English   /   Kannada   /   Nawayathi

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک,امیر ناصر الدین سبکتگین قسط 02

share with us

 

 

آفتاب عالم دستگیر پٹیل کروشی

 

 

محمد بن قاسم کے ہندوستان کی آمد کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا ، اگر اس کی بنیادی وجہ دیکھی جائے تو اس دور میں مسلمان آفریقہ اور یوروپی ممالک کی فتوحات میں مصروف تھے۔ایک مدت کے بعد امیر ناصر الدین سبکتگین نے بر صغیر ہند و پاک کے علاقے کو فتح کرنے کی کوشش کی اگرچہ سبکتگین کی فتوحات کا سیلاب دریائے سندھ سے آگے نہ بڑھا مگر اس کے باوجود اس کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔اکثر و بیشتر مورخین کا کہنا ہے کے نصر حاجی نام کا ایک سوداگر تھا اس نے سبکتگین کو ترکستان سے بخارا لا کر الپتگین کے ہاتھوں فروخت کیا،الپتگین نے سبکتگین کے چہرے پر عقل و دانش کے آثار دیکھ کر اسے اپنے مخسوص حلقے میں شامل کرلیا۔اور کچھ ہی عرصہ میں سبکتگین ایک بہترین منتظم بن کر ابھرا۔اور کئی سارے علاقے فتح کر لئے بخارا کی فتح کے بعد سبتگین نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔اور ۳۶۷ھ کے آخر میں ہندوستان پہنچ کر کئی سارے علاقے اور قلعے فتح کر لئے اور اکثر و بیشتر جگہوں پر مسجدیں بھی تعمیر کروائیں اور مالِ غنیمت لے کر کامیاب اور بامراد اپنے ملک غزنی پہنچا۔اسی دور میں جئے پال نامی راجا تھا جس کی حکومت سر ہند سے لمغان تک اور کشمیر سے ملتان پھیلی ہوئی تھی۔راجا جئے پال جانتا تھا وہ دن دور نہیں جب مسلمان اس کے علاقے میں پہنچیں گے ، ان حملوں کو روکنے کے لئے بھٹنڈہ میں مقیم تھا۔ سبکتگین اپنی فوج لے کر راجا جئے پال پر حملے کے لئے نکل پڑا جب اس کی اطلاع راجا کو ملی تو یہ بھی اپنی فوج لے کر ملتان کی سرحد پر پہنچ گیا، اس جنگ میں سبکتگین کا بیٹا سلطان محمود غزنوی بھی تھا ۔کئی دنوں تک جنگ جاری رہی مگر فاتح اور مفتوح کی تمیز کرنا دشوار تھی۔ایک دن ایک گروہ نے سلطان محمود سے جا کر کہا کہ راجا جئے پال کی فوج جہاں مقیم ہے وہاں قریب ہی ایک چشمہ ہے ،جس کی خاصیت یہ ہے اگر اس میں تھوڑی سی نجاست ڈال دی جائے تو آندھی کے تیز تھپیڑوں ، بادل کی گرج اور بجلی کی چمک دمک سے فوراً ایک طوفان بپا ہوجاتا ہے۔یہ سن کر سلطان محمود نے حکم دیا کہ اس چشمے میں فوراًنجاست ڈالی جائے۔سلطان کے حکم کی تعمیل کی گئی نجاست جونہی چشمے میں پڑی آسمان پر انتہائی گہرے بادل چھا گئے، اور پورا ماحول سرد ہو گیا جس کی وجہ سے کئی گھوڑے اور دیگر جانور مارے گئے،راجا جئے پال نے جب دیکھا کہ اس مصیبت سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس نے صلح کرنے کی غرض سے سبکتگین کے پاس اپنا ایلچی بھیجا ، اور سبکتگین کو یہ پیغام دیا کہ اگر یہ جنگ بند کرو گے تو اپنے ملک میں سبکتگین کا حکم چلائے گا، اور کوہ پیکر ہاتھیوں کی کچھ قطاریں اور چند بیش قیمت تحفے دے گا اور ہر سال خراج اور جزیہ کی قیمت ادا کرتا رہے گا۔سبکتگین نے انسانی ہمدردی کے پیش نظر اس درخواست کو قبول کیا مگر سلطان محمود اس بات سے راضی نہیں تھا۔راجا جئے پال نے ایک سمجھدار ایلچی سلطان محمود کی خدمت میں روانا کیا۔ اس ایلچی نے راجا کا پیغام دیا کہ ( ابھی آپ اہل ہند اور خاص طور پر راجپوتوں کی جہالت اور تعصب کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ،اس قوم کی جہالت اور بے فکری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا تو یہ آخر کار مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتے ہیں کہ اپنا تمام مال اور بیش قیمت اشیاء مایوس ہوکر آگ کی نظر کرتے ہیں۔اور اس فعل کو اپنی آخرت کی بہبودی تصور کرتے ہیں ۔اگر اس کے بعد بھی مصیبت سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو اپنے قدیم رواج کے مطابق اپنی عورتوں کو نذرِ آتش کردیتے ہیں، اور پھر جب یہ دیکھتے ہیں ان کے پاس دنیاوی مال و متاع نہیں رہا تو یہ دشمن سے زبردست معرکہ آرائی کرتے ہیں۔ اور اس معرکہ میں خود کو فنا کر دیتے ہیں۔ اب ان کی مصیبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے پرانے دستور کے مطابق عمل کریں اگر آپ کو ان کی تباہی و بربادی ہی منظور ہے تو خیر ورنا بہتر یہ ہے کہ آپ صلح کرکے ہم سب کا اپنا ممنوع بنا لیں۔جب سلطان نے یہ باتیں سنی تو صلح کے لئے حامی بھر لی۔اور سلطان نے یہ شرط رکھی کے راجا جئے پال ایک لاکھ درہم اور ۵۰ ہاتھی بطور نذرانہ پیش کرے۔راجا چونکہ اس جنگ سے نجات چاہتا تھا اس لئے اس نے اپنے خاص وزیر جس کا نام دولت تھا اسے گروی سلطان کے پاس رکھ دیا اور مسلمان فوجی دستے کو اپنے علاقے میں لے گیا تاکہ شرط پوری کی جائے مگر اپنے ملک پہنچتے ہی اس نے دھوکا دے دیا اور سبکتگین کو یہ پیغام بھیجا کے اگر وہ اپنے مسلمان سپاہی چاہتا ہے تو اس کے وزیر کو رہا کر دے ،اس پیغام کے بعد سبکتگین اور سلطان محمود آگ بگولہ ہو گئے۔سبکتگین اس کی بد عہدی کی سزا دینے کے لئے ہندوستان کا رخ کیا ،ادھر راجا جئے پال نے دہلی، کالنجر، قنوج، اور اجمیر کے راجاؤں کے ساتھ مل کر ایک بڑی فوج تیار کی مورخین لکھتے ہیں اس وقت راجا جئے پال کے پاس ایک لاکھ کا لشکر تھا۔سبکتگین ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر جئے پال کی فوج پر ایک نظر کی تو فوجیوں کا ایک سمندر نظر آرہا تھا ، اتنا بڑا لشکر دیکھ کر مسلمان فوج کی کہیں ہمت پست نہ ہو جائے اس لئے سبکتگین نے جہاد کے ثواب اور فوائد سے آگاہ کیا۔اور پانچ پانچ سو فوجیوں کے دستے بنائے اور دستوں کو حکم دیا کے باری باری دشمن پر حملہ کرے سبکتگین کے حکم کے مطابق فوجیوں نے باری باری حملہ کر کے راجا جئے پال کی فوج کو میدان جنگ چھوڑنے پر مجبور کیا اس جنگ سے راجا جئے پال بھی فرار ہوگیا اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ بہت سارا مال غنیمت آیا اور لغمان و پشاور کے ملک اور دریائے نیلاب تک کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔

 

سبکتگین کا ایک عجیب و غریب واقعہ


جامع الحقایت میں لکھا ہے کہ نیشاپور میں جب امیر ناصر الدین ، الپتگین کی ملازمت میں تھا تو اس کے پاس صرف ایک گھوڑا تھا اور وہ تمام دن اسی گھوڑے پر سوار ہوکر جنگل میں گھوما کرتا تھااور جانورں کا شکار کیا کرتا تھا۔اس نیدیکھا کے ایک ہرنی مع اپنے بچے کے جنگل میں چر رہی ہے۔ سبکتگین نے اسے دیکھتے ہی اپنے گھوڑے کو دوڑایا اور ہرنی کے بچے کو پکڑ لیا۔اور اس کے پیر باندھ کر اس بچے کو اپنی زین سے باندھ دیا اور شہر کی طرف روانا ہوا۔ ابھی وہ کچھ ہی دیر گیا ہوگا اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کے وہ ہرنی پیچھے پیچھے آرہی ہے اور اس کی صورت سے رنج کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ عالم دیکھ کر سبکتگین کو اس بے زبان جانور پر بہت رحم آیا اور اس نے بچے کو چھوڑ دیا ، ہرنی اپنے بچے کی رہائی سے بہت خوش ہوئی اور بچے کو ہمراہ لے کر جنگل کی طرف چل پڑی اور تھوڑی تھوڑی دور چل کر سبکتگین کی طرف دیکھ لیتی تھی جیسے اپنی خوشی کا اظہار کر رہی ہو۔جس دن کا یہ واقعہ ہے اسی رات کو سبکتگین نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔انہوں نے فرمایا "ائے ناصر الدین تو نے ایک بے زبان جانور پر جو رحم کیا وہ خدا وند تعالیٰ کے دربار میں بہت مقبول ہوا لہٰذا اس کے صلے میں تجھے چاہیے کہ یہی طریق اختیار کرے اور کبھی رحم کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ یہ طریق دین و دنیا کا سرمایہ ہے"اس نیک دل بادشاہ نے ساری عمر عدل اور انصاف کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیااور ایک مثالی حکومت قائم کر کے دکھلائی۔


سبکتگین کا انتقال


ترجمہ یمینی یعنی مشہور تاریخ یمینی میں لکھا ہے کہ سبکتگین نے اپنی وفات سے چند روز قبل ایک دن شیخ ابو الفتح سے دوران گفتگو میں کہا ہم انسان نازل شدہ مصائب کو دور کرنے کی تدابیر اور لاحق شدہ امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں ایسی ہی بات ہے جیسے کہ قصاب سے بھیڑ کو اس کے بال کرنے کے لئے پہلی مرتبہ زمین پر پٹکتا اور اس کے پاؤں مضبوطی سے باندھ دیتا ہے بھیڑ اپنے اوپر ایک نئی اور عجیب مصیبت دیکھ کر زندگی سے مایوس ہو جاتی ہے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے لیکن قصاب اپنے کام سے فارغ ہو کر اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے اور خوشی سے اچھلنے کودنے لگتی ہے دوسری مرتبہ پھر جب قصاب اسے پکڑتا ہے تو وہ ایک شب شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتی ہے خوف اور امید دونوں کا اسے خیال رہتا ہے یعنی وہ یہ خیال بھی کرتی ہے کہ اسے ذبح کر دیا جائے اور ساتھ یہ امید بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ موقع کی طرح اس بار بھی اسے رہا کر دیا جائے گا اور جب قصاب اس کے بال کتر کر اسے آزاد کردیتا ہے تو پھر خوش ہو جاتی ہے اور خوف کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے تیسری مرتبہ جب قصاب اسے ذبح کرنے کے خیال سے زمین پر گراتا ہے تو اس کے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور وہی خیال کرتی ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی تھوڑی سی دیر کے لئے اس کی آزادی سلب کی گئی ہے اور کچھ لمحوں کے بعد وہ پہلے کی طرح آزاد ہوجائے گی اور بے خبری اور بے خوفی کے عالم میں رہتی ہے اور اسی عالم میں اس کے گلے پر چھری پھیر دی جاتی ہے اور دنیا سے گزر جاتی ہے ہم انسان بھی چونکہ ہمیشہ طرح طرح کی مصیبتوں اور نت نئے امراض میں آئے دن مبتلا ہوئے رہتے ہیں اس لئے ہر مصیبت اور ہر مرض میں اس سے رہائی کا خیال کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ آخری مصیبت موت کا پیغام لے کر آتی ہے اور اسی غفلت کے عالم میں ہمارے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر ہمیں اس دنیا سے لے جاتی ہے مورخین لکھتے ہیں کہ سبکتگین نےیہ باتیں اپنی موت سے چار روز قبل کہی تھی واللہ و اعلم بالصواب(تاریخ فرشتہ جلد اول ص نمبر56)

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:یکم فروری2019(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا