English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم سے سیکھے کوئی آداب محبت ناظم

share with us


حفیظ نعمانی


کل ہم نے کیرالہ کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی صدر امت شاہ کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔ ہمیں تکلیف اس کی تھی کہ ایک حکمراں پارٹی کے صدر نے ایک منتخب وزیراعلیٰ کے بارے میں بات کرتے ہوئے جس لہجہ اور الفاظ کا استعمال کیا وہ نہ بولنے والے کے شایانِ شان تھا اور نہ سننے والے کے۔ پارٹی صدر امت شاہ کیرالہ میں ایسے بول رہے تھے جیسے اپنی پارٹی کے ان ممبروں سے مخاطب ہیں جن کو جو کام جیسے کرنے کو کہا تھا اور انہوں نے ویسے نہ کرکے اپنی مرضی سے کرلیا ہو۔ پارٹی صدر کا یہ کہنا کہ وہ کان کھول کر سن لیں یا میں حکومت گرا دوں گا یا اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ یہ انداز بھی گرا ہوا ہے اور الفاظ بھی غیرمعیاری ہیں۔
ہم نے ذکر کیا تھا کہ ہم 50 سال پہلے گئے تھے موقع تھا آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سلور جبلی جشن کا۔ اس کانفرنس میں ہندوستان بھر کے اہم مسلم لیڈروں، مرکزی اور صوبائی مسلم وزیروں، اہم مسلم ممبران پارلیمنٹ اور اہم صحافیوں کو بلایا تھا مہمانوں کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ ہم جیسے معمولی درجہ کے صحافی جانے والے بھی مدعو تھے۔ کیرالہ میں مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی اس کی طرف سے جشن کے داعی ڈاکٹر عبدالغفور سے مسلم لیگ نے درخواست کی اس جشن کو ہم اپنی پارٹی کی طرف سے کریں اور پورا خرچ بھی اُٹھالیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے عذر کیا کہ ہم نے جماعت کو نہیں افراد کو بلایا ہے ان میں وہ بھی ہوں گے جن کا سیاسی طور پر مسلم لیگ سے اختلاف ہے۔ ایسے میں وہ شریک ہونا پسند نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ اتنے اچھے موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی اور ڈاکٹر صاحب جنہوں نے مرکزی حکومت کے مسلم وزیروں کو بھی بلایا تھا وہ ان کی وجہ سے مجبور تھے۔
ہم یونس سلیم صاحب کے ساتھ ریلوے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہر ے ہوئے تھے۔ اجلاس کی پہلی نشست تین بجے شروع ہونا تھی جو کسی کالج کی عمارت میں تھی اور لان میں بھی کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ مین روڈ سے کالج جانے والی پتلی سڑک کے دونوں طرف بانسوں میں سوکھی گھاس جیسی کوئی چیز لگی تھی اور اس میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی اپنی ایک ایک جھنڈی لگی تھی۔ دوسرے دن دس بجے صبح سے دوسرا اجلاس ہونا تھا اس کے لئے جو گئے تو دیکھا کہ ان بانسوں میں دوسری طرف مسلم لیگ کی جھنڈی لگی ہوئی ہے۔ اندر جب پہونچے تو وہاں ذکر سنا کہ مسلم لیگ نے یہ جھنڈیاں اپنی طرف سے لگادی ہیں اور پھر یہ کہانی سنائی کہ مسلم لیگ کیا چاہتی تھی اور ہم نے کیوں نہیں مانا۔ اگر یہ کام شمالی ہند کے کسی شہر میں ہوا ہوتا تو جشن کے منتظمین مسلم لیگ کی جھنڈیاں نوچ کر پھینک دیتے۔ لیکن ہم نے کسی کے منھ سے نہیں سنا کہ مسلم لیگ کی جھنڈیاں نکال کر پھینک دو۔ اس کے بجائے اجلاس شان و شوکت کے ساتھ چلا اور ایک بجے نماز اور کھانے کیلئے شام تک کے لئے ملتوی ہوگیا۔ تیسرے اجلاس کے بارے میں اعلان ہوا کہ وہ بعد مغرب ہوگا۔ اس میں شرکت کے لئے آئے تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہر بانس میں ہر رنگ کی جھنڈیاں لگی ہیں اور یہ امتیاز ہی ختم ہوگیا کہ اجلاس کس کا ہے بلکہ وہ خوبصورتی کی ایک علامت بن گیا۔
اپنی زندگی میں ہر طرح کا اور ہر حیثیت کے لوگوں کا اختلاف دیکھا اور سنا لیکن 50 برس پہلے دسمبر 1968 ء میں کالی کٹ میں جیسا علمی اختلاف دیکھا وہ نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ اس کے بعد۔ اور دوسرا نمونہ یہ ہے کہ بی جے پی کے صدر امت شاہ جن کا ایک بھی پارلیمنٹ کا ممبر کیرالہ میں نہیں ہے اور نہ ان کی پارٹی کیرالہ کے اسمبلی ہال میں اپوزیشن پارٹی ہے اس کے باوجود تقریر ایسے کررہے ہیں جیسے انہوں نے حکومت بناکر دے دی ہے اور وہ آقا کی طرح اپنے نوکروں کو ڈانٹ رہے ہیں یا دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اور کیرالہ کے وزیراعلیٰ اگر شمالی ہند کا ہوتا یا گجراتی ہوتا تو کہتا کہ آج سورج ڈوبنے سے پہلے کیرالہ چھوڑکر چلے جانا ورنہ وہ کروں گا جو لالو پرشاد یادو نے اڈوانی جی کے اور رتھ کے ساتھ کیا تھا اور جیل میں ڈال کر بھول جاؤں گا کہ بہار کی کس جیل میں ڈالا تھا۔ انہوں نے وہی پیمانہ رکھا کہ ایک بات تو یہ کہی کہ میری حکومت بی جے پی کی مہربانی سے نہیں بنی ہے۔ انہوں نے امت شاہ کے سپریم کورٹ پر بیان کے بارے میں یہ کہا کہ یہ کورٹ پر حملہ ہے۔ اور وہ سبری مالا مندر میں ہر عمر کی عورت کے جانے کی حمایت کرکے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرا رہے ہیں عدالت کا وہ حکم جو پانچ رُکنی بینچ نے چار ججوں کی حمایت سے دیا تھا۔ کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی کے وزیراعلیٰ نے وہی کیا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ کرتے ہیں کاش بی جے پی کے صدر کیرالہ سے اختلاف کا سبق ہماری طرح پڑھ کر آئیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا