English   /   Kannada   /   Nawayathi

ذرا سوچیں : ہمیں ملک کے 'وسائل ' میں تو دلچسپی ہے لیکن ملک کے 'مسائل' کے حل میں کیوں نہیں؟ / ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

share with us

ذرا سوچو تو سہی ، تمہیں یہ 'ہندو' نام کا تحفہ دینے والے ہم ہی ہیں ؟
ان خیالا کا اظہار ماہنامہ 'افکار ملی' کے ایڈیٹر ڈاکٹر سید قاسم رسول نے مرکز جماعت اسلامی ہند کے ہفتہ وار پروگرام میں کیا ۔ وہ یہاں "ملک کے موجودہ حالات : اسباب و سدباب " کے عنوان پر خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ برہمنی ٹولے کا یہ حربہ سکھوں ،بودھوں اور جین مذہب کے ماننے والوں پر تو کامیاب ہو گیا لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہ لوگ اپنے میں ضم کرنے میں ناکام رہے ۔اسی لیے انہیں مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی یاد وقفے وقفے سے ستاتی رہتی ہے انہوں نے کہا کہ انتہائی دل چسپ اور غور طلب امر یہ ہے کہ سیکڑوں خانوں میں بری طرح بکھرا یہ انسانی گروہ آج 'ہندو، ہندوازم اور ہندوتوا' کے نام پر خود کو یکجا کر رہا اسے یہ 'ہندو' کا تحفہ دینے والے مسلم ہی ہیں۔ اس کے لیے انہیں تو مسلم حکمرانوں کا احسان مند ہونا چاہیے ۔ یہ بھی تشویش ناک ہے کہ اسلام کے پیروکار حکمرانوں نے ہزار سال حکمرانی کر نے کے بعد بھی ہندوستان مین طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اسے اپنے لیے پسند کیا ۔
ہندوتوا کی حکمت عملی اب ذرا تبدیل کر لی گئی معلوم ہوتی ہے
ملکی سطح پر پیدا بدامنی کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اشارہ دیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی ضرورت ، غیر ملکی سر مایہ کاری لانے، سرمایہ کاروں کو عمومی طور پر ملک میں پرامن ماحول دکھانے کے پیش نظراب حکمت ذرا تبدیل کر لی گئی ہے عین ممکن ہے کہ اب بڑے بڑے فسادات نہ ہوں لیکن مقامی سطح پر معاشرے کے ایک دوسرے سے الگ کر نے عام انسانی رشتوں کو خراب کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ گائے کا ہتھیار کے طور پر استعمال ہو نے لگا ہے ، لو جہاد ، جبرا تبدیلی مذہب سمیت نت نئے نئے ہتھکنڈے سے میڈیا کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ خود بخود لوگ الگ ہو جائیں اور معاشرے میں ایسی نفرت کی مضبوط دیوار اٹھادی جائے ۔اور اس طرح مسلمانوں کو ایک دم حاشیے پر پہونچا دیا جائے ملک کی تعمیر و ترقی سے انہیں دور کر دیا جائے اور وہ ہمیشہ اپنے تحفظ اور بقا کی جد و جہد میں ہی الجھ کر رہ جائیں ۔
اس صورت حال کا ہمیں نوٹس لینا چاہیے
انہوں نے خبردار کیا اس صورت حال کا ہمیں نوٹس لینا چاہیے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دانستہ یا نا دانستہ طور پر ضرور اس سازش کا شکارہوئے ہیں۔ ملک کے دیگر محروم و مظلوم طبقات کے مسائل کے حل میں ہماری جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کے 'وسائل' میں تو ہماری دلچسپی ہے لیکن ملک کے 'مسائل' سے ہم کنارہ کشی اختیارکیے رہتے ہیں ؟
اپنا جائزہ لیں ،گزشتہ دس برس میں ہم نے بحیثیت سول سوسائٹی کیا رول ادا کیا ؟
گزشتہ دس برس کے تجزیے سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ سول سوسائٹی کی حیثیت سے ہم نے ملک میں آر ٹی آئی ، رائٹ ٹو ایکوکیشن ، رائٹ ٹو فوڈ، منریگا ، کرپشن کے خلاف لوک پال بل میں لانے میں کوئی رول ادا نہیں کیا ؟ ہمیں انتظامیہ کا حصہ بننے کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے نظام میں مثبت تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم انتظامی امور میں شامل ہوں ۔ ہم داعی امت ہیں اپنے فرض منصبی کو سمجھیں اور حکمت کے ساتھ معاشرے میں محسوس تبدیلی لانے کی کوشش کریں حکمت کے ساتھ برادران وطن میں دین کی دعوت پیش کریں اور معاشرے کے مسائل کے حل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

بشکریہ ،ایشیا ٹائمز، ڈاٹ کو ڈاٹ ان 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا