English   /   Kannada   /   Nawayathi

وزارت اقلیتی امور کی سست روی !

share with us

تاہم 1977 میں ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد مرارجی دیسائی کی سرپرستی میں بنی جنتا پارٹی حکومت نے قومی کمیشن برائے اقلیتی امور کا اعلان کیا۔ اس کے بعد پی وی نرسمہا راؤ کی سرپرستی میں 30 ستمبر 1994 میں کانگریس نے قومی اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن قائم کیا، پھر 2004 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریس نے نیشنل کامن منیمم پروگرام میں درج اقلیتوں کی فلاح کے نام پر قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات بنایا اور ایک برس بعد ملک میں مسلمانوں کی مجموعی صورتِ حال کو جاننے کے لیے سچر کمیٹی کی تشکیل کی اور 29 جنوری، 2006 کو مخصوص وزارت برائے اقلیتی امور کا اعلان بھی کر دیا۔ 1977 میں اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن کے بعد اسے محض سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اقلیتوں کے تعلق سے جو بھی اقدامات کیے، ان میں سے کسی کو بھی با اختیار نہیں بنایا اور انہیں آئینی حیثیت نہیں دی۔ اس کا مظاہرہ قومی کمیشن برائے اقلیتی امور، قومی اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن، قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات، وزارتِ اقلیتی امور اور سچر کمیٹی رپورٹ کے نفاذ میں ہوتا ہے۔
ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کی حالت ہندوستان میں کچھ ایسی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں انہیں قریب کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتی ہیں ،اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں ، تاہم نہ جانے کیوں پھر بھی مسلمان مین اسٹریم سے جڑ نہیں پاتے ہیں ،اس کے باوجود بھی پارٹیاں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کی فلاح کے لئے تاریخ سازکام کئے ہیں، اس معاملہ میں مسلمانوں کے تئیں کانگریس کا بھی کچھ ایسا ہی رویہ ہے کہ فروغ اردو اور مسلمانوں کی فلاح کے لئے نہ جانے کتنی کمیٹیاں اوراسکیمیں بنیں ، پران میں سے کسی پر بھی نیک نیتی سے کام نہیں ہوا، وز ارت اقلیتی امور کے قیام کے اول دن سے ہی مسلمانوں کی فلاح کے لئے اقدامات کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا ، حقیقت یہی ہے کہ کام سے زیادہ کانگریسی لیڈروں نے تشہیر میں یقین کیا ہے ۔ اقلیتوں کے لئے وزارت کی تشکیل توہوگئی ہے ، مگر وقت پر فنڈنگ نہیں ہوتی ہے اور اگرفنڈنگ ہوبھی جاتی ہے تو اس کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا ہے ،اقلیتی خواتین کے لئے 2007-08میں تشکیل دی گئی اسکیم کے تحت 2013-14سال کے لئے اب تک (دسمبر میں بھی) مختص رقم جاری نہیں کی گئی ۔ ظاہر ہے صرف اسکیم بنائی جائی اور وقت پر فنڈ نگ نہ ہوتو کیسے کسی کی فلاح متصور ہوسکتی ہے ۔ اقلیتی امور میں فنڈنگ میں تاخیر یا پھر فنڈ کا صحیح استعمال نہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ،اقلیتوں کی کثیر تعداد والے 90 اضلاع میں ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف اسکیموں پر خرچ کرنے کے لیے مرکز کی طرف سے اس وزارت کو جو 462.26 کروڑ روپے دیے گئے تھے، وہ بھی اس نے مرکز کو لوٹا د ئے۔ اسی طرح پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی 24 کروڑ روپے کی رقم، میٹرک اسکالرشپ کی 33 کروڑ، میرٹ کم مینس اسکالرشپ کی 26 کروڑ اور وقف بورڈ کے کمپیوٹرائزیشن کی 9.3 کروڑ روپے کی رقم کو وزارتِ اقلیتی امور خرچ کرنے میں ناکام رہی اور نتیجتاً یہ ساری رقم اسے مرکزی حکومت کو لوٹانی پڑی۔
7 سال پہلے وزارتِ سوشل جسٹس اور امپاورمنٹ سے الگ کر بنائی گئی وزارتِ اقلیتی امور نے اب تک بجٹ مختص کرنے اور اسکالرشپ بانٹنے کے علاوہ کوئی نیا کام نہیں کیا ہے،چنانچہ یہ سوال فطری ہے کہ یہ کام تو سوشل جسٹس اور امپاورمنٹ کی وزارت بھی کر سکتی تھی، تو وزارتِ اقلیتی امور کو الگ سے قائم کرنے کا کیا جواز تھا؟ وزارت اقلیتی امور کے وزیر کو گرچہ مرکزی وزیر کابینہ کا درجہ حاصل ہے، لیکن وہ اپنے زیادہ تر پروگراموں کو نافذ کرنے کے لیے یا تو ریاستی حکومتوں پر انحصار کرتے ہیں یا پھر رضاکارانہ تنظیموں پر۔ وزارت اقلیتی امور سے اقلیتوں کی دوباتیں جڑگئیں ، اولاً کوئی فلاح نہ ہونے کے باجود بھی مرکزی کہتی ہے کہ ہم نے اقلیتوں کی ترقی کے لئے یہ وزارت بنائی ہے ، حالانکہ اسکیموں اورفنڈنگ کے کھیل میں کچھ بھی نہیں ہوپاتا ہے ۔ دوم ، اپوزیشن پارٹیاں کہتی ہیں کہ اقلیتی امور کی وزارت صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ 
2014 عام انتخابات بالکل قریب ہیں ، کانگریس انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں، چنانچہ مسلمانوں کو لبھانے کے لئے مرکزی وزیر کے رحمن خان بھی یہ کہہ رہے ہیں سچر کمیٹی کی 76 سفارشات میں سے 72 کو نافذ کر دیا گیا، مگر زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں، ذرا سی گہرائی میں جانے سے معلوم ہو تا شروعاتی 22 سفارشات میں سے 12 سفارشوں کو یو پی اے سرکار نے ابھی تک نافذ نہیں کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے گیارہویں پنچ سالہ منصوبہ 2007۔2012 میں وزارتِ اقلیتی امور کو 7 ہزار کروڑ روپے مختص کیے تھے، وزارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے 6,824 کروڑ روپے خرچ کر دیے ہیں، مگرسچائی یہ ہے کہ یہ رقم بھی خرچ نہیں ہوئی ۔2012میں جاری ’سوشل ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق 2007۔2012 کے دوران ریاستی حکومتوں نے اقلیتوں سے متعلق مرکز کی طرف سے جاری کی گئی رقم میں سے آدھا پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔ رپورٹ سے اس بات کا بھی انکشاف ہو اکہ 12 ریاستوں نے اقلیتوں سے متعلق پچاس فیصد سے بھی کم رقم کو خرچ کیا، جن میں بہار، اتر پردیش، مہاراشٹر اور آسام جیسی ریاستیں سر فہرست ہیں۔ بعض ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں پر اس میں سے صرف 20 فیصد رقم ہی خرچ کی گئی۔ وزارتِ اقلیتی امور نے سال 2008۔09 میں مرکزی حکومت کو 33.63 کروڑ، 2009۔10 میں 31.50 کروڑ اور 2010۔11 میں 587 کروڑ روپے اس لیے واپس لوٹا دیے، کیوں ان پیسوں کو خرچ ہی نہیں کیا جا سکا۔
سچر کمیٹی کی سفارشات پر اگر غور کیا جائے، تو اس نے سب سے زیادہ زور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے پر دیا تھا، لیکن سات سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نہ تو ملک میں کہیں پر اردو میڈیم کے پرائمری اسکول کھولے گئے ہیں اور نہ ہی اردو ٹیچروں کی تقرری کا باقاعدہ کوئی انتظام کیا گیا ہے، مسلم لڑکیوں کے لیے نہ تو کہیں پر ہوسٹل بنائے گئے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم میں ان کی نمائندگی میں اضافہ کرنے کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔ مدرسے کی ڈگریوں کو ابھی تک مقابلہ جاتی امتحانوں کے لیے کوئی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں غریب بچوں کو یکسوئی کے ساتھ پڑھانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے نہ تو کوئی پبلک لائبریری بنائی گئی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پارک بنایا گیا ہے، جہاں پر ہر فرقہ کے بچے ایک ساتھ کھیل کود سکیں اور اس طرح کثریت میں وحدت کے تصور کو عام کر سکیں۔ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کے لیے الگ سے کسی قسم کے ریزرویشن کا انتظام بھی اب تک نہیں کیا جا سکا ہے۔
یو پی اے حکومت نے ہندوستان کی اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود اور ان سے متعلق ترقیاتی پروگراموں کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے 29 جنوری، 2006 کو ایک نئی وزارت بنائی اور اس کا نام رکھا وازارتِ اقلیتی امور۔ اسے وزارتِ سوشل جسٹس اور امپاورمنٹ میں سے الگ کرکے ایک نئی وزارت بنائی گئی۔مسٹر عبدالرحمن انتولے کو اس کا پہلا وزیر بنایا گیا، جو 2009 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد سلمان خورشید کو وزارتِ اقلیتی امور بنایا گیا، جو 2012 تک اس عہدے پر فائز رہے، ان کے بعد یہ ذمہ داری کے رحمن خان کو دی گئی، جنہوں نے 28 اکتوبر، 2012 کو اقلیتی امور کی وزارت کا عہدہ سنبھالا۔ وزارتِ اقلیتی امور کے کل عہدیداروں کی موجودہ تعداد 93 ہے، جن میں سے ایک سکریٹری، تین جوائنٹ سکریٹری اور ایک جوائنٹ سکریٹری و مالیاتی صلاح کار (ایڈیشنل چارج) شامل ہیں۔
جن مقاصد کے تحت اس وزارت کی تشکیل ہوئی ، اگر ان پر ایمانداری سے کام ہوتا تو ضرور ہندوستانی اقلیتوں کی تصویر بدلتی، اوقاف کے معاملہ میں کوئی خاطر خواہ فائدہ برآمد نہیں ہوا ہے ، گرچہ وقف ترمیمی بل میں بہت سی ترمیمات کی گئی ہیں اور یہ بل پاس ہوا مگر اب بھی یہ تشنہ ہے ۔ 
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یو پی اے حکومت کی اقلیتوں سے متعلق فلاحی اسکیموں سے مسلمانوں کو تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہوا ہے۔سابق وزیر برائے اقلیتی امور اور موجودہ وزیر خارجہ سلمان خورشید اور کے رحمان خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سچر کمیٹی کی 80 فیصد سفارشات کو ملک میں نافذ کیا جا چکا ہے ،مگرڈاکٹر ابوصالح شریف نے ریسرچ پر مبنی اپنی رپورٹ ’سچر کے 6 سال بعد‘ پیش کی، تو اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر پچھلے 6 برسوں میں کام بالکل نہیں ہوا، لیکن سیاسی طور پر اس ایشو کو بھنانے کی کافی کوششیں ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر ٹی آئی سے حاصل ہونے والی جانکاریوں نے یہ صاف کر دیا ہے کہ مختلف ریاستوں میں نہ تو کسی سفارش سے متعلق ڈاٹا تیار کیا گیا ہے اور نہ ہی مرکزی یا کسی صوبائی حکومت کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ اب تک کتنے او بی سی سرٹیفکیٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کی بدحالی اور پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے نہ تو کانگریس کی قیادت والی مرکزی حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس ملک کی مختلف صوبائی حکومتیں ہی اس سلسلے میں کسی دلچسپی یا سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بدحالی لاکھ کوششوں کے باوجود دور نہیں ہو پا رہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا