی طرح ٹیگور کا بھی خیال تھا کہ موجودہ قومیت کے تحت مالدار ممالک کمزور ملکوں کااستحصال کرتے ہیں اور ان پر غلبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ٹیگور قومیت کے اس تصور کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
”قوم اپنی تمام ترقوت، ترقی،اپنے جھنڈے، ترانے، عبادت گاہوں کے اندر اپنی عبادتیں،اپنی تمام ترادبی سرگرمیوں اور وطن سے محبت کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلانہیں سکتی کہ ایک قوم ہی دوسری قوم کی بربادی کاباعث ہے۔ تمام احتیاط کے باوجود ایک کی زندگی دوسرے کے خاتمہ پر منحصر ہے۔ کچھ اس طرح جیسے کچھ کیڑے مکوڑے سڑے ہوئے گوشت پر ہی پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں اور ان کا وجود اور نشودنما دوسرے کی موت پر ہی منحصر ہے“۔
علامہ اقبال کی طرح رابندر ناتھ ٹیگور بھی قومیت کو انسانیت کادشمن مانتے ہیں۔ ان کے ہی الفاظ میں:
    ”گرچہ بچپن سے ہی مجھے سکھایا گیا ہے کہ وطن کی پرستش خدا کی عبادت اور انسانیت سے بہتر ہے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ یہ نظریہ غلط تھا۔ میرے ہم وطنوں کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ ایسی تعلیم کی مخالفت کریں جو یہ سکھاتا ہے کہ ملک وقوم انسانیت سے مقدم ہے“۔
    کل ہند قومی کانگریس کی ایک ممتاز لیڈر،1925ء میں اس کی صدر اور مشہور مجاہد آزادی بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈو (1879ء 1949ء) نے اسی انداز میں اپنے خیالات کااظہار کیا ہے کہ:
    ”علامہ اقبال کی شاعری نے میری روح کو تنگ نظرقومیت کے جذبہ سے آزاد کرتے ہوئے پوری کائنات سے محبت کے جذبہ سے سرشار کردیا“۔ افسوس کہ ان عظیم شخصیتوں کی باتوں پر گندی اور فرقہ پرستانہ سیاست پانی پھیر رہی ہے۔ 
    آج (15جون) انگریزی روزمانہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں پرنب پردھان نے جو کیلیفورنیا یونیورسٹی کے شعبہئ معاشیات میں پروفیسر ہیں ان کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ 2019ء میں یقینا نریندر مودی کو انتخابی میدان میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔جس طرح کامیابی ملی ہے اس سے ہندستان اور ساری دنیا واقف ہے۔ بہتوں نے ان کی مدد کی ہے۔ اور غیر متوقع طور پر مسعود اظہر کا دہشت گردانہ واقعہ بھی مودی کیلئے بطور تحفہ ثابت ہوا۔ مودی کی جیت ہوئی لیکن ہندستان ہار گیا۔ اس لئے کہ 2014ء کے بعد ملک میں جو خرابیاں اور فسادات رونما ہوئے تھے اس کے آثار پھر نظر آنے لگے۔ ان لوگوں کو حیثیت دی جارہی ہے جو تشدد اور بریریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جیسے یوگی ادتیہ ناتھ یا پرگیہ ٹھاکر۔آگے کی سطروں میں انھوں نے لکھا ہے کہ بہت سے بے روزگار نوجوانوں نے انتخابی مہم کے دوران رپورٹروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ ہم بے روزگار ہیں لیکن مودی نے ہم سب کو یقین دلایا ہے کہ اقوام متحدہ میں ہندستان کا مقام و مرتبہ بڑھے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے خیالات ہی نے ووٹروں کو نریندر مودی کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا، لیکن افسوس جو لوگ ہندستان کے باہر نہیں رہتے انھیں معلوم نہیں ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ہندستان کا وقار گرگیا ہے۔ 2014ء ہی سے ہندستان کا نمبر تیزی سے گرنا شروع ہوگیا۔ مسلمانوں پرہجومی تشدد کا حملہ، دلتوں پر جبر و ظلم، یونیورسٹیوں میں اختلاف و انحراف کی وجہ سے غنڈہ گردی اور جارحیت جو وارداتیں ہوئیں اس سے ملک کا وقار بڑھا نہیں گھٹا ہے۔ سنگھ پریوار خاص طور پر مودی کی طرف سے ہندو سنسکرتی کے دور میں جو پلاسٹک سرجری، ٹیسٹ ٹیوب بے بیز اور گائے کے پیشاب سے کینسر کا علاج ایسی باتیں ہوئی ہیں جن سے ہندستان کا نام آتے ہی لوگ ہنستے ہیں۔ 
    مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ہندستان کا وقار تکثیری معاشرے، جمہوریت اور دستوری قومیت کی وجہ سے ہے۔ خود مودی جی فرماتے ہیں کہ دستور ان کی مقدس کتا ب ہے۔ مگر یہ سب خالی خولی باتیں ہیں۔ صداقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی پارٹی ممبران اور ہمدردان قانون اور دستور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اکثریت ازم یا اکثریت پرستی جمہوریت نہیں ہے۔ میں فرید زکریا سے لے کر دکتور اوربن کی طرح ہندستان کی جمہوریت کو غیر حریت پسند جمہوریت تو نہیں کہتا لیکن جمہوریت ہندستان میں اپنی قدر کھوچکی ہے۔ 20 کروڑ لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری بناکر رکھ دیا گیا ہے اور مودی کی انتخابی جیت کی وجہ سے ساری طاقت ایک آدمی میں سمٹ کر آگئی ہے۔ چیک اور بیلنس نام کی چیز ختم ہوگئی ہے۔ آزادیِ رائے انحراف و اختلاف کرنے والوں کی خیر نہیں۔ پولس، بیوروکریسی، ٹیکس اور تفتیشی ایجنسیاں حزب مخالف کے لیڈروں کو مقدمات کے جال میں پھنسانے میں مصروف ہیں۔ اس سے ہندستان کی جمہوریت اور دستور کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ ہندستان کی سب سے بڑی جمہوریت قابل شرم ہوتی جارہی ہیں۔
     مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:"If the victory in 2014 was partly based on false hope, then that of 2019 seems based on false pride."
    (اگر 2014ء میں کامیابی جزوی طور پر غلط امیدوں پر مبنی تھا تو 2019ء کی کامیابی تکبر بیجا پر مبنی ہے۔)


 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا