English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں کے مطالبات وہی ہیں، جو سواصدی قبل تھے

share with us

عارف عزیز(بھوپال)

 جن پریشانیوں اور تکلیفوں یا جن محرومیوں اور حق تلفیوں کا ہندوستانی مسلمان بحیثیت مجموعی عرصہ سے شکار ہے مسلم قوم کے تمام ذی شعور اصحاب ان سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ وہ حالات کے نشیب وفراز پر زیادہ نظر رکھتے ہیں جبکہ ایک عام آدمی پر کسی امتیازی سلوک ، بے نیازی اور حقارت کا رد عمل شدید نہیں ہوتا کیونکہ وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کو بدلنے کا تصور بھی اس کے ذہن میں نہیں ہوتا، نہ ہی کسی بڑی کوشش کی افادیت اور اثرات کی پیچیدگیوں اور نتائج سے اس کا زیادہ سروکار ہوتا ہے۔ 
لیکن حالات ناسازگار ہوں تو مایوسی جھلاہٹ اور نری جذباتیت سے کام چلتا نہیں بلکہ ان کو بدلنے کی تگ ودو بھی نہ ہو تو حالات مزید خراب ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ معمولی پریشانی یا انفرادی مسائل ہوں تو اجتماعی تعاون سے انہیں بھی دور کیا جاسکتا ہے مگر معاملہ پوری قوم یا ملت سے وابستہ ہوتو تعاون سے کہیں زیادہ کوشش اور جدوجہد کی ضرورت پیش آتی ہے اور صرف جدوجہد ہی نہیں اس کے لئے صحیح سمت اور درست راہ اختیار کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔
آزادی کے بعد کے ۷۱ برسوں کی طویل مدت سے ہندوستان کی مسلم سیاست ملت کے مسائل حل کرنے کا عزم لئے مستقبل کی طرف گامزن ہے لیکن آج تک اسے منزل مقصود تک پہونچنا نصیب نہ ہوا، حالانکہ سات دہائیوں پر مشتمل یہ مدت معمولی نہیں ہوتی، اس عرصہ میں دنیا کتنے انقلابات سے دوچار ہوچکی ہے، خاکی انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں، قومیت کے رنگوں میں علاقائیت کے گدلے رنگ کی آمیزش ہوگئی، دنیا نے نت نئے فلسفے اور تصور تخلیق کرلئے، ملکوں کی سا لمیت میں شگاف پڑگئے، تاریخ اور مذہب کے بعد اخلاق کی مسلمہ روایتیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں، تاہم مسلم اقلیت پر اس سارے عمل کا کوئی ردعمل نظر نہیں آتا، زمانے کے حوادث اور تبدیلیوں کا اس پر بظاہر کوئی اثر نمودار نہیں ہوا، اس کی ضرورتیں، اس کی تکالیف ، اس کے مسائل اور اس کے غور وفکر کے پیمانے وہی ہیں جو سات دہائی قبل تھے، جبکہ اس کے ارد گرد کی فضا اور ماحول میں زمین وآسمان کا فرق ہوگیا ہے، پس منظر تو کجا پیش منظر اور قریب ترین مناظر تک میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں، لیکن مسلمانوں کے اپنے حالات بالکل غیر متاثر اور غیر متحرک نظر آتے ہیں۔ آج بھی ان کے مطالبات تقریباً وہی ہیں جو سوا صدی قبل تھے یعنی ایک زبان جس کے ذریعہ وہ اپنی ذہانت وقابلیت کے جوہر دکھاسکیں ، ایک تہذیب جو ان کی شناخت قائم رکھ سکے، ایک یونیورسٹی جو ان کی تعلیم وتعلم کا بوجھ اٹھاسکے، سرکاری نوکریاں جن میں تناسب کی گارنٹی ہو، لیکن غور کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی بدعملی، بے حسی اور کم نگہی کس طرح دور ہو اس بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں، سب چاہتے ہیں کہ اردو زبان پھلے پھولے، مذہب وتہذیب کا تحفظ ہو اور ملازمتوں میں حصہ ملتا رہے مگر خود مسلمانوں کو کچھ نہ کرنا پڑے۔ جبکہ موجودہ حالات میں یہ دن بدن ناممکن نہیں تو محال ضرور ہورہا ہے۔ 
سوچنے کے اس انداز ، کام کرنے کے اس طریقے سے مستقبل میں کام چلنے والا نہیں آگے مسلم قوم کو زندہ رہنا یا کچھ کرکے دکھانا ہے تو اسے میر کارواں بننے کے بجائے محنت کش بننا پڑے گا، الفاظ وجذبات کا دریا بہانے کے بجائے عمل کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا، دوست ودشمنوں کے پہچاننے کے پرانے پیمایوں کو بدلنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر دوسروں سے تحفظ کی خواہش کے بجائے خود اقدامیت سے کام لینا پڑے گا تبھی مسلم اقلیت کے شام وسحر تبدیل ہونگے۔(یو این این)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
19؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا