English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں کو اپنی سیاسی جماعت اور قیادت کی ضرورت کیوں؟

share with us

امام الدین علیگ

ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک 72 برسوں کے طویل عرصے کے دورانیے میں مسلمانوں کی پوری سیاسی حکمت ِ عملی صرف اسی ایک نکتے پر منحصر رہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے ۔ اسی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے اس دورانیہ میں ہر اس پارٹی کا دامن تھاما جس نے فرقہ پرست طاقتوں کی مخالفت کی یا مخالفت کرتی ہوئی نظر آئی۔ ان پارٹیوں میں کانگریس سرفہرست رہی ہے ۔ اس کے بعد کئی علاقائی پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کا ووٹ پانے کے لیے یہی سیاسی حربہ استعمال کیا اور مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے نہایت آسانی سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان پارٹیوں میں سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، ترنمول کانگریس ، بائیں بازو کے علاوہ اور بھی کئی پارٹیوں کا نام شامل ہےجن کو ملک کے مسلمان فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لئے ووٹ دیتے اور ان کی جیت پر جشن مناتے چلے آرہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس سیاسی حکمت عملی کے غلط یا صحیح ہونے کی بحث سے صرف ِنظر جب ہم اس حکمت عملی کے نتیجے پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 72برسوں کے بعد آج فرقہ پرست طاقتیں کمزور ہونے کے بجائے ملک کی سب سے مضبوط طاقت بن چکی ہیں اور مسلمان تعلیمی، اقتصادی، سماجی، سیاسی اور روزگار سمیت ہر ایک اعتبار سے پسماندگی کے سب سے پائیدان پر پہنچ چکا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد مسلمانوں کو مضبوطی فراہم کرنا تھا بھی نہیں، بلکہ تحفّظ فراہم کرنے کے ساتھ مسلمانوں کے حالات کو جوں کہ توں برقرار رکھنا تھا، سو وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوا، تحفّظ کے بجائے ہزاروں دنگوں، قتل عام اور محرومیوں کی شکل میں ظلم و نا انصافی ملی، اور قاتلوں اور فرقہ پرستوں کو سزا ملنے کے بجائے شہ اور پشت پناہی ملی۔

جن سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے فرقہ وارانہ طاقتوں کو ختم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا، انھیں پارٹیوں نے گزشتہ 72 برسوں کے دوران الٹا فرقہ پرست طاقتوں اور فسادیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انھیں پالنے پوسنے کا کام کیا جب کہ مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرتے ہوئے ، اُنہیں سہولیات، روزگار اور سازگار حالات سے محروم کرتے ہوئے دلتوں سے بھی نیچے پہنچا دیا۔ یعنی 72 برسوں سے مسلمانوں نے فرقہ وارانہ طاقتوں (بی جے پی اور دیگر) کو روکنے کی جو حکمت عملی اپنا رکھی تھی، وہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی اس حکمت عملی کے نتیجے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج قومی سیاست میں نہ تو مسلمانوں کا کوئی کردار ہے اور نہ کوئی اُنکا نام لیوا ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس پھل پھول کر اتنی بڑی طاقت بن گئی ہے کہ وہ سینہ ٹھوک کر خود کو دنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن ہونے کا دعوی کر رہی ہے۔

در اصل اصولی طور پر جمہوریت میں اکثریت کو ہرانا یا روکنا نہ اقلیت کے بس کا ہے اور نہ ہی یہ انکی ذمّے داری ہے۔ یہ صرف اکثریتی آبادی ہی طے کر سکتی ہے کہ وہ اپنے بیچ سے سیکولر یا کمیونل جیسے چاہے اقتدار سونپ دے، اقلیتی آبادی اس سلسلے میں چاه کر بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ یعنی ملکی سیاست کا جو سرا ہمارے اختیار اور پہنچ سے مکمل طور پر باہر تھا، اُسے ہی ہم نے اپنی سیاست کا موضوع اور محور بنا لیا! ویسے بھی محض کسی کو روکنے کی حکمت عملی اپنےآپ میں ہی منفی اور ناقص حکمت عملی ہے ۔ یہ حکمت عملی دفاعی پوزیشن میں ہونے کے ساتھ مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں دکھاتی ۔ اس حکمت ِ عملی کی اتنی بڑی ناکامی کے بعد بھی آج کا مسلمان فرقہ پرست طاقتوں کے خوف سے غیروں کی قیادت والی پارٹیوں کو ووٹ دے رہا ہے جو کہ باعثِ حیرت ہے۔

موجودہ صورتحال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات پائے ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اب بی جے پی ، آر ایس ایس اور ان جیسی دیگر پارٹیوں اور تنظیموں کو ہرانے، اُن سے ڈرنے اور ڈرانے کا اب کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ اس لیے کہ مبینہ سیکولر پارٹیوں کی آر ایس ایس کے سامنے اس وقت کیا حیثیت رہ گئی ہے وہ سب کے سامنے ظاہر و عیاں ہے۔ ویسے بھی ان مبینہ سیکولر پارٹیوں کے بیان اور منشا میں کھلا تضاد اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔ خود آر ایس ایس کے لیڈران ذرائع ابلاغ میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی اور کانگریس ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ سکتے۔ باقی عمل اور رزلٹ سے یہ بات بہت پہلے ثابت ہو چکی کہ ان میں سے کسی بھی پارٹی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے، قدغن لگانے اور انکی روک تھام کرنے کا نہ تو ارادہ ہے، نہ حوصلہ ہے اور نہ ہی کسی میں اتنی طاقت ہے۔

یہ سارے حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود مسلم تنظیموں، دانشوروں اور پڑھے لکھے طبقے کا یہ حال ہے کہ محض بی جے پی اور آر ایس ایس مخالف بیانات پر یہ غیروں کی قیادت پر لٹو ہو جاتے ہیں اور اپنی کمیونیٹی کو اعصاب شکن دہشت میں مبتلا کرکے اُنہیں اپاہج بنانے پر تل جاتے ہیں! وہیں جب بھی کوئی مسلم قیادت والی پارٹی سر اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تو دن رات سیکولرزم اور کمیونل ازم کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی اُن افواہوں کو حرف آخر مان کر یقین کر لیتے ہیں کہ وہ پارٹی یا مسلم قیادت بی جے پی کی ایجنٹ، دلال ہے، بکاؤ ہے۔ اور پھر، سب مل پر اسی بے بنیاد اور لا یعنی حکمت عملی پر چلنے لگ جاتے ہیں کہ مسلم قیادت والی پارٹی کو ووٹ دینے سے بی جے پی جیت جائے گی۔ مسلمانوں کی سادہ لوحی یا سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ محض اتنی سی بات پر مسلمان اپنی قیادت سے بدظن ہوجاتے ہیں اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں ۔ جبکہ بی جے پی کے جیتنے اور هارنے سے مسلمانوں کے حالات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ہے۔

اہون البلیتیں (دو مصیبتوں میں سے کمتر مصیبت کو چننے کے اصول) کا شور مچانے والے تنگ نظر لوگوں کو دیرپا فوائد کے لیے جز وقتی نقصان اور وقتی مشکلات کو برداشت اور نظرانداز کرنے کی حکمت سمجھ نہیں آتی۔ جب کہ یہ بھی پتہ ہے کہ یہ سیکولر اور کمیونل مسلمانوں کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچاتے اور ڈراتے رہیں گے کہ وہ کبھی متحد نہ ہو سکیں یا پھر انہیں سکون سے بیٹھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرنے کی فرصت نہ مل سکے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اب، آر ایس ایس اور بی جے پی سے ڈرنے و ڈرانے کے کھیل کا حصہ بننے کے بجائے اس ذلت اور دہشت سے باہر نکلنے اور اپنے عروج کے لیے غور و فکر کریں۔

 سیاسی بحران سے ملک کے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے ایک مناسب اور قابل عمل حل یہ کہ مسلمان دیگر مذہبی اقلیتوں بلکہ جنوبی ہندی کے مسلمانوں کی طرح اپنی قیادت قائم کرنے اور اسے مضبوط کرنے میں لگ جائیں۔ اگر مسلمانوں نے ہار اور جیت کے انجام سے بےپروا ہو کر ایک دو دہائیوں تک مستقل مزاجی سے اپنی قیادت کا ساتھ دے کر دکھا دیا تو یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے وقت میں مسلمانوں کے پاس بھی اپنی سیاسی طاقت اور ’پریشر گروپ ‘ہوگا اور ملک کی نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں سے ان کی شرائط پر اتحاد کرنے پر مجبور ہوں گی۔ لیکن اس کے لیے وقتی پریشانیوں اور جزوی نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنی اُبھرتی سیاسی پارٹیوں کے لیے اپنا ووٹ وقف اور انویسٹ کرنا ہوگا۔ اسی ایک طریقے سے ہی مسلمانوں وقار کی زندگی اور ملکی سیاست و اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کر سکتے ہیں۔

اپنی قیادت کھڑی کرنے کے سوال پر کچھ مسلمانوں اور مبینہ سیکولر دانشوروں کو اکثر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر مسلمان اپنی سیاسی پارٹی بناتا ہے یا کسی مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی کا متحد ہوکر حمایت کرتا ہے تو اس سے ملک میں فرقہ واریت میں اضافہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے !اگر اس خدشے کو صحیح مان بھی لیا تو بھی کچھ ایسے سوالات اٹھتے ہیں جو اس خدشے کو بے بنیاد ثابت کرتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ آپ کے سیاسی طور پر متحد ہونے سے ہندو بھی یکجٹ ہو جائیں، ایسا ضروری نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں پہلے سے کئی بڑی اور مستحکم پارٹیاں موجود ہیں جو کسی بھی قیمت پر اپنا وجود ختم نہیں ہونے دیں گی۔ لیکن مسلمانوں کے پاس کوئی بڑی مستحکم پارٹی نہیں ہے اور آپ کے پاس اس خلا کو پُر کرنے کا موقع ہے۔

دوسری بات یہ کہ مظلومی اور محرومی کی حقیقی بنیاد پر متحد ہونا آسان ہے۔ یہ بنیاد آپ کے پاس ہے ان کے پاس نہیں۔

تیسری بات یہ کہ بڑی یونٹ کے مقابلے، چھوٹی یونٹ کا متحد ہونا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ آبادی کی بڑی یونٹ کا طویل وقت تک متحد رہ پانا ناممکن ہے۔ جب کہ چھوٹی یونٹ کے لیے یہ ممکن ہے۔

چوتھی بات یہ کہ اگر آپ کے ردعمل میں ہندو اکثریت متحد ہو بھی جائے گی تو بھی یہ مسلمانوں کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا، کیوں کہ دونوں طرف مذہبی بنیاد پر ووٹوں کا ارتکاز ہونے کی صورت میں کم از کم آپ اپوزیشن میں تو ہوں گے ۔ جب کہ اس وقت آپ کہیں بھی نہیں ہیں۔

 اہم بات یہ ہے کہ اپنی پارٹی بنانے اور مذہبی بنیاد پر سیاست کرنے میں بہت فرق ہے۔ بہتر ہوگا کہ مسلمان، برہمن، دلت اور یادو کی طرز پر خود کو ایک کمیونٹی سمجھیں اور کمیونٹی کی بنیاد پر اپنی سیاسی قیادت قائم کریں/مضبوط کریں۔ سرگرم سیاست آپ کا آئینی حق ہے، اس حق سے دستبردار ہونا بڑی غلطی ہے۔ آپ سے صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ اپنی پارٹی اور اپنی قیادت کھڑی کریں مگر مذہب پر مبنی سیاست سے دور رہیں، بلکہ انکلوزیو سیاست کریں۔

 اہم سوال یہ کہ کیا مسلمانوں کو اپنی بربادی کی قیمت پر فرقہ ورایت کو روکنا مناسب ہوگا؟ دراصل مسلمانوں کو اپنی سیاسی قیادت قائم کرنے کے سوال پر اعتراض کرنے والوں کو سیکولرازم اور فرقہ پرستی کا حقیقی مفہوم ہی نہیں پتہ ہوتا ہے۔ فرقہ پرستوں نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اگر ملک کا مسلمان اپنی قیادت کے علاوہ کسی اور مذہب یا فرقہ کی قیادت والی پارٹی کے پیچھے چلتا ہے تو وہ سیکولر ہے لیکن اگر مسلمان اپنی قیادت قائم کرنے یا اس کی حمایت کرنے کی کوشش کرے تو وہ فرقہ پرست ہے ! اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ملک کا مسلمان غیروں کی قیادت کو اپنا سکتا ہے اور ان کے پیچھے چل سکتا ہے لیکن برادران وطن مسلم قیادت کو نہ تو اپنا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے چل سکتےہیں۔ اس وقت ملک میں رائج سیکولر ازم کا مجموعی طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے۔ دوسری جانب فرقہ پرستی کا حقیقی مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اپنی کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کے مفادات کی مخالفت کی جائے ۔ اس کے برخلاف ملک کا مسلمان صرف اپنے ہی نہیں ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی سیاسی قیادت کھڑا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کسی دوسرے کے مفادات، جائز مطالبات اور انکی ترقی کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔

ملک میں رائج سیکولر ازم کی مقبول و معروف تشریح کے مطابق تو ملک کی ہر سیاسی پارٹی فرقہ پرست کہی جانی چاہئے کیونکہ ہر پارٹی کی قیادت کسی نہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتی ہی ہے۔ اسی کے ساتھ ہر پارٹی کی یہ جمہوری مجبوری بھی ہے کہ پارٹی کو قائم کرنے کے لئے ابتدا ء میں بنیادی ووٹ بینک بنانے کے لئے اسے اپنی کی کمیونٹی کے مسائل پر سیاست کرنی ہی پڑتی ہے اور ملک کی ہر پارٹی نے اپنے ابتدائی ایام میں یہی کیا ہے۔ جب پارٹی قیادت اپنے بنیادی ووٹ بینک یعنی اپنی کمیونٹی کی طرف سے مطمئن ہو جاتی ہے تب ہی وہ دیگر کمیونٹیز کے مسائل پر بات کرتی ہے ۔

اب تک مسلمانوں کا حال یہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنے بیچ سے اٹھنے والی کسی بھی قیادت کا متحد ہو کر اور استقلال کے ساتھ کبھی ساتھ ہی نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیڈرشپ ابھی تک اپنی ہی کمیونٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے ۔ قومی سیاست میں جگہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیڈرشپ صرف مسلمانوں کے جذباتی مسائل پر سیاست نہ کرے بلکہ دیگر کمیونٹیز کے مفادات کو بھی سامنے رکھے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب مسلمان بھی بحیثیت ِ مجموعی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے دلتوں کی طرح اپنی قیادت کا ساتھ دیں اور مسلم لیڈرشپ اپنی کمیونٹی کی جانب سے پوری طرح مطمئن ہو۔

ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ عملی میدان میں لفظ ’’”سیاست” ‘‘اور ’’ “قیادت” ‘‘ میں بہت بڑا فرق ہے! بھلے ہی لغوی طور پر لفظِ سیاست کے معنی قیادت کرنا ہو لیکن عملی طور پر سیاست کے معنیٰ کچھ اور ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ بیوقوف بنانے کا ایک فن ہے۔

ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیاں قیادت صرف اپنی کمیونٹی کی ہی کرتی ہیں جو کہ ان کا بنیادی ووٹ بینک ہوتے ہیں جب کہ وہ دوسروں کے ساتھ یا دوسروں کے مسائل پر صرف سیاست کا کھیل کھیلتی ہیں ۔ اس گندی اور استحصال پر مبنی کی سیاست میں تمام پارٹیاں شامل ہیں۔ بی ایس پی دلتوں کی ، ایس پی یادو کی، بی جے پی اور کانگریس اعلیٰ ہندو ذاتوں کی قیادت کرتی ہیں لیکن یہ سب کی سب ساتھ میں مسلمانوں کے ساتھ اور ان کے مسائل پر صرف اور صرف سیاست کرتی ہیں۔ اگر مسلم لیڈرشپ کو اصل دھارے اور قومی سیاست میں آگے آنے کا موقع دیا گیا تو سیکولر ازم کی آڑ میں استحصال کی یہ روایت ٹوٹ سکتی ہے ورنہ مسلمانوں کے سیاسی حالات میں دور دور تک کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا ہے ۔ اگر مسلمانوں نے دور اندیشی سے کام لے کر اپنی سیاسی قیادت کا ساتھ دے کرانھیں مضبوط نہیں کیا تو یہی مجبوری ان کا مقدر بنی رہے گی کہ وہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو بدل بدل کر آزماتے رہیں اور مناتے رہیں غیروں کی جیت کا جشن ۔ کہاوت ہے کہ ’’”بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ!‘‘

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

03اپریل2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا