English   /   Kannada   /   Nawayathi

جھارکھنڈ حکومت نے پی ایف ائی پر ایک بار پھر لگائی پابندی ،تنظیم پر آر ایس اور بی جے پی مخالف ہونے کا بھی الزام

share with us

جھارکھنڈ:13؍فروری2018(فکروخبر/ذرائع) جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے ایک بار پھرسیاسی، سماجی، اقتصادی اور دیگر اہم ترین محاذ پر منظم انداز میں کام کرنے والی ملک کی اہم ترین تنظیم​​​​​​​ پاپولر فرنٹ آف انڈیا( پی ایف آئی) پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی کریمنل لا امینڈمینٹ ایکٹ 1908 کی دفعہ 16 کے تحت لگائی گئی ہے۔ پابندی کو لے کر ریاست کے محکمہ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس میں پی ایف آئی کو ریاست اور ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرناک بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسے ریاست اور ملک میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور سیکولر ڈھانچہ کو پارہ پارہ کرنے والی طاقت سے تعبیر کیا گیا ہے۔  تنظیم پر لگے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے  تنظیم کاکہنا ہے کہ ہماری بڑھتی ہوئی سیاسی اور سماجی طاقت سے خوف زدہ ہو کر یہ سب سازشیں رچی جارہی ہے ۔کسی بھی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پی ایف آئی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔​​​​​​​

خیال رہے کہ اس سے پہلے گزشتہ سال فروری میں بھی جھارکھنڈ کی حکومت نے پی ایف آئی پر پابندی لگائی تھی جسے جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے اگست مہینہ میں کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت کو بہت بڑا جھٹکا دیا تھا۔ اب تقریبا چھ ماہ بعد حکومت نے پی ایف آئی پر ایک بار پھر پابندی لگا دی ہے۔

پی ایف آئی پر عائد پابندی پر مسلم رہنماوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے اپنے ایک ٹویٹ میں بی جے پی کی جھارکھنڈ حکومت کے ذریعہ پی ایف آئی پر لگائی گئی پابندی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے لکھا’’ عام انتخابات 2019 سے پہلے پی ایف آئی پر پابندی کے ساتھ نفرت کی سیاست کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ یہ پابندی غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے کیونکہ انہی وجوہات پر اس سے پہلے بھی لگائی گئی پابندی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا‘‘۔

وہیں، معروف سماجی کارکن اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( ایس ڈی پی آئی) کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے بھی پی ایف آئی پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے جھارکھنڈ حکومت کے ذریعہ جمہوریت کی آواز کو دبائے جانے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ 

 ڈاکٹر رحمانی نے کہا کہ پی ایف آئی پر ایک سال میں دو بار پابندی لگائی گئی ہے۔ حالانکہ، اس سے پہلے فروری 2018 میں جو الزامات لگا کر اس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور جن کے بارے میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے واضح کر دیا تھا کہ ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے اور پابندی ہٹالی تھی، اب ایک بار پھر یہی الزامات دہرا کر اس پر پابندی لگا دی گئی ہے جو لائق مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ حکومت نے اپنے الزام میں یہ بھی کہا تھا کہ پی ایف آئی آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف ہے۔ اس پر انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی تنظیم جو کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم کے خلاف ہو، کیا صرف اسی بنیاد پر کسی جمہوری ملک میں اس پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے؟

دوسری طرف پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے بھی جھارکھنڈ حکومت کے اس اقدام کو غیر جمہوری اور غیر آئینی بتایا ہے۔ میڈیا کو جاری کردہ اپک پریس ریلیز میں پی ایف آئی نے کہا ہے کہ ہم جھارکھنڈ حکومت کے اس غیر جمہوری فیصلہ کی شدید مذمت کرتے ہیں جس نے پاپولر فرنٹ پر دوسری بار پابندی عائد کر دی ہے۔ ریاست کے محکمہ داخلہ کے نوٹس میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور گمراہ گن ہیں۔ ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ تنظیم دباو والے ان اقدامات کے آگے جھکنے والی نہیں ہے اور آئینی اور جمہوری ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اس ناانصافی کے خلاف لڑائی لڑے گی۔

واضح رہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا ایک منظم تنظیم ہے، مختلف ونگ اس کے تحت کام کرتی ہے ۔کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو سمیت ملک 24 ریاستوں میں یہ تنظیم سرگرم عمل ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا