English   /   Kannada   /   Nawayathi

دعا اور بددعا مسلمان کے پاس ہیں تو خوف کس کا

share with us

حفیظ نعمانی

پاک پروردگار نے فرمایا کہ ’’مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا‘‘ ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے اس پروردگار کا جس نے ہمیں ایسے خاندان میں پیدا کیا اور ایسا ماحول عطا کیا کہ دعا اور بددعا کے بارے میں یقین ہے کہ اللہ کے بندوں کے لئے ان سے زیادہ بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہے۔ ہم اپنے خاندان کی کوئی بات نہیں کریں گے جبکہ وہ خود ایک کالم میں بھی پوری نہیں ہوں گی۔ بات صرف ایک دعا اور ایک بددعا کی ہے جن میں ایک اپنی آنکھوں کے سامنے کی ہے اور دوسری ہے تو پاکستان کی لیکن راوی معتبر ہے۔
لکھنؤ میں تبلیغی جماعت کے مرکز کی عمارت ابتدا میں صرف ایک بڑا کمرہ اور تین چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بڑا کمرہ حضرت مولانا علی میاں کی قیام گاہ بھی تھا اور جماعت سے متعلق مشورہ کا ہال بھی۔ ایک دن حضرت صوفی عبدالرب جو سرکاری اسکول کے استاد بھی تھے لیکن اپنی شکل، صورت اور لباس سے عالموں سے بھی بڑے عالم لگتے تھے تشریف لائے۔ مولانا علی میاں اور مولانا منظور نعمانی دونوں سے کہا کہ ایک پریشانی میں ہوں آپ دونوں عالم ہیں دعا کیجئے کہ میں اس پریشانی سے نجات پاجاؤں۔ یہ بات دونوں بزرگوں کو معلوم تھی کہ وہ دین اور زندگی کے اصولوں کے بارے میں اتنے سخت تھے کہ 30 سال کی ملازمت میں 32 تبادلے ہوئے تھے اور اس وقت کی پریشانی یہ تھی کہ ایسے پہاڑی علاقہ میں تبادلہ کیا گیا تھا جہاں ایک لوٹا پانی میلوں سے لانا پڑتا تھا اور گائے کا پیشاب عام طور پر پانی کی جگہ استعمال ہوتا تھا۔ دونوں بزرگوں نے کہا کہ وہ حدیث تو نظر سے گذری ہوگی جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہت سے خستہ حال اور پریشاں بال بندے ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان کے بھروسہ پر اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اس قسم کو پورا کرتے ہیں۔ آپ واقعی صوفی ہیں اور خستہ حال ہیں ذرا پریشاں بال کرکے قسم کھایئے اور دعا کیجئے ہم صرف آمین کہیں گے۔ اور صوفی صاحب نے اسی جگہ سر سے کھدر کی پگڑی اتاری داڑھی کو منتشر کیا اور ہاتھ اٹھاکر رب کعبہ کی قسم کھائی کہ میں اس اسکول میں جوائن نہیں کروں گا اور میری ملازمت باقی رہے گی اور دونوں عالموں نے بہ آواز بلند آمین آمین کہا۔
شاید ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے ڈائرکٹر تعلیمات کو جو اپنے دین کی سلامتی اور پاک نہ رہ پانے کے گناہ سے بچنے کے لئے اس کے بجائے کہیں بھی ایسی جگہ تبادلہ کی درخواست دی تھی جہاں پانی قریب میں مل جائے وہ منظور کرلی گئی اور تبادلہ اُناؤ کردیا گیا۔
روزنامہ ایکسپریس کراچی میں جاوید چودھری نے ایک سچا واقعہ لکھا ہے۔ اسلام آباد میں راول ٹاؤن چوک سریتا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے 1993 ء میں یہاں ایک چھوٹی سی مسجد اور ایک چھوٹاسا گاؤں تھا امیر لوگ گاؤں کی اپنی زمینیں من مانی قیمت پر فروخت کرکے فارم ہاؤس بنا چکے تھے لیکن وہ غریب رہ گئے تھے جو گاؤں کے مکین تھے تو لیکن زمین ان کی نہیں تھی۔ نہ حکومت نے کوئی معاوضہ دیا اور نہ کہیں کوئی ٹھکانہ وہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے گھروں میں پڑے تھے۔ ضلع انتظامیہ ہر مہینہ خالی کرنے کے نوٹس دیتی رہتی تھی لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ کہاں جائیں؟
1999 ء میں جنرل مشرف حکمراں بن گئے ان کا قافلہ روز اس راستہ سے گذرکر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا۔ جنرل مشرف کی نازک طبع پر بھی یہ جھونپڑی بار گذرتی تھیں ایک دن انہوں نے کھڑکی سے دیکھا اور حکم دے دیا کہ انہیں صاف کردیا جائے۔ راوی کا بیان ہے کہ ایک دن اُدھر سے گذرا تو اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا ان غریبوں کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیاں پچکے ہوئے برتن اور پھٹی رضائیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ گاؤں صاف ہونے کے بعد وہاں صرف ایک مسجد اور چند قبریں باقی رہ گئی تھیں۔
2007 ء میں دوسرا پہلو سامنے آیا ملک میں اس وقت جنرل مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس آئے وہ ٹانگوں سے معذور تھے میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لاسکا وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا وہ اسے لیڈ کررہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے دو لڑکے ایک لڑکی۔ اپنی شادی پسند کی کی تھی وہ سی ایس پی افسر تھے کیرئیر بہت برائٹ تھا سینئر ان کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے ان کا اپنا خیال بھی تھا کہ وہ بہت اوپر تک جائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قانون پر سو فیصدی عمل ہونا چاہئے اور جو شخص قانون کے راستہ میں حائل ہو اس پر بلڈوزر چلا دینا چاہئے۔ چنانچہ جب جنرل مشرف نے راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری ان کو سونپی گئی۔ یہ فورس لے کر وہاں پہونچے اور گھر گرانا شروع کردیئے لوگ مزاحم ہوئے پولیس نے ڈنڈے برسائے لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی۔
قصہ مختصر آپریشن مکمل ہوگیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کردیا آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی جو وہاں سے نہیں ہٹ رہی تھی ان کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ وہ ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملے بغیر نہیں ہٹیں گی انتظامیہ ایسے موقع پر خواتین سے زور زبردستی نہیں کرتی ہے لہٰذا انہیں بتایا اور وہ اس خاتون کے پاس چلے گئے۔ خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور معلوم کیا کہ صاحب یہ آپریشن آپ نے کیا ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں۔ اس نے جھولی پھیلائی آسمان کی طرف دیکھا اور بولی، پروردگار اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی ہے یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کردے۔ میں اس وقت جوان تھا میں نے اپنا منھ دوسری طرف کرلیا۔ اس خاتون نے اس کے بعد کہا کہ ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کردے۔ اس کے بعد اس نے اپنی پوٹلی اٹھائی اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر چلی گئی نہ جانے کہاں۔
اس کے بعد انہوں نے آنسو پونچھے اور کہا کہ جاوید صاحب وہ دن ہے اور آج کا دن میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا۔ میرا ایکسیڈنٹ ہوا دونوں ٹانگیں کاٹی گئیں بیوی اور بیٹی کی موت ہوئی میرے دونوں بیٹوں کو موت لے گئی میرے دوست احباب نے منھ پھیر لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تحقیق کی ہے اور معلوم ہوا کہ اس آپریشن میں شریک ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا اور کوئی اپنے گھر میں نہیں ہے۔
کچھ نہیں معلوم کہ وہ اللہ کی بندی کون تھی اور کوئی ضروری نہیں کہ وہ عالمہ فاضلہ عابدہ اور زاہدہ ہو۔ پروردگار نے یہ شرط نہیں رکھی ہے کہ میں دعایا بددعا کرنے والے کے اعمال کا رجسٹر دیکھ کر فیصلہ کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔ ’’میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہوں۔‘‘ آج ملک کے حالات میں ہر مسلمان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس جو دعا اور بددعا نام کے دو بم ہیں ان سے زیادہ اثر والے بم نہ بنے ہیں نہ بنیں گے بس یہ یقین ہونا چاہئے کہ ہم جس مالک سے کہہ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے اور وہ سن رہا ہے اور کوئی شرط نہیں ہے کہ نماز پڑھ کر دعا مانگے یا وضو کرکے بددعا کرے بس مقصد نیک ہونا چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا