English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایران میں سوشل میڈیا پر پابندی کو لے کر اعلی قیادت کے درمیان اختلاف

share with us


سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے یا پھر استعمال کرنے کی جازت ہونی چاہیے، حکمران طبقے میں اختلافات


تہران:13؍جنوری2019(فکروخبر/ذرائع)بین الاقوامی سوشل میڈیا ایرانی رجیم کے گلے کی ہڈی بن کررہ گیا ہے جسے وہ نہ اگل سکتی ہے اور نہ نگل سکتی ہے۔ ایک طرف ایرانی حکمران طبقے میں سوشل میڈیا کواستعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب عوام پر اس کے استعمال پر پابندیاں عاید ہیں۔ اس دوغلی پالیسی کے جلو میں خود ایران کے برسراقتدار اداروں کے درمیان بھی سوشل میڈیا کے حوالے سے محاذ آرائی جاری ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق صدر حسن روحانی اور ان کے حامی سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف ہیں جب کہ رہ برانقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای کے مقرب شدت پسند اور بنیاد پرست نہ صرف سوشل میڈیا پرپابندی عاید کرنے پر زور دے رہے ہیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت چین کی طرز پر اپنا الگ تھلگ انٹرنیٹ سسٹم متعارف کرائے جس میں غیرملکی سوشل میڈیا کا کوئی کردار نہ ہو۔ایرانی حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا پرپابندی کے باوجود لوگ چوری چھپے پراکسی ویب سائیٹس کا استعمال کرکے ممنوع سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ بالخصوص فیس بک ،ٹوئٹر اور یوٹیوب تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کے استعمال کی یہ پابندی صرف عام شہریوں کے لیے ہے۔ دوسری جانب وزرا اور ارکان پارلیمنٹ سمیت دیگر اعلیٰ ریاستی عہدیدار کھلے عام ان ویب سائیٹس کو استعمال کرے دیکھے جاتے ہیں۔اس کا اندازہ آپ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے 'ٹوئٹر' اکاؤنٹ سے لگا سکتے ہیں۔ ان کے انگریزی صفحے پر 5 لاکھ فالورز ہیں جب کہ انسٹا گرام کے فارسی اکاؤنٹ پر 23 لاکھ فالورز موجود ہیں۔
 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا