English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کی موجودہ صورتحال، مسائل اور اس کا حل

share with us

جس کی وجہ سے ملک کے حالات انتہائی ابتر ہوچکے ہیں کیونکہ نظم ونسق ختم ہوچکا ہے اور مسلمانوں کے خلاف بھیدبھاؤ اور نفرت عام ہوگئی ہے اور اسی طرز پر حکومت کام کررہی ہے۔ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں سے وابستہ افراد جو اس ماحول کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کررہے ہیں وہاں ملک کا قانون مکمل طور پر بونا ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں ان کے اندر سے قانون کا خوف اور احترام بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور وہ قانون کو باندی سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور قانون کو پامال کررہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف نظم ونسق کے لیے چیلنج نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی بقا کے لیے سم قاتل ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی تمام اکائیوں نے ملک کو آزاد کرایا تھا اسی لیے دستور تمام ہندوستانیوں کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اب برسراقتدار گروپ آر ایس ایس کی مرضی سے اسے بدلنا چاہتا ہے اور منواسمرتی کی اسپرٹ کو لانا چاہتا ہے چونکہ آر ایس ایس سماج میں یکسانیت، برابری، آزادی اور انصاف پر یقین نہیں رکھتی ہے اس لیے آزادی سے سوچنے کی آزادی نہیں ہے۔ کیا کھائیں کیا پئیں اس کی بھی آزادی نہیں ہے۔ اس کے لیے ہر وہ کام کررہی ہے جس سے مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلا جاسکے اسی کے ساتھ دلتوں، کمزور طبقات اور اقلیتوں کو بھی پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ دستور ہند نے غربت کی تکلیف، بے روزگاری سے نمٹنے، اقتصاد کو بہتر بنانے کے مقصد سے افرمیٹیو ایکشن کو دستور کا بنیادی حصہ بنایا اور اس کا منشا بھی یہی ہے کہ سماج کا جو طبقہ حاشیہ پر ہے اسے اوپر اٹھانے کے لیے ایسے پروگرام اور اسکیم بنائیں تاکہ حاشیہ پر رہ رہے طبقات کو بھی تعلیم اور اقتصاد کے مین اسٹریم میں لایاجاسکے اس کو درکنا رمسلمانوں کو حاشیہ پر رکھا گیا ہے۔ مسلمان غریب، ان پڑھ اور روزگار سے دور ہے کیا اس کے لیے مزید کسی شہادت کی ضرورت ہے کہ مسلمان اقتصادی طور پر اتنے بُرے دور سے دوچار ہے تو کیا کوئی افرمیٹیو ایکشن نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس کا اندازہ گزشتہ دنوں آئی حکومت کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بھیک مانگنے والوں میں ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق 2011میں مسلمانوں کی آبادی 14.23 فیصد تھی جبکہ بھکاریوں کی فہرست میں ان کا حصہ 24.9 فیصد ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بھیک مانگنے میں نمبر ایک پر مسلمان ہیں۔
دوسر ابڑا مسئلہ تعلیم کا ہے ۔ تعلیم ملک کے 14سال کے ہر بچے کے لیے لازمی ہے لیکن تازہ اعداد وشمار کے مطابق مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں۔ مسلمانوں کی اس تعلیمی صورتحال سے نمٹنے اور اس کو آگے بڑھانے، تعلیم یافتہ بنانے کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ دستور اس کے افرمیٹیو ایکشن کی حکومت کو پوری اجازت دیتا ہے حتی کہ حکومت کی جانب سے جو نئی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ سامنے آیا ہے اس میں حکومت تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگنے پر زیادہ توجہ ہے، تعلیم کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وزیر وسائل انسانی کی طرف سے جو اِن پٹ (Input) آیا ہے اس میں قدیم عہد کو تہذیب وثقافت کے طور پر پیش کرنے کا منصوبہ حکومت بنا رہی ہے۔ لیکن اس میں ملک کی دیگر اکائیوں کی جو روح دستور میں رکھی گئی ہے اسے بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
اقتصادی سروے اور انڈکس کے مطابق تعلیم جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ ترقی کی ضمانت دیتی ہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اگر تعلیم کا بجٹ کم ہوجائے تو اس ملک کی آئندہ ترقی کے امکان ختم ہوجاتے ہیں۔ اقتصادی طور پر مسلمانوں کو آگے بڑھانے کا کوئی اسپیشل پیکج نہیں ہے جبکہ اسکل ڈیولپمنٹ، ووکیشنل ٹریننگ جیسی اسکیمیں گزشتہ حکومت نے بنائی اور افرمیٹیو ایکشن کے ذریعہ جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد بھی موجود ہے وہاں اسے تنفیذ اسپیشل پیکج کے ذریعہ کرسکتی ہے مگر حکومت کا رجحان نظر نہیں آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تعلیم کو عام کرنے کا نعرہ اور دوسری طرف تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی۔ کیا اسے عوام تضاد نہیں کہے گی اور یہ کٹوتی کس چیز کی علامت ہے؟ کیا یہ ملک کو آگے جانے کی باتیں ہیں یا پھر پیچھے ڈھکیلنے کی۔
خواتین اور بچوں کی صحت کا بجٹ بھی کم کیا گیا اور ملک کو آئندہ نسل کے ذریعہ مضبوط کرنے کا کیا یہ صحیح طریقہ ہے۔ خواتین جو کسی بھی ملک کو مضبوط اور نئی نسل کو صحیح تربیت دیکر آگے بڑھانے کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس بجٹ کی کٹوتی کیا معنی رکھتی ہے اور اس بجٹ کا براہ راست تعلق غریب، کمزور، پسماندہ اور آدی واسیوں سے ہے چونکہ پرائیویٹ اسپتال تک پہونچنا ان لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ جس کا اثر یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ غریب آدمی علاج کرانے میں ناکام ہے اور بچے نت نئی بیماریوں کا شکار ہوکر معذور ہورہے ہیں اور اکثر دنیا چھوڑ رہے ہیں حتی کہ موت کے بعد بھی اسے ایمبولینس تک دستیاب نہیں ہے۔ کہیں 10کلومیٹر تک بیوی کی لاش کو کندھے پر اٹھاکر لے جانا پڑرہا ہے تو کہیں مردہ ماں کو اسکوٹر پر بٹھاکر انتم سنسکار کے لیے لے جاناپڑرہا ہے او رکہیں ماں مردہ لاش کو لے کر ایمبولینس اور کسی سہارے کی تلاش میں رات گزار رہی ہے۔ اس صورتحال سے صرف دلت اور مسلمان ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ سماج کے کمزور طبقات، آدی واسی اور حاشیہ پر رہ رہے طبقات زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ان کی کھلی پالیسی ہے چونکہ برسراقتدار گروپ اور اس کے حوارین کو امن وسکون پسند نہیں ہے اور وہ سماج کے دیگر طبقات کو باہم دست وگربیاں دیکھنا چاہتا ہے اس لیے اس پالیسی کو ختم کرنا نہیں چاہتی ہے۔ جس کی وجہ سے آج سماج کی سبھی اکائیاں پریشانی سے دوچار ہیں اور مضطرب دکھائی پڑ رہی ہیں۔ ان حالات کا حل کیاہے؟ آئیے اس کا حل تلاش کریں:
۱۔ جمہوری نظام میں کمزور طبقات، اقلیتوں، آدی واسیوں اور دلتوں کو دستوری پہلو سے حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جس میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ ان طبقات کے اندر اتحاد پیدا ہو اور متحد ہوکر جدوجہد کریں۔ جو اسکیمیں قابل عمل ہیں خواہ تعلیمی میدان میں ہوں، اقتصادی میدان میں ہوں، اسکل ڈیولپمنٹ ہو یا دستکاری، کو آگے بڑھانے کے میدان میں ہو ان سب میں مل جل کر آفیسرز پر دباؤ ڈالا جائے کہ اس کا نفاذ صحیح طور سے کیا جائے اور بھید بھاؤ کے خلاف متحرک ہوجائیں تاکہ سارے لوگوں تک انصاف پہنچ سکے۔
۲۔ حکومت مرکز کی ہویا صوبے کی، لوکل باڈیز کی ہو یا پنچایت کی ہو جہاں بھی کرپشن پایا جائے اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور جمہوری طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے ایسی پارٹیوں کو جو تفریق کو بڑھاتی ہیں اور تعصب کو پروان چڑھاتی ہیں، زہر پھیلاتی ہیں ان کو اقتدار کے گلیارے سے باہر کرنے کے لیے اپنے قیمتی ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔
۳۔ مسلمانوں کا خاص طور سے دینی فریضہ ہے کہ وہ ایسے تمام طبقات کے ساتھ مل کر انسانیت کو بڑھانے، بھائی چارگی کو فروغ دینے اور انصاف کے لیے تگ ودو کرنے کے لیے قربانی پیش کریں اور ایسے تمام ادارے جو تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں ان کے دروازے سبھی کے لیے کھول دیں۔
حکومت کی تعلیمی میدان میں چل رہی اسکیمیں جیسے ووکیشنل ٹریننگ،اسکل ڈیولپمنٹ وغیرہ کے بارے میں جانکاری ایک دوسرے سے شیئر کریں اور آپسی تعاون کے ذریعہ فائدہ اٹھائیں۔
اور آخری بات یہ کہ سماج میں جو بھی انصاف پسند عناصر ہوں وہ خواہ کسی دین دھرم کے ماننے والے ہوں کسی ذات برادری سے تعلق رکھتے ہوں ایک دوسرے سے اس طرح گھلیں ملیں کہ امن وآشتی کو بڑھانے، نفرت کی آگ بجھانے اور سماج میں انصاف کی تشکیل کرتے نظر آنے لگے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا