English   /   Kannada   /   Nawayathi

تشدد، فساد،کشمیر، مندر اور الیکشن 2019

share with us
 



ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

الیکشن کا مطلب تشدد فسادات کا ایک ایسا سلسلہ جو پولنگ ڈے تک جاری ہتا ہے۔
مغربی بنگال میں مدناپور میں امیت شاہ کی ریالی کے بعد پرتشدد واقعات کا سلسلہ نکل پڑا ہے۔ چوں کہ مرکز اور ریاست کا ٹکراؤ ہے اس لئے مرکزی وزیر داخلہ نے اس کا سختی سے نوٹ لیا ہے۔ پرشدد واقعات میں بی جے پی کا مبینہ طور پر زیادہ نقصان ہوا ہے۔ تاہم ترنمول کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی نے منصوبہ بند طریقہ سے فساد برپا کیا ہے تاکہ ریاستی حکومت کو بدنام کیا جاسکے۔
فسادات کا یہ سلسلہ بنگال سے شروع ہوا اور کوئی تعجب نہیں وقفہ وقفہ سے یہ ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلتا جائے۔ اس سے یقیناًفرقہ پرست طاقتوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ امیت شاہ نے بنگال میں پناہ گزینوں کو زمینات کے پٹے اور شہریت کا حق دینے کا اعلان کیا ہے۔ مغربی بنگال میں ہندو آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب ہے جو برسوں سے یہاں عارضی کیمپس میں مقیم ہیں۔ ممتابنرجی نے حال ہی میں انہیں پٹہ جات پیش کردےئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مزید ایک لاکھ پچاس ہزار خاندان دو سو کالونیوں میں ہیں جو شہری حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امیت شاہ اور ان کی پارٹی نے ممتا پر تنقید کی ہے کہ انہیں روہنگیائی مسلمانوں کی تو فکر ہے مگر بنگلہ یش کے پناہ گزین ہندؤں کی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسام میں حال ہی میں لاکھوں مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے ہندوستان میں پناہ لینے والے ہندوؤں کے حقوق اور مفادات کا لحاظ کیا جائے گا جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ الیکشن سے پہلے ایک بار پھر ہندوتوا کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ جیسے کمبھ کے موقع پر تاریخ میں پہلی مرتبہ اُترپردیش کابینہ کا خصوصی اجلاس الہ آباد جسے پریاگ راج کا نام دیا گیا ہے‘ یہاں گنگا کنارے منعقد ہوا جس میں چیف منسٹر آدتیہ ناتھ نے ہر فیصلے کا اعلان کیا جس سے ہندو خوش ہوسکتے ہیں چاہے وہ دنیا کا طویل ترین گنگا ایکسپریس وے ہو جو میرٹھ سے الہ آباد تک 600کیلو میٹر طویل ہو اور جس کی تعمیر پر 36ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوں گے جو میرٹھ سے شروع ہوگا اور پریاگ راج (الہ آباد) پر ختم ہوگا۔ یہ الہ آباد کو اترپردیش کے مشرقی اضلاع سے مربوط کرے گا اور وارانسی، پرتاب گڑھ، فروخ آباد، رائے بریلی، کانپور سے گزرے گا یا پھر کمبھ میلے کے دوران ہی مرکزی حکومت کا یہ اعلان کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے درخواست کرے گا کہ وہ ایودھیا میں وہ زمین حوالے کردے جو متنازعہ نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس پر بھی اعتراض کیا ہے تاہم رام مندر کا مسئلہ ایک بار پھر گرمایا جاچکا ہے اس وقت سادھو سنت اور ہندوتوا کارکن پر صرف مندر کی تعمیر کا جنون ہے اور آدتیہ ناتھ کے بشمول تمام بی جے پی قائدین اور ان کے حلیف شیوسینا، سنگھ پریوار کے قبیلے میں شامل تمام تنظیمیں مندر کے مسئلہ کو گرماتی رہے گی۔ ہندو اکھاڑوں نے اعلان کیا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے 21فروری کو پہلی اینٹ رکھی جائے گی جس کے ساتھ اندیشہ ہے کہ فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ اس دوران کانگریس کے پاس تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے قائدین کی جانب سے غیر ضروری ریمارکس سے ہندوتوا طاقتوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور کانگریس کو نقصان! جیسا کہ ششی تھرور نے ٹوئٹ کیا کہ ’’گنگا میں نہانے والے پاپی ہیں اور یہاں سبھی ننگے ہیں‘‘۔ الکٹرانک میڈیا کے لئے اپنی ٹی آر پی بنانے کا یہ سنہرا موقع ہے چنانچہ وہ آگ پر پٹرول ڈال رہے ہیں۔ اس قسم کے بیانات جس سے کانگریس کے خلاف نفرت پھیلے گی اور ہندوتوا طاقتیں مزید متحد ہوں گی۔ بی جے پی، شیوسینا پہلے تو ایک دوسرے پر تنقیدکررہی تھی مگر اب ایک بار پھر یہ دونوں ایک ہوچکی ہے‘ اور راج ٹھاکرے کی ایم این ایس، این سی پی کی حمایت کرے گی۔ 
بہرحال یہ یاد رہے کہ منی شنکر ایر کے وزیر اعظم مسٹر مودی سے متعلق ایسے ہی ایک احمقانہ بیان سے مودی کو ہمدری حاصل ہوئی تھی۔ ششی تھرور کا بیان ہو یا رام مندر کی تعمیر کے لئے بابری مسجد سے متصل اراضی کے حصول کا معاملہ‘ ٹی وی چیانلس پر باقاعدہ مباحث ہورہے ہیں۔ اور کانگریس کو بھی ان کے ہاں میں ہاں ملانے کے لئے مجبور ہونا پڑرہا ہے کیوں کہ اگر وہ خاموشی اختیار کرے تو پھر اکثریتی طبقے کی ناراضگی اور ان کے بائیکاٹ کا خطرہ رہتا ہے۔ الیکشن 2019ء صرف اور صرف مذہبی بنیادوں پر لڑا جائے گا۔ کئی محاذ قائم تو ہورہے ہیں ان میں سے سیکولرزم کی بقاء اور برقراری کے لئے لڑنے والی جماعتیں کس حد تک کامیابی حاصل کرے گی یہ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ 2014ء میں ہندوتوا طاقتوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ صرف ایک دن یعنی پولنگ ڈے کو سب اپنے اپنے اختلافات فراموش کرکے ہندو بن جائیں ویسا ہی ہوا تھا اور اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2019ء میں یہی تاریخ دہرائی جانے والی ہے۔
پرینکا گاندھی کے آنے سے تھوڑی سی ہلچل ہوئی۔ تھوڑا سا ارتعاش پیدا ہوا جیسے ساکن پانی میں کسی نے کنکر مار دیا ہو۔ اس سے عام تاثر یہی ہے کہ کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے کیوں کہ اس وقت میدان سیاست میں لگتا ہے خواتین کی باہمی رقابت اپنے عروج پر ہے۔ ممتا بنرجی چاہتی ہیں کہ اپنا محاذ اقتدار حاصل کرے‘ مایاوتی کو اپنے گٹھ بندھن پر امید ہے اور کانگریس کو جانے کیوں یقین ہے کہ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں داخل ہونے کے بعد کانگریس کے اچھے دن آجائیں گے۔ اپوزیشن برسر اقتدار اُسی وقت ہوسکتا ہے جب سب جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں۔ جو فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت تو پرینکا گاندھی پر ان کی سیاسی حریف فقرے کسنے میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی وہ بنیادی سطح پر کام بھی کررہے ہیں‘ کانگریس فی الحال تقریر، بیان بازی اور ٹوئیٹ پیغامات میں مشغول ہے یا مشغول کردی گئی۔
الیکشن جیسے جیسے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے حالات بگڑتے جائیں گے۔ ایسا اندیشہ ہے کیوں کہ پُرامن ماحول میں الیکشن ہوں تو سیکولر جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں۔ فرقہ پرست جماعتوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے حالات خراب ہوں‘ فرقہ پرستی کا بول بالا ہو۔ ایک ایسے وقت جبکہ بعض جماعتوں اور طاقتوں کو ہندپاک تعلقات، مسئلہ کشمیر پر کسی گرما گرم موضوع کی تلاش تھی پڑوسی ملک پاکستان نے یہ موضوع فراہم کردیا جب پاکستانی وزیر خارجہ نے لندن میں مسئلہ کشمیر پر احتجاج کے لئے میر واعظ عمر فاروق سے فون پر بات چیت کی۔ اور ان کی رائے جاننی چاہی۔ میر واعظ نے اگرچہ کہ پاکستان کے موقع پر نکتہ چینی کی اور ہندوستان کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں نے مذمت کی کیوں کہ ہندوستان کا ابتداء ہی یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی تیسرے فریق کو اس مسئلہ پر بات چیت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان لندن میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانا چاہتا ہے اور یہاں اذیت رسانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں کشمیر کے پہلے سیول سرویسس ٹاپر فیصل شاہ نے کشمیر میں جاری حقوق انسانی کے خلاف ورزی پر عملی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دوسری طرف عسکریت پسندی سے فوج میں شامل ہونے والے نذیر احمد وانی کو ان کی شہادت پر ہندوستانی فوج کا سب سے باوقار اعزاز اشوک چکرا بعد از مرگ ان کی بیوہ کو پیش کیا گیا۔ دونوں واقعات کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ویسے شاہ فیصل کے فیصلے کو بدبختانہ اور بچکانہ قرار دیا گیا ہے کیوں کہ سیول سرویسس ٹاپر کی حیثیت سے انہیں جو عزت، شہرت حاصل ہوئی اورجس طرح سے پورے کشمیر کو دنیا بھر میں اہمیت ملی وہ اپنی جگہ تاریخ ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہتے ہوئے کشمیری عوام کی خدمت وہ کام تھے شاید سیاست می داخل ہونے کے بعد کرپائیں کیوں کہ کشمیر کے سیاست دانوں کی خدمات کشمیری عوام کے ساتھ ان کی وفاداری اور غداری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔الیکشن سے پہلے کشمیر کے مسئلہ کو مزید الجھایا جاسکتا ہے۔ اور بھی کئی واقعات کا اندیشہ ہے۔ ہمیں الیکشن تک ہوش میں رہنے کی ضرورت ہے چاہے اشتعال انگیز بیانات کا معاملہ ہو یا ووٹ ڈالنے کا ۔ صبر اور تحمل کے ساتھ رہنا ہوگا۔ کیوں کہ آج کے حالات ہمارے لئے سازگار نہیں ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ اس وقت دور دور تک کوئی راہ نما بھی نظر نہیں آتا...!!!

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:یکم فروری2019(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا