English   /   Kannada   /   Nawayathi

بحریہ حادثے اور نکسلی حملے:...قومی سلامتی کے لیے سوالیہ نشان

share with us

وزیر دفاع جوشی استعفی کو کافی سمجھ کر مطمئن ہو گئے ،جبکہ وزیر داخلہ نے یہ بیان دے کر اپنی ذمہ داری پوری کردی کہ جوانوں کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا،اپنی ذمہ داریوں اور فرائض میں ہوئی غفلت پر پردہ ڈالنے کے لئیاستعفی اور سیاسی بیان بازیوں کا کھیل نہ معلوم کب سے چل رہا ہے،البتہ اتنا ضرورہے کہ اب تک یہی سب سے کارگر ہتھیار بھی ثابت ہوتارہا ہے۔استعفی کے بعد سبھی گناہ مٹ جاتے ہیں اور بیان جاری کرنے کے بعد وزارت بچی رہتی ہے ۔ اس سے ایک سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان حادثات کی اصل وجوہات کی جانب سے ذہن ہٹ جاتا ہے اور ذمہ داران زیڈ پلس سکیورٹی میں آرام کے ساتھ قوم کا غم کھاتے رہتے ہیں؛لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ان جھوٹے وعدوں اور استعفی کے نام پر مگر مچھ کے آنسووں پر اپنے جوانوں کی قیمتی جانیں قربا ن کرتے رہیں گے ، اب وقت آگیا ہے کہ عوام ان سے حساب مانگیں اور اس طرح کے واقعات کے پس پردہ چھپی وجو ہات کے بارے میں جانیں اور ان کی سچائی کا پتا لگائیں،پھریہ عملِ احتساب صرف بحریہ کے سربراہ تک محدود نہیں ہونا چاہئے ، اس کے لئے وزارتِ دفاع میں اہم عہدوں پر بیٹھے سیکرٹریوں ، وزیر دفاع اور دوسرے سیاسی ذمہ داران کو بھی جوابدہ بنایا جائے ، کیونکہ اکثر جن مسائل سے مسلح فوج کو روبرو ہونا پڑتا ہے ان کے لئے اُن ذمہ داروں کی لاپرواہی اور فیصلے کرنے میں غیر ضروری تاخیر اہم کردارادا کرتی ہے ۔ ایسا خاص طور پر دفاعی آلات اور ان کے کل پرزوں کی خریداری کے معاملے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے جوانوں کی زندگی خطرے میں پڑتیہے ۔ حالیہ آبدوز حادثے میں ہلاک بحریہ کے ایک افسر کے بھائی نے بھی یہی بات دہرائی ہے ۔ متعلقہ افسر نے اپنے خاندان سے کہا تھا کہ جس آبدوز پر اسے تعیناتی دی گئی ہے ،وہ صحیح حالت میں نہیں ہے ۔
یہی حال چھتیس گڑھ کا ہے، جہاں نکسلیوں نے گھات لگا کر مسلح فوج کے16جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، یہ علاقہ خطرناک اور پہاڑی سلسلوں والا جنگلی علاقہ ہے،یہاں پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حفاظتی ذمہ داریاں ادا کررہے جوانوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے ،ان میں سب سے اہم ہے اس علاقے میں ٹیلی کام کے رابطے کا بے حد خراب ہونا، اس علاقے میں سیکورٹی خدمات انجام دے رہے دستے کئی سالوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہاں موبائل نیٹ ورک لایا جائے ، انہوں نے کئی بار کہا ہے کہ رابطے کی کمی سے آپریشن متاثر ہوتے ہیں،قریب 4 سال بعد کسی کی نیند کھلی اور’ ریڈ کوریڈور‘ میں ایک پراپر موبائل نیٹ ورک قائم کرنے کا خاکہ تیار کیا گیا ، لیکن ہمارے بے حس یا یوں کہیں کہ بدعنوان رہنماؤں نے یہ ساری فریادیں ان سنی کر دیں۔ گزشتہ سال مئی میں کانگریس قیادت پر حملے کے بعدیہ چیزیں آگے بڑھنے لگیں یا ہمیں لگ رہا تھا کہ آگے بڑھ رہی ہیں ، آخر 4 جون کو اسے کابینہ کی منظوری بھی مل گئی، آئندہ 12 ماہ میں اس نیٹ ورک کو چالو کیا جاناتھا ،لیکن یہ پرپوزل پھر ٹھنڈے بستے میں پہنچ گیا ہے، کیونکہ اس پرپوزل کو کسی کمیٹی کو ریفر کیا گیا ہے ، جو دیکھے گی کہ جن پرائیویٹ کمپنیوں نے اس کے لئے بولی لگائی ہے ، کیا وہ ان جگہوں پرپرائیویٹ اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے لگائے جانے والے ٹیکس کو برداشت کر سکتی ہیں ،اس طرح کی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ پرپوزل لٹکا رہا۔تاہم کابینہ نے ایک فیصلہ لیا تھا اور گزشتہ سال دسمبر میں وزیر اعظم نے بھی ٹیلی کام سمٹ کے دوران وعدہ کیا تھا کہ نکسل تشدد سے متاثر علاقے میں 2,200 ٹاورز والا موبائل نیٹ ورک لگایا جائے گا ، جس کے لئے USO فنڈز استعمال ہوگا۔ اس معاملے میں مزید تاخیر کرنا آسان نہیں تھا ۔ اس کے لئے بہتر طریقہ یہی تھا کہ فنڈ کو کم کر دیا جائے ، تاکہ کسی طرح بھی پروجیکٹ کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ اس طرح سے پلان نہ صرف لٹک سکتاہے ، بلکہ ایک بار پھر سے بولی لگوائی جا سکتی ہے۔اس بات کی بھی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جو لوگ ملک کے لئے آلات اور دیگر سامان خریدتے ہیں ۔ انہیں یہ لوگ کس طرح مینج کرتے ہیں ؟سابقہ حفاظتی سودوں میں ہوئی بد عنوانیوں کی تو بات ہی کرنی فضول ہے۔ حالیہ واقعہ میں اگستا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر سودے کارد کیا جانا ہم سب کے سامنے ہے۔اس سودے میں بڑے بڑے نام آئے لیکن اب تک کوئی ٹھوس کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔یہ ایک ایسی کہانی ہے ، جو گھناؤنے طریقے سے بار بار دہرائی جاتی ہے اور ہم کچھ نہیں سمجھ پاتے۔یا سمجھ کر بھی کچھ نہیں کر پاتے۔
یہی حال بحریہ کا ہے عام طور پر مرکزی حکومت کسی دفاعی سودے کو حتمی شکل دینے میں 10 سے 15 سال لگا دیتی ہے۔ بحریہ کا فی الحال 25 آبدوز لینے کا منصوبہ ہے ، لیکن ممبئی میں اسکارپین آبدوز کی تعمیر میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ عالمی ٹینڈر میں تاخیر کی وجہ سے چھ اور آبدوزوں کی خریداری میں بھی تاخیر ہو رہی ہے ۔ اس سے ملک کی بحری صلاحیت کی مضبوطی میں کمی آئی ہے ۔کیگ برسوں سے اس کی جانب توجہ دلاتا رہا ہے۔ اس نے دفاعی آلات کی خریداری میں تاخیر اور استعمال میں لائی جا رہی بیٹریوں کی دیکھ بھال میں کمی پر سوال اٹھایا تھا ۔ باوجود اس کے بحریہ کے ذمہ داران تین سالوں تک سو ئے رہے اور اس دوران انہیں تبدیل کرنے کی وارنٹی بھی ختم ہو گئی ۔ اس طرح کل پرزوں کی غیر موجودگی میں بحریہ کو پرانے سامانوں سے ہی کام چلانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی کیگ کی حالیہ رپورٹ سے کچھ تشویش ناک باتیں سامنے آتی ہیں ۔ اس میں بحریہ کی آپریشنل صلاحیت پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق بحریہ میں شامل 50 فیصد بحری جہازوں کو ریٹائر ہوئے 20 سال گزر چکے ہیں ۔ اس وجہ سے فوجی جہاز انتظامیہ پر انتہائی دباؤ ہے ۔ چونکہ دوبارہ مرمت کے کام میں بہت خرچ ہوتا ہے اس لئے سی اے جی کی طرف سے اس بارے میں حکومت کو متوجہ کرنے کے بعد بھی مرمت کے کاموں میں غیر ضروری تاخیر کی جا رہی ہے ، جس کا اثر بحریہ کی آپریشنل صلاحیت پر پڑ رہا ہے۔ اس کا ذکر خود بحریہنے 1999 میں اپنی رپورٹ میں کیا تھا ۔ یہ بھی کم المناک معاملہ نہیں کہ دہائیوں بعد بھی وہی مسئلہ جوں کا توں ہے ، جس کی جانچ کنندگان نے بہت پہلے نشاندہی کی تھی۔ حالیہ آبدوزوں میں ہوئے مسلسل حادثوں کے بعد میڈیا میں آئی خبروں نے بحریہ کی خامیوں کی جانب اشارہ کیا ہے جس نے عوام کوبھی اپنی طرف متوجہ کردیاہے۔ دراصل بحریہ کے سامنے موجود مسائل میں ضروری آلات کی عدم دستیابی ، آلات کامناسب استعمال نہ کیا جانا ، دیکھ ریکھ کی قابل رحم حالت اور فوجی سازو سامان کے معاملے میں جگاڑ سے کام چلانے کے رجحان کا نتیجہ المناک واقعات کے طور پر ہمارے سامنے ہے ، لیکن حیرت انگیز طور پر نہ تو وزارت دفاع میں بیٹھے اعلی نوکر شاہوں نے اور نہ ہی سیاسی لیڈروں نے اس کی ذمہ داری لینے کی جرات دکھائی ، جبکہ ان سب کے لئے بنیادی طور پر وہی جوابدہ ہیں۔
گزشتہ 6مہینوں سے مسلسل حادثات کی مار جھیل رہی بحریہ کے لئے یہ وقت نہایت ہی قابل توجہ ہے ۔ ایک ایسے وقت میں ،جب کہ پوری دنیا میں ہتھیاراکٹھاکرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ،خاص کر ہمارے پڑوسی مما ملک میں ، جہاں سکورٹی کی صورت حال سنگین ہے ،بحریہ کا مسلسل حادثوں سے دو چار ہو نا ہمارے حق میں اچھی علامت نہیں ہے ۔ساتھ ہی نکسلیوں کے بڑھتے حوصلے بھی داخلی سکورٹی کے لئے چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ملک کے مختلف حصوں میں آئے دن نکسلی حملے اور سکورٹی جوانوں کی ہلاکت سے اس بدعنوان اور نکمے نظام پر سوال اٹھنا فطری ہے، جو ہمارے سیکورٹی جوانوں کو دشمن سے لوہا لینے کے لئے ذرائع اور سہولیات دینے میں ناکام رہا ہے۔ اسی وجہ سے دشمن کا پلہ ہم سے بھاری ہو گیا ہے ، اور ہمارے جوانوں کی ہلاکت کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔سوال یہ ہے کہ نکسلی حملے میں ہزاروں جوانوں اور سیاست کے پورے کے پورے کنبے کی ہلاکت کے بعدبھی ہم بیدار نہیں ہو رہے ہیں ،آحر ہمیں کس صور اسرافیل کا انتظار ہے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا