English   /   Kannada   /   Nawayathi

عیدالاضحی: کامل بندگی کابے مثال نمونہ، جو ایثار وقربانی کا پیغام دیتی ہے۔

share with us

جس کے پیچھے ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے، اللہ کے خلیل ، ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابتداء ہی سے اپنے پیغمبرانہ فریضہ کی ادائیگی، اور منصب پیمبری عطا ہونے کے تحت بہت سے امتحانات وآزمائشوں سے گذرناپڑا،اللہ کی رضا اور اسکی خوشنودی کے لئے قربانی کی کوئی ایسی قسم نہیں جو ان سے چھوٹی ہو،امتحان و آزمائش کی کوئی ایسی بھٹی نہیں جس میں ان کو تپایانہ گیا ہو، جن میں وہ کامیاب رہے۔
توحید کی آواز بلندکرنے کی سزا میں نمرود نامی بادشاہ نے دہکتی آگ میں آپ کو ڈلوادیا،نتیجہ میں آگ گلزار ہوگئی، حکم ربانی کی تعمیل میں اپنے شیر خوار ولخت جگر اسمعیل علیہ السلام اورمحبوب اہلیہ حضرت ہاجرہ کو مکہ کے سنسان، ویران، آب وگیاہ، چٹیل وبنجر علاقہ میں تنہاچھوڑ نے کے علاوہ مصلحست ربانی کے سامنے اپنی قلبی محبت کی پرواہ نہ کی تھی،جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کو وہاں بھوک وپیاس لگی،حضرت ہاجرہاپنے بیٹے کی بھوک وپیاس کو مٹانے کی سعی میں صفا ومروہ پر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگی، ممتا کی اس بے چینی ، بے قراری،اور اضطراری کیفیت سے باری تعالی کے بحر کنار میں جوش آیا،اللہ نے جبریل امین کو حکم دیا،انھوں نے اپنی ایڑی زمین پرماری، تو ٹھنڈے اور شیریں پانی کا چشمہ ابل پڑا،جس کو حضرت ہاجرہنے مٹی اور پتھر وغیرہ سے’’ زم زم‘‘ کہہ کر روکنے کی کوشش کی، اسی وقت سے اس کنویں کا نام زم زم پڑا،اور اس کا پانی آب زم زم کہلایا،آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ آب زم زم مکمل ایک خوراک اور جبریل امین کا کنواں ہے، زم زم کا پانی جس نیت سے پیاجائے اس سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد ۸۶ سال کی عمر میں جب اللہ نے ایک بیٹا ( سیدنا اسمعیل علیہ السلام )کو عطا فرمایا،جن کی پرورش بڑے لاڈ اور پیا ر سے ہوئی،۱۳؍ سال کی عمر میں باپ کے کام آنے، سہارا و قوت بازو بننے کے جب لائق ہوئے، تو اللہ نے ایک کڑی آزمائش میں مبتلا کردیاخواب میں یہ حکم مل رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شئے کو اللہ کی راہ میں قربان کردو، بعض روایات میں ہے کہ مسلسل تین دن یہ خواب دکھایاگیا،اور نبی کا خواب وحی کے درجہ میں ہوتا ہے چنانچہ ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے اس خواب کا ذکر کیا، بیٹا خود ایک نبی، اور نبی کا بیٹا، حضرت اسمعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اے اباجان جسکا حکم ملا ہے،اسکی تکمیل وتعمیل فرمایئے، ان شاء اللہ آپ مجھ کو صابرین میں سے پائیں گے۔
یہ فیضان نظرتھا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائی کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
اب وہ لمحہ آتا ہے جس کو دیکھ کر عقل عاجز، جن وبشر پریشان و حیران ، فرشتے بھی مضطرب ہیں،زمین کانپ جاتی ہے،آسمان تھر ا جاتا ہے،اس نذرانہ محبت کے سامنے محبت کی ساری داستانیں بونی نظر آتی ہیں۔
زمیں سہمی پڑی تھی آسماں ساکن تھا بیچارہ نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ
لیکن مشیت الہی کچھ اور تھی ،آزمائش کا مقصد یہ دیکھناتھا کہ اولاد ملنے کے بعد اللہ کی محبت میں اولاد کی محبت تو حائل نہیں ہوئی ،مگر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کوزمین پر لٹا دیا اور چھری چلاکر یہ ثابت کردیا کہ ان کا عشق بے آمیز ہے، اس وقت رحمت خداوندی پکار اٹھی،، جس سے لخت جگرکی جگہ جنت سے اتارے گئے مینڈھے نے جگہ لی، اور اسمعیل وفدیناہ بذبح عظیم کے مصداق بنے،اور خدانے بھی اعلان کردیا کہ ابراھیم تم نے اپنا خواب پورا کردکھایا،اور ہم محسنوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں،جس کوقرآن نے قد صدقت الرایاانا کذالک نجز المحسنین سے تعبیر کیا ہے۔
باپ ، بیٹے کا عمل ا ور انکی والدہ کا صبر واستقامت اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیاتک ہر صاحب استطاعت مسلمان پرقربانی کرنا واجب قرار دے دیا، اور اس دن اللہ کی راہ میں قربانی کرنے سے بڑھ کر بندوں کاکوئی عمل اللہ کے ہاں پسند یدہ نہیں ہے، تاکہ سنت ابراہیمی کی یاد تازہ ہوتی رہے،اور لو گ اس جلیل القدر نبی کی فداکاری اور اطاعت گذاری کونمونہ عمل بناتے رہیں۔
قربانی کا مقصد محض جانورکو ذبح کردینا ہی نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں قربانی کا مقصد بیان فرمایا کہ’’ اللہ کے دربار میں نہ قربانیوں کا گوشت پہونچتا ہے،نہ اس کا خون،بلکہ اس تک تمھار ی پرہیز گاری اور تقوی پہونچتا ہے ، تقوی ہی قرآن کریم کے مطابق قربانی کی حقیقی روح ہے، قربانی کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ انسان اپنا ہر عمل خالص اللہ کیلئے کرے، اور جذبہ اخلاص سے اپنے قلب ودماغ کو منور کرکے اپنے اندر تقوی و ایثارکا کمال پیداکرے، اللہ سے بے پناہ تعلق کا اظہار کرنے کے ساتھ ہی اپنے نفس کی قربانی پیش کرے،اللہ کے ہر حکم ، دین کے ہر مطالبہ پر نچھاورہونے اوراپنے مفادات و خواہشا ت کو بھی قربان کرنا سیکھے،اپنے پورے وجود کورضائے الہی کی خاطرفناکردے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے حالات، واقعات،ایثار وقربانی، صبرواستقامت سے ہمیں ایک بنیادی پیغام یہ ملتا ہے کہ اللہ کی ذات کو راضی کرنے کے لئے باپ کی دشمنی،قوم کی مخالفت،اور دشمنی کے نعرے کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی، کیونکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی صورت حال یہ تھی کہ باپ بھی دشمن،قوم بھی مخالف،باد شاہ وقت خون کا پیاسا،ہر طرف سے مخالفت اور دشمنی کے نعرے،انتقام لینے اور زندہ جلادینے کے ارادے،کوئی دوست نہیں ، کوئی حمایتی نہیں،کوئی مدد گار نہیں،مگر حضرت ابراھیم علیہ السلام کو نہ کوئی پرواہ تھی، نہ کوئی ڈر اور خوف تھا،وہ ہر خطرے سے بے نیازاعلان حق میں سر شاراور رشدو ہدایت کی دعوت میں مشغول رہے،بس ایک سہارا تھاوہ تھااللہ کی ذات کا سہارا،جو دل کو تقویت پہونچاتا،اور حوصلوں کو جلادیتا تھا، اور سب پر غالب تھا،اور ہر ابتلاء و آزمائش میں سر خرو ہوئے، اللہ نے ان کے امتحان میں کامیابی کی لازوال شہادت اپنے مقدس کلام میں بھی دی ہے۔
آج بھی جو ابراہیم کاایماں پیدا آگ کرسکتی ہے، اندازگلستاں پیدا
لیکن ہر دور میں اگر یہ دستو ر رہا ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالی کی دعوت اور خلوص کا دعوی کیا ہے اسے عظیم آزمائشوں و پریشانیوں کا سامناکرنا پڑا ہے،ہر بڑی کامیابی جدوجہد وقربانی چاہتی ہے،ایسی کامیابی جو تاریخ کا رخ موڑ دے، وہ بے پناہ محبت ومشقت چاہتی ہے،تو دوسری طرف تاریخ شاہد ہے کہ انہیں لوگوں نے بڑی بڑی ترقیاں وعظیم کامیابیاں حاصل کیں،جو حالات کے دباؤ میں مبتلاتھے،اور وہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہے۔
لہذا مصائب ومشکلات کا شکار ہونے کے بعدناامیدی کے بجائے اپنے آپ پرقابواو ر پرامید ہونا چاہیے،اور ہر وہ قربانی دے جو اس کا مقصد اس سے تقاضہ کرے،کیونکہ خالق کائنات نے انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں،جس سے انسان بربادی کے کھنڈرمیں بھی کھڑاہوکراپنی نئی زندگی و نئی تعمیر کا منصوبہ بناسکتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام مشکلات ، پریشانیاں،آزمائشیں ایک عظیم انقلاب کی داغ بیل اور عالمی خیر وفلاح کا پیش خیمہ ثابت ہونے کے ساتھ ہی بہت بڑا پیغام دے رہی ہیں،عین ممکن ہے کہ حالات نے جہاں آپ کی کہانی ختم کردینی چاہی تھی،وہیں سے آپ کی زندگی کے ایک نئے شاندار باب کا آغاز ہوجائے۔ ہرکامیابی، ہر ترقی کی ایک قیمت ہے،جس کے ساتھ اسکی قیمت کا ایک پرچہ لگاہوا ہے،جو جتنی قیمت دے گا ، اسی کے بقدر اسکو کامیابی وترقی ملے گی۔
یہی کیفیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تھی، جس کی قیمت اللہ تعالی نے یہ عطافرمائی کہ ساری انسانیت کا امام بنادیا،ارشاد خداوندی ہے،انی جاعلک لناس اماما، صحا بہ کرام نے آپ ﷺ سے عرض کیاکہ قربانی کی حقیقت کیا ہے،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراھیم کی سنت ہے،پھر سوال کیا کہ اس میں ہمارے لئے کیافائدے ہیں،؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے تمہیں ایک نیکی ملے گی،اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ’’جوشخص قربانی کی گنجائش رکھے،اور قربانی نہ کرے،تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘۔
لہذا انسان اپنے آپ کو تولے کہ اس نے جانور کی قربانی کرکے علامتی طور پرخدا سے خود سپردگی کا جو وعدہ کیاہے ، کیا وہ زندگی کے ہر موڑ ہر پرصحیح اتر رہا ہے؟ اصل زندگی تو آخرت کی ہی زندگی ہے،اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے،جہاں ہرایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔اللہ ہم سب کی قربانی کوقبول فرمائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا