English   /   Kannada   /   Nawayathi

فلسطین کی آزادی کے لیے صحافیوں کا ‘استنبول’ مارچ

share with us

دنیا کے 65 ممالک کے 750 صحافیوں، دانشوروں، مصنفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کی شرکت


اشرف علی بستوی
دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کی دشوارایاں ایک عرصے سے عیاں ہیں کہ کس طرح مرحلے وار فلسطینیوں پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی اور غاصب اسرائیل پا وں پسارتا رہا اور ایک وقت ایسا آگیا کہ فلسطینیوں کو ان کے ہی وطن میں قیدی بناڈالا یہ سب کچھ دن کے اجالے میں حقوق انسانی کے علمبرداروں کی سرپرستی میں انجام دیا گیا۔ فلسطینیوں کو لگ بھگ سات دہائیوں سے مسلسل صہیونییت زدہ مغربی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بنائے جا رہا ہے۔ فلسطینی اس بات سے کافی دکھی ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کا میڈیا ظالم اورغاصب اسرائیل کو مظلوم اور مظلوموں کو دہشت گرد بتاتا ہے۔
انہی سوالات پر گفتگو کے لیے گزشتہ 17۔18 نومبر کو ترکی کے تاریخی شہر قسطنطنیہ آج کے استنبول میں ‘ پیلیسٹائن ایڈریسنگ دی ورلڈ ‘ یعنی ‘فلسطین کا دنیا سے خطاب ‘ نام سے ایک بڑا اجلاس ہوا، جس میں دنیا کے 65 ممالک کے 750 صحافیوں، دانشوروں، مصنفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حصہ لیا۔ کا نفرنس کا اہتمام فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم نے کیا تھا۔ فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم کی یہ تیسری ‘تواصل’ کانفرنس تھی۔ دراصل آسان جملوں میں اگر کہیں تو یہ فلسطین کی آزادی کے لیے دنیا بھر کے صحافیوں کا استنبول مارچ تھا۔
فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم کا قیام 2014 میں ہوا تھا ، پہلی کانفرنس23 و 24 اپریل 2014 میں استنبول میں ہوئی تھی ،جس کا مقصد دنیا بھر کے میڈیا سے وابستہ افراد سے باہمی رابطے کو مزید وسعت دینا اور فلسطین کے کاز کو میڈیا میں بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے عالمی میڈیا کی توجہ مبذول کرانا تھا تاکہ دنیا بھر سے آنے والے میڈیا کے افراد مل بیٹھ کرمسئلہ فلسطین پر غور خوض کریں اور مظلوم فلسطینیوں کو صہیونی پنجے سے آزادی دلانے میں اپنا کردارادا کریں ، مل جل کر کام کرنے کے نئے طور طریقے وضع کریں۔
پہلی کانفرنس میں دنیا کے 40 ملکوں کے 400 صحافیوں دانشوروں اور حقوق انسانی کے کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ دوسری ‘تواصل’کانفرنس 18 اور 19 مئی 2017 کو استنبول میں رکھی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں 52 ملکوں کے 200 سے زائد اداروں سے وابستہ 620 صحافیوں نے شرکت کی اس کانفرنس کا عنوان ‘میڈیا میں مسئلہ فلسطین، مواقع اور چیلنجز’ رکھا گیا تھا۔ اس میں ہونے والے مذاکروں اور ورک شاپ یہ بات سامنے آئی کہ دنیا بھر کے میڈیا میں فلسطین کے مسئلے پر ہونے والے مذاکروں کو صحیح رخ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ تیسری کانفرنس تھی جسے الجزیرہ چینل جیسے کئی بڑے معروف و مشہور میڈیا ادارے، مڈل ایسٹ مانیٹر اور یورپی فلسطین میڈیا سینٹر نے اپنی شراکت داری کی۔
اس کانفرنس کے مختلف پہلووں کیجائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ منتظمین کانفرنس کو بامعنیٰ بنانے اور مزید وسعت دینے کے لیے مستقل کام کر رہے ہیں ، تینوں کانفرنسوں کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 40 ملکوں کے 400 صحافیوں سے شروع کی گئی یہ کانفرنس اب 65 ملکوں کے 750 صحافیوں تک جاپہونچی ہے اورہر بار اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ زیادہ سے زیادہ نئے چہرے تلاش کیے جائیں ، خواتین کی کثیر تعداد میں شرکت سے اندازہ ہوا کہ فلسطین کی آزادی کی لڑائی میں مرد وخواتین کی متناسب نمائندگی کو ضروری سمجھا گیا۔
افتتاحی اجلاس میں ہی کانفرنس کے منتظم اعلیٰ فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم کے سیکریٹری جنرل ھشام قاسم نے دنیا بھر سے آئے صحافیوں کے سامنے واضح کر دیا کہ وہ اس کانفرنس کے ذریعے فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور اس کے ظلم و جبر کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں ، وہ دنیا بھر سے آئے صحافیوں ،کالم نگاروں ، حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی رپورٹنگ میں حقائق کو کس طرح نظراندازکیا جا رہا ہے۔ منتظمین نے شاید اسی لیے کانفرنس کا عنوان ‘فلسطین کی دنیا سے گفتگو’ رکھا تھا اور اسے ‘تواصل’ یعنی رابطہ نام دیا تھا۔ اس کانفرنس سے یہ بات سامنے آئی کہ فلسطین دنیا بھر سے مذاکرات چاہتا ہے، اور یہ حقوق انسانی کا مسئلہ ہے۔
کانفرنس میں سعودی صحافی جمال خاشقجی جنہیں 2 اکتوبر کو استنبول واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کردیا گیا ان کو بھی اس کانفرنس کے ایک پینل ڈسکشن میں بطور پینلسٹ حصہ لینا تھا ، ان کی عدم موجودگی میں ان کی کرسی کو خالی چھوڑدیا گیا ، کانفرنس ہال میں یہ لمحہ بے حد غم ناک اور جذباتی اثرات چھوڑ گیا ، ان کی جگہ پر خاشقجی کے دوست لندن میں واقع الحوار ٹی وی کے چیئرمین عزام تمیمی نے شرکت کی اور اپنی بات رکھی۔
دو روزہ کانفرنس میں ‘فلسطین کے ایشو پرعالمی میڈیا کا موقف’ کے چار الگ الگ عناوین پرمذاکرے ہوئے جس میں سینئر صحافیوں نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ 6 عناوین پر میڈیا ورک شاپ منعقد کی گئی۔ کانفرنس میں ہندوستان سے بھی صحافیوں اور حقوق انسانی کے کارکنان پر مشتمل 13 نفری وفد نے شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس میں ڈی این اے کے سینئر جرنلسٹ افتخار گیلانی نے خطاب کیا اور پینل ڈسکشن میں راجیہ سبھا ٹی وی سابق ایڈیٹرارمیلیش نے نمائندگی کی۔ اس موقع پر فلسطین کے ایشو پر فلم سازی ، ڈاکیو مینٹری،پینٹنگ اور دیگر اصناف کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں کو کریٹیو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ اجتماع دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے بے حد خاص اس لیے بھی تھا کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام کی زبان سے راست طور پر سننے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ کانفرنس میں فلسطین کے ایسے کئی خاندانوں کے لوگ شریک تھے جن کے اپنوں نے آزادی کی اس لڑائی میں جان قربان کردی ہے ، ان میں سے کئیوں کے کپڑے سازوسامان اور ان کے ذاتی استعمال کی چیزیں یہاں رکھی گئی تھیں۔
یہاں سبھی کی آنکھوں کا تارا ایک مسکراتا چہرہ ہرجگہ وہیل چیئرپر نظر آیا یہ جناب فیض مومن تھے جن سے ملنے ان کے ساتھ تصویر لینے کے لیے سبھی بے چین نظرآتے ، مومن 2008 میں غزہ کی ناکہ بندی کے دوران راحت رسانی کے کام میں مصروف تھے ،اسرائیلی فوج نے گرینیڈ داغا اور ان کے جسم کا نیچے کا حصہ بالکل ختم ہوگیا لیکن پھر بھی ان کی ہمت پست نہیں ہوئی آج بھی مومن پوری طرح سرگرم ہیں ان کے عزائم بلند ہیں وہ فوٹو جرنلسٹ ہیں اور غزہ میں کام کر رہے ہیں ،اسرائیل کے ظلم کی داستان تصویروں کے ذریعے دنیاکے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
کانفرنس کے آخر میں پیش کی گئیں یہ 6 نکاتی سفارشات غورطلب ہیں جس کے ذریعے دنیا بھر کی میڈیا برادری کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اول یہ طے کیا گیا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں میڈیا کے افراد اور اداروں کے لیے فلسطین کے مسائل پر ایک ایسے کتابچے تیار کیے جائیں گے جو فلسطین کے مسئلے کامکمل تعارف پیش کریں گے جو فلسطین کا نقطہ نظر واضح کرنے میں معاون ہوں ، پہلے مرحلے میں ایسی پانچ کتابیں تیار کی جائیں گیں جن میں فلسطین پر جنرل میڈیا پالیسی اور مغربی کنارے اور یروشلم کے بارے میں درست اطلاعات اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں پر اور عرب میڈیا کے رخ میں نرمی لانے پر تفصیلی میڈیا پالیسی واضح کرنے والے کتابچے لوگوں تک پہنچانے کاکام کیا جائے گا۔
دوم فلسطین کے کازکو بیدار ذہنوں تک پہونچانے کے لیے فلم سازی کا آغاز کیا جائے گا جس کے ذریعے دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کے مسائل اور ان کی زندگیوں کو پیش کیا جائے گا۔
سوم یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین کے بنیادی ایشوز پر ویڈیو کلپ تیار کی جائیں گیں اوراسے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے لوگوں تک پہونچایا جائے گا اسے دنیا کی مختلف زبانوں میں تیار کیا جائے گا ۔
چہارم سال 20 150 2019 کے لیے دوسرے ‘میڈیا کریٹیویٹی ایوارڈ ‘کا اعلان کیا گیا۔
پانچویں یہ طے کیا گیا کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں الگ الگ نوعیت کے فلسطین کے ایشو پر بہت سے تربیتی پروگرام کے انعقاد پر زور دیا جائے گا۔
کہا گیا کہ چھٹی کوشش یہ ہوگی کہ دنیا کی صحافتی برادری کو فلسطین کے اندرونی حالات سے آگاہی کے لیے ان کو مقبوضہ علاقوں تک پہونچانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ صحافی برادری خود فلسطینی عوام کی روز مرہ کی دشواریوں کا مشاہدہ کر سکیں۔


ترکی کے شہر اسستنبول کو اس کانفرنس کے لیے منتخب کرنا کئی اعتبار سے معنی خیز معلوم پڑتا ہے۔ ایسا سمجھا جا رہاہے کہ ترکی کے صدر رحب طیب اردغان کی قیادت میں ترکی اہم بین الاقوامی معاملات میں واضح نقطہ نظر اور مضبوط عزائم کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ شہر استنبول اس خطے میں ایشیا اور یورپ کا مرکز ہے،امید کی جاتی ہے کہ فلسطین کی آزادی کے حق میں یہاں سے اٹھنے والی آواز دونوں خطوں کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہے گی۔ یہ لڑائی اسی روز مکمل ہوگی جب دنیا کے نقشے پر ایک خود مختار آزاد فلسطینی ریاست بحال ہوگی۔ امید کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا برادری سے فلسطین کی یہ گفتگو آنے والے دنوں میں فلسطین کی آزادی کے لیے رائے سازی میں کس قدر موثر ہوگی ۔اور آخر میں فلسطین کی آزادی چاہنے والوں کے لیے اظہر عنایتی کا یہ شعر جو مظلوم فلسطینیوں کے لیے ہم سب کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کرتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 
یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں 
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
29؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا