English   /   Kannada   /   Nawayathi

گئو ماتا، مہنگائی موسی، سیاست کیسی؟

share with us

وہ مودی کو کم اور شوہروں کو زیادہ کوسنے لگی ہیں کہ آمدنی بڑھائو ورنہ ہم بھی سارا مال لے کر مالیا ہو جائیں گے اور تم این ڈی ٹی وی کی طرح چیختے رہنا، کوئی نہیں سنے گا ۔ سو حکم عدولی کی جرآت نہیں کر سکا اور بازار کی طرف نکل گیا۔ سبزی منڈی میں ہر سو مہنگائی بک رہی تھی ، جسے بدعنوانی کے ترازو میں تول کر بے ایمانی کی پالیتھین میں رکھا جا رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب سبزی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا کہ آیا یہ کوئی آدمیوں کے کھانے کی چیز ہے۔ گھاس پھوس تو جانور کھایا کرتے ہیں ، مگر جب سے جانور دیکھنے کی چیز ہوگئے ہیں اور گھر کی دال مرغ سے کئی گنا مہنگی ہوگئی، ارہر کی کھچڑی ، پی ایم او کی کچہری تک ہلانے لگی، تب سے سبزیوں کو ہی چرنا پڑرہا ہے۔ کئی سبزیوں کے حسن کو دیکھ کر، چھو کر ، محسوس کر،سونگھ کردیر تک محظوظ ہوتا رہا، قیمتیں پوچھتا رہا اور خریدنے کی ہمت یکجا کرتا رہا۔ سبزی فروش بھی گاہکوں کی اوقات سے واقف ہیں ، قیمتیں پائو میں ہی بتاتے ہیں ،کلو کا بٹکھرا بھی نہیں رکھتے ،اگرخدا نخواستہ شاذ و نادر ضرورت پڑ گئی توجس اینٹ پر بیٹھے رہتے ہیں، اسی سے تول دیتے ہیں۔ مہنگائی جس طرح بڑھ رہی ہے ، ایک د ن ایسا بھی آجائے گا جب چاول بھی درجن کے حساب سے ملیں گے اور ساگ لینا ہوتو کہنا پڑے گا ، تین پتہ دے دو۔ بچے اپنی ماں سے کہیں گے ،اماں میں دکان میں دودھ دیکھ کر آگیا ہوں،بس روٹی دے دو،شکم سیر ہو جائوں گاا۔
انتہائی جرآت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے سبزی خریدی ،جھولے سے پیسہ نکالا اور سبزی جیب میں رکھ کر آگے بڑھا۔ چند قدم دور ہی نکلا تھا کہ پیچھےسے آواز آئی۔ اماں میاں، مبارک ہو سیلری مل گئی کیا، سبزی منڈی کی زیارت کرر ہے ہو۔ پلٹ کر دیکھا تو حاجی حجت خراماں خراماں چلے آرہے ہیں۔ ان کے پاس آتے ہی ،میں نے شکایت کی، اماں میاں حاجی، سنگھ کی افطار پارٹی کے بعد سے ایسے غائب ہوئے کہ گدھوں کے سر پر سینگ اگ آئےمگر تم نہیں اُگے۔ حالانکہ مجھے اردو اخبار کی ذرائع کی طرح غیر مصدقہ ذرائع سے خبر مل چکی تھی کہ وہ جب سے حلالہ کمیٹی کے صدر بنے ہیں ، گھروں کوتوڑ کر پھر جوڑ کر خوب پیسہ کما رہے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلا سوال یہی کیا کہ اماں یہ بتائو، سرکار یکساں سول کوڈ نافذ کر رہی ہے کیا؟ میں نے کہا، دیکھو ابھی تو وہ گائے اور گالی میں پھنسی ہوئی ہے ، مگر یوپی الیکشن سے پہلے ہو سکتا ہے کہ کچھ پیش رفت ہو جائے۔ حاجی غمگین صورت ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے طلاق کا سیدھا رشتہ ہے اورطلاق کا سیدھا رشتہ حلالہ کمیٹی سے ہے۔ سرکار کے فیصلہ پر ہی حاجی حجت کی تقدیر کا فیصلہ ہونا ہے۔
حاجی دلبرداشتہ ہوئے، بات بدل دی ،کہا اور سنائو بال بچے کیسے ہیں؟ میں نے کہا بیگم حمد و نعت پڑھا کرتی تھیں ، لیکن جب سے مہنگائی نے پھن اٹھایا ہے، وہی پرانا گانا گنگناتی ہیں ۔
سکھی سیاں تو خوب ہی کمات ہے
مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے
اور بچی ابجد سیکھ رہی ہے ،لیکن لفظ دال پر آتے ہی خود بخود رک جاتی ہے ، اس سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی۔ مجھے لگتا ہے کہ اسے بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ یہ بہت مہنگا لفظ ہے ، اسے یاد رکھنے سے اچھا بھول جانا ہے۔ عصمت چغتائی کولفظ 146ج145 سے چڑ تھی، انہوں نے 146 ٹیڑھی لکیر145 میں لکھا ہے کہ جیسے ہی میں اس لفظ پر پہنچتی ، مجھے مہترانی کا پھولا ہوا پیٹ یاد آجاتا اور مجھے ابکائی آنے لگتی۔ آج کل بچے لفظ146دال145 پر اٹکنے لگے ہیں کہ ، انہیں غربت کا شدید احسا س ہونے لگا ہے ۔ ہائے اب وہ دال روٹی بھی نہیں کھا سکتے کہ پربھو کے گن گا سکیں۔
حاجی ہنسے اور ہنستے ہوئے بولے ، بھابھی کو سمجھا دینا اب مہنگائی ڈائن نہیں ہے ، ڈائن وہ منموہن سرکار میں تھی، اب مودی سرکار میں یہ گھر میں بن بلائےآئی موسی کی طرح ہوگئی ہے، اس کے خیرمقدم کے لیے بدعنوان ہو جائیں یا پھر اسے بھگانے کے لیے بد اخلاق ہو جائیں۔ پرائم ٹائم میں ، سڑکوں پر،اجلاس میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں مہنگائی پردن بھر کے ہنگامہ کے بعد سرکار صرف ایک جملہ بول دیتی ہے کہ یہ مہنگائی کا موسم ہے۔ بارش نہیں ہوتی ، سوکھا پڑ جاتا ہے، ایسے میں سرکار کیا کرے ، سرکار میگھ تو نہیں برسا سکتی نا۔ بس بحث ختم، گویا مہنگائی اب کوئی ایشو نہیں ہے، اگر ایشو ہے تو ہمارے اور تمہارے لیے، یا ہم جیسے عوام کے لیے ، اب وہ وقت گیا کہ ٹماٹر خاں کرسیاں ہلا دیا کرتے تھےاور پیاز بیگم سلطنتیں الٹ دیا کرتی تھیں، اب مورچہ گایوں نے سنبھالا ہے ۔ وہ دودھ کے ساتھ ساتھ ووٹ بھی دے رہی ہے، اوریہ بھی سمجھ لو کہ مودی سرکار کوئی مہنگائی ، روزگار یارشوت خوری روکنے نہیں آئی ہے ، وہ اچھے دن لانے کے لیے آئی ہے۔ بس ایک بار امریکہ پٹ جائے ، پھر دیکھنا، امپورٹیڈ دال اور سبزیوں سے تمہارا گھر اور 15لاکھ سے تمہارا بینک اکائونٹ نہ بھر جائے تو کہنا۔ سرکار دیش کی ترقی کے لیے امریکہ کو پٹانے کا کام کر رہی ہے۔ گورنمنٹ ایٹ ورک ! کمبخت پاکستان درمیان نہ ہوتا تو ابھی تک اوباما مودی کا اتارا ہو اسوٹ پہن چکے ہوتے۔ یہ پاکستان ہی ہے ، جو ہندوستان کا بھائو گرادیتا ہے۔ 
حاجی کی باتوں میں دم تھا،واقعی اب مہنگائی سیاست کا ایشو نہیں بلکہ سماج کا ایشو بن چکی ہے اور سماج کے ایشو سے لیڈروں کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، وہ سماج کے اسی ایشوکو ٹچ کرتے ہیں جو ووٹ کے لئے لازمی ہوتا ہے۔ ابھی مہنگائی نہیں گائے ایشو ہے اور چونکہ گائے اب دودھ کی جگہ ووٹ دینے لگی ہے ، اس لیے تمام سیاستدانوں کے لیے وہ پوجنئے بھی ہوگئی ہے۔ شومئی قسمت کہ جو گائے کی نگہبانی کرتے ہیں وہ خوف میں ہیں ، جو گائے کی سیاست کرتے ہیں وہ موج میں ہیں۔ پہلے گائے کا استعمال دودھ انڈسٹری کے لیے ہوتا تھا، اب اس نے نفرت کی انڈسٹری قائم کر دی ہے۔ گئو رکشا اور گئو سیوا کے نام پر جگہ جگہ چندہ وصولی اور کہیں کہیں جبراً وصولی کادھندا زوروں پر ہے۔
حاجی حجت نے بھی میری تشویش کو صاد کیا، انہوں نے کہا بتائو میرے ایک دوست ہیں، دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، یہی ہریانہ سے ایک بھینس لے کر آ رہے تھے، راستے میں بجرنگیوں نے گھیر لیا۔ لاکھ کہا یہ کالی بھینس ہے ، نظر نہیں آرہی ہے تم لوگوں کو۔ بجرنگی غنڈے بولے، مسلمانوں کا کیا اعتبار گائے کو کالے رنگ سے رنگ کر لے جارہے ہوگے، اس کے بعد اس نے چاقو سے بھینس کے چمڑے کو چھیل دیا، جب خون بہنے لگا تب اسے بہت افسوس ہوا کہ کاش یہ گائے نکلتی تو آج ایک مسللے کو تسلی بھرپیٹتا، ویڈیو بناتا اور پی ایم او میں بھیجتا تاکہ کوئی عہدہ مل جائے۔ ایسے میں کیا کوئی اس کاروبار میں ہاتھ ڈالے گا۔ مندسور میں بھینس کا گوشت لے جانے والی دومسلم عورتوں کو پیٹا اور داد تحسین وصول کی،مگر جب گجرات میں دلتوں نے مورچہ کھول دیا ہے۔ مری ہوئی گائیں بدبو دینے لگیں، تب کچھ سنبھلے ہیں اور گائے کو چھوڑ کر مایاوتی سے الجھے ہیں۔ مایاوتی کو گالی دی گئی ، گجرات میں دلتوں کو پیٹا گیا ہے۔ دلت مسلمان نہیں ہیں جو ہائے توبہ نہ مچائیں۔ معاملہ پھنس گیا ہے۔ اب سرکار کو دو میں سے ایک کو منتخب کرنا ہے۔ گائے چاہیے یا دلت۔ گائے ووٹ کا ذریعہ ہو سکتی ہے ،لیکن وہ ای وی ایم مشین کا بٹن نہیں دبا سکتی ہے۔ اس لئے دیکھ لینا دلتوں کو پٹانے کے لیے ایک بار پھر گائے کو بھول جائیں گے۔ سرکار کس لیے آئی تھی اور کیا کرنے لگی۔ ترقی کے نام پر کس چیز کی ترقی ہو رہی ہے۔ کس طرح کا ذہن فروغ پا رہا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ملک کے عوام نے کیا کیا نہیں دیکھا، اور اب تو عوام یہ فیصلہ بھی نہیں کر پا رہے ہیں کہ حکومت کون چلا رہا ہے۔ بی جے پی یا آر ایس ایس؟یا گلی کے غنڈے؟ ہر ایشو کو ہندو -مسلمان، دلت-برہمن کے چشمے سے دیکھا جانے لگا ہے۔انصاف کا عمل کچا اور ناپائیدار ہو چکاہے ، پہلے سے ہی طے ہو جاتا ہے کہ کس مقدمہ کا فیصلہ کس کے حق میں ہوگا۔ پولیس ، بیورو کریٹس ، میڈیا سب کے سب چاپلوسی میں لگ گئے ہیں۔ معاشرہ تنکوں کی طرح بکھر رہا ہے اور اعلیٰ قیادت خاموش تماشائی ہے، مانو جو کچھ بھی ہو رہا ہے ،اسی کے مزاج کے مطابق ہو رہا ہے۔
گھر واپسی پر سوچ رہا تھا کہ حاجی حجت جیسے مزاحیہ کردار بھی سنجیدہ ہونے لگے ہیں۔ یہ معاشرہ کی سب سے بڑی شکست ہے۔ نہیں میں حاجی حجت کو سنجیدہ نہیں ہونے دوں گا۔ میں ہار نہیں مانوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ہندوستان کے امن پسند لوگ پیار کی پیلٹ گن نکالیں گے اور نفرت ،تعصب ، بے ایمانی ، بدعنوانی ،مہنگائی ، بےروزگاری ،نسل پرستی ، ذات پات ، اور سامنتی نظام کی آنکھیں پھوڑدیں گے۔
مضمون نگار روزنامہ خبریں کے جوائنٹ ایڈیٹر ہیں 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا