English   /   Kannada   /   Nawayathi

استنبول میں چہار رکنی شام اجلاس اختتام پذیر، سربراہان کے اہم اعلانات

share with us

استنبول:28؍اکتوبر2018(فکروخبر/ذرائع)صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ ترکی کی سرحدوں پر  دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

صدرِ ترکی نے استنبول میں  منعقدہ شام سربراہی اجلاس  کے بعد روسی صدر ولادیمر پوتن ، فرانسیسی صدر امینول ماکرون اور  جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرس کا اہتمام کیا۔

جناب ایردوان نے اس موقع پر کہا کہ "ہمارا ہدف  شام میں فائر بندی کا مکمل طور پر اطلاق اور اس پر عمل درآمد ہے،  ہم اس ملک میں خونریزی کے فی الفور روکے جانے کے متمنی ہیں۔"

انہوں نے  بتایا کہ شامی تنازعے  کےایک عالمی مسئلے کی ماہیت اختیار کرنے کی اہم ترین وجہ عالمی برادری کی جانب سے اس پر مطلوبہ حد تک توجہ نہ دینا ہے، اجلاس میں ہمیں  شامی عوام کے جائز مطالبات کی روشنی میں کسی سیاسی  حل کے حصول اور ملک  میں استحکام کے قیام کے لیے ممکنہ اقدامات  پر غور کرنے کا موقع ملا ہے۔ طویل عرصے سے جاری شامی بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کے بوجھ  کو شامی شہریوں سمیت ہمسایہ ممالک نے اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے، آج کے اس اجلاس میں فرانس اور جرمنی کی بھی شراکت سے آستانہ میں حاصل کردہ مثبت فضا کو مزید آگے بڑھا سکنے کا مشاہدہ ہوا ہے۔

انہوں نے زور دیا  کہ متعدد ممالک  شام کی صورتحال کی سنگینی کا اس بحران کے اثرات اپنی اپنی سرحدوں پر محسوس کرنے پر ادراک کر سکے ہیں ، ہمیں اس عدم توجہی کا اب خاتمہ کرنا ہو گا۔

صدر نے بتایا کہ چاہے ان چار ملکوں کے بیچ یا پھر عالمی سطح پر تعاون کے فروغ  پر ہم نے مطابقت قائم کی ہے، ہم نے شام میں آئینی کمیٹی کے قیام کے عمل کو قلیل مدت کے اندر حالات کو بالائےطاق رکھتے ہوئے  پایہ تکمیل تک پہنچائے جانے کی  اپیل کی ہے۔

اجلاس میں شام سے تعلق رکھنے والے دہشت گردی کے خطرات پرغور کیے جانے اور باہمی تعاون میں تقویت کے معاملات پر ہم آہنگی قائم ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے جناب ایردوان نے بتایا کہ ترکی دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصانات برداشت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے  شام میں فرات ڈھال اور شاخِ زیتون آپریشنز  کیے اور چار ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے کو محفوظ علاقے کی ماہیت دی ہے، ہم ہماری سرحدوں پر دہشت گرد  تنظیموں کو ڈھیرے جمانے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی خطے میں  بلا اطلاع کے کسی نئے اقدام کو قبول کریں گے۔

سر براہی اجلاس میں انسانی امداد کے معاملے پر بھی مصالحت قائم ہونے کی توضیح کرنے والے صدر نے بتایا کہ ترکی  پینتس لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مجھے یقین ہے کہ" سربراہی اجلاس کے شرکت داروں کے طور پر ہم اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں گے، ترکی  مسئلے کے حل کی تلاش کے لیے اپنے عزم کو جاری و ساری رکھے گا، ہم اس اجلاس کی تفصیلات سے ایران کو بھی آگاہی فراہم کریں گے، ہمارا عزم شام عوام سے تعاون کا تقاضا پیش کرتا ہے۔ "

مشترکہ پریس کانفرس سے خطاب کرنے والے دوسرے لیڈر ولا دیمر پوتن  کا کہنا تھا کہ شام میں مسئلے کا حل محض سفارتی طریقوں سے ہی تلاش کیا جانا ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام کے معاملے میں عالمی برادری کو شانہ بشانہ کوششیں صرف کرنی چاہییں۔

فرانسیسی صدر امینول ماکرون نے  بھی اس موقع پر کہا کہ "شامی عوام کو اپنے مستقبل کے حوالے سے حق  خود ارادیت  کا مالک ہونا چاہیے۔"

انہوں نے واضح  کیا کہ خطے اور دنیا میں  کہیں بھی کیمیاوی  اسلحہ  چاہے کسی کی بھی طرف سے استعمال کیوں  نہ کیا جائے اسے ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا۔

جرمن چانسلر  انگیلا مرکل نے بھی پریس کانفرس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں پناہ گزینوں  کے اپنے وطن کو لوٹنے کے موضوع  پر غور کیا گیا ہے ۔  اس معاملے پر اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر گہرا تعاون قائم کیا جانا چاہیے۔ واپس لوٹنے پر ان کو حراست میں نہ لیے جانے اور انسانی ڈھانچے کے قیام کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔  سیاسی سلسلے  کی اس دور میں تلاش اہمیت کی حامل ہے۔ ادلیب کے مسئلے کو پر ام ن طریقے سے اور انسانی مسائل کے پیش آئے بغیر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا