English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں سے سماجوادی پارٹی کے وعدے اور سرکاری اشتہار

share with us

اس کے علاوہ اردو اساتذہ کی بھرتی، تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کو بھی ایک بڑی حصولیابی بتایا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ جاننا یقیناًہی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ سماجوادی پارٹی نے 2012کے انتخابی منشور میں جو وعدے کیے تھے وہ کتنے پورے ہوئے یا پھر اس سے ہٹ کر کچھ دیگر اسکیموں کو شروع کرکے اشتہار کے ذریعہ ان کی ستائش کی جارہی ہے۔
2012میں اترپردیش اسمبلی انتخاب کے وقت سماجوادی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں اقلیتوں سے متعلق 14وعدے کیے تھے۔ اس کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کا مطالعہ کرنے کے لیے قائم سچر کمیٹی رپورٹ کو لاگو کرکے مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے اور رنگاناتھ مشرا کمیشن کی تجاویز کو لاگو کرنے کے لیے ریاستی حکومت مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالے گی اور جو ریاستی حکومت سے متعلق تجاویز ہیں انھیں اترپردیش کی سماجوادی حکومت لاگو کرے گی۔ ایک صفحہ کا اشتہار اس پر خاموش ہے۔ ایک ہندی میگزین نے آر ٹی آئی کارکن آرپی شرما کے حوالے سے لکھا ہے کہ ریاستی حکومت نے سچر تجاویز کو لاگو کرنے کے لیے کوئی پہل نہیں کی۔ 11فروری 2015کو ملے جواب میں اترپردیش حکومت نے باضابطہ اس پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ اترپردیش کے شعبہ اطلاعات ونشریات کے آفیسر آر این درویدی نے مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے، کے جواب میں ’صفر‘ لکھا ہے۔
مسلمانوں کی ریزرویشن دینے کے لیے سچر کمیٹی تجاویز کی روشنی میں سبھی مسلمانوں کو اقتصادی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر ان کی آبادی کے تناسب سے الگ سے ریزرویشن دینے کی بات انتخابی منشور میں شامل ہے لیکن سرکاری اشتہار سے یہ نکتہ غائب ہے۔ اطلاعات کے مطابق ریاستی حکومت مسلمانوں کو 13.5فیصد ریزرویشن دینے کے لیے مرکزی حکومت کو آئین میں ترمیم کی تجویز دے گی۔ ریاست میں پہلے سے 27فیصد او بی سی اور 22.5فیصد ایس سی/ایس ٹی کا کوٹا لاگو ہے جو تقریباً 50فیصد ہے ایسے میں ریاستی حکومت کی تجویز کا کیا حشر ہوگا، قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں نئے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت اشتہار میں پانچ پرائمری اسکولوں کی تعمیر/اعلیٰ درجات کی تعمیر بشمول نو پرائمری اسکولوں کو پورا کرنے کا ہدف بتایا گیا ہے۔ یہ پانچ اسکول کن ضلعوں میں اور 9پرائمری اسکول کن مسلم اکثریتی علاقوں میں کھولے جائیں گے، کاکوئی ذکر نہیں ہے۔
دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اترپردیش میں جن بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل میں ڈالا گیا انھیں نہ صرف فوراً رہا کرایا جائے گا بلکہ معاوضے کے ساتھ انصاف بھی کیا جائے گا۔ مسلم تنظیموں کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جسٹس نمیش کمیشن کی بنیاد پر مقدموں کو واپس لینے کی کارروائی شروع کرے لیکن ریاستی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اشتہار میں نمیش کمیشن کی رپورٹ کا ذکر نہ کیا جائے جبکہ مسلم تنظیموں کے دباؤ کے نتیجہ میں حکومت نے اس رپورٹ کو کابینہ میں منظور کیا تھا، اس کے باوجود نمیش کمیشن کی رپورٹ کو کس کے دباؤ میں نظر انداز کیا جارہا ہے، یہ اہم سوال ہے۔
مسلمانوں کے ایک بہت بڑے جلسے میں ملائم سنگھ کے سامنے مسائل رکھے گئے اور انھیں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو ملائم سنگھ سے اپنی تقریر میں مسائل کے حل کی بات کرنے کے بجائے الٹے سوال کیاکہ ہم نے 10مسلم وزراء بنائے ہیں، لہٰذا ان سے کہیے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بھی وزیر پورے صوبے کی عوام کا ہوتا یا اس مخصوص طبقہ کا جس سے خود اس کا تعلق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل صر ف ایک مسلم وزیر کو سبھی مسلمانوں کا نمائندہ بنادیا گیا ہے اور باقی مسلم وزراء کو عملی طور پر اس کے ماتحت کردیا گیا تو پھر 10وزراء بنانے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔
اردو کو فروغ دینے کے لیے مسلم اکثریتی ضلعوں میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی سطح پر سرکاری اردو میڈیم اسکول کھولے جانے کے وعدے کے جواب میں 3500اردو اساتذہ کی بھرتی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھرتی کب ہوگی، اشتہار خاموش ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے باوجود ریاستی حکومت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اس کے برخلاف خواجہ معین الدین چشی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی سے ہی اردو کو نکال دیا۔ درگاہوں کے تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے درگاہ ایکٹ بنانے اور ریاست میں واقع سبھی درگاہوں کی ترقی کے لیے خصوصی پیکج دینے کے وعدے پر سرکاری اشتہار خاموش ہے۔ سبھی سرکاری کمیشنوں، بورڈوں اور کمیٹیوں میں کم سے کم ایک اقلیتی نمائندہ بطور رکن نامزد کیا جائے گا، پر بھی کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے اشتہارمیں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
وقف جائیدادوں پر سے ناجائز قبضہ ہٹاکر انھیں وقف بورڈ کے حوالے کیاجائے گا۔ وقف جائیدادوں کو تحویل آراضی قانون سے باہر رکھا جائے گا کے ضمن میں وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے الگ سے قانون بنانا انتخابی منشور میں شامل ہے۔ یہ قانون کب بنے گا، اترپردیش کی ہمدرد سرکار کا اشتہار کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ مدرسوں میں تکنیکی تعلیم کے لیے بجٹ کا نظم کیاجائے گا، اس وعدے کو پورا کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے مدرسہ جدید کاری کے تحت تقریباً 7000مدرسوں کو ماڈرنایزیشن کے طور پر منظوری دی ہے لیکن اس کے لیے کتنی رقم دی گئی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
مسلمانوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لیے نیم فوجی دستوں میں مسلمانوں کی بھرتی کے لیے خصوصی مہم چلائی جائے گی اور اس کے لیے کیمپ لگاکر بھرتی کی جائے گی، کے وعدے پر اشتہار کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ روکنے اور زمین کی چہار دیواری کے لیے بجٹ میں خصوصی پیکج کا نظم کیا جائے گا کے تحت ریاستی حکومت نے اب تک کل 87696قبرستانوں اور انتم سنسکار کرنے والے مقامات کی چہار دیواری کی تعمیر کے مقابلے 5314قبرستان انتم سنسکار کرنے والے مقامات کی چہاردیواری کا کام کرایا جاچکا ہے۔ اس کے لیے 700کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے وہ تعلیمی ادارے جو یونیورسٹی کی شرطوں پر پورا اترتے ہیں انھیں قانون کے تحت یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ 2016-17میں 87انٹر کالج کو پورا کرنے کا ہدف ہے۔ یہ انٹر کالج کن علاقوں میں کون سے ہیں، کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔ تین سال پورے ہونے پر ریاستی حکومت نے جو اشتہار دیا تھا اس میں محمد علی جوہر یونیورسٹی میں میڈیکل کالج اور جدید تعلیم کے نظم کو سرکاری اشتہار میں بطور کارکردگی کے پیش کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے، میڈیکل اور جدید تعلیم کو سرکاری کام کیسے مانا جاسکتا ہے۔
اقلیتی وزارت جس کے عظم خاں وزیر ہیں کے تحت اقلیتی ترقیاتی مالیاتی کارپوریشن آتا ہے اس کے ذریعہ اقلیتوں کو روزگار شروع کرنے کے لیے قرض دیاجاتا ہے۔ اس میں 70فیصد مرکزی حکومت اور 30فیصد ریاستی حکومت کا حصہ ہوتا ہے لیکن مرکز اور ریاست کے جھگڑے کے سبب یہ کارپوریشن بند ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کا الزام ہے کہ ایسا اعظم خاں کے اڑیل رویے کے سبب ہوا ہے جو صرف اشتعال انگیز بیان دے کر سیاست کرتے ہیں لیکن اقلیتوں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کا بجٹ کئی بار واپس ہوچکا ہے۔ مسلم طلباء وطالبات کی اسکالرشپ کے لیے متعین رقم میں سے 137کروڑ روپے کی کٹوتی کردی گئی۔ 48مہینے کی اکھلیش حکومت میں کافی بھرتیاں ہوئیں لیکن ان میں مسلمانوں کا فیصد برائے نام ہے جبکہ اترپردیش لوک سیوا آیوگ کے ذریعہ منتخب کیے گے پی جی ایس کے 86عہدوں میں سے 54یادو کا انتخاب ہوا ہے۔
جن صنعتی میدانوں میں اقلیتوں کی اکثریت ہے جیسے ہتھ کرگھا، دستکاری، ہینڈلوم، قالین، چوڑی، تالا، قینچی وغیرہ انھیں ریاستی حکومت مدد دے کر حوصلہ افزائی کرے گی۔ کرگھوں پر بجلی کے بقایہ بلوں پر لگنے والا سود، جرمانہ سود کو معاف کرکے بنکروں کو راحت دی جائے گی۔ چھوٹے اور درمیانی صنعتوں میں ہنرمند کاریگروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہر ضلع میں ایک آئی ٹی آئی قائم کرنے کے وعدے کے جواب میں 40آئی ٹی آئی اور 20پالی ٹیکنک کو پورا کرایا جارہا کا اشتہار میں یقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن یہ کن علاقوں میں بنائے گئے، اس کی وضاحت نہیں ہے اور نہ ہی قرض معافی جیسے ایشوز پر سرکاری موقف کو رکھا گیا ہے۔
10ویں پاس مسلم طالبات کو آگے کی تعلیم حاصل کرنے اور شادی کے لیے 10ہزار روپے کی امداد کا ذکر سرکاری اشتہارمیں ہے لیکن یہ اسکیم تو ریاست میں تعلیم حاصل کررہی سبھی 10ویں پاس لڑکیوں کے لیے ہے تو پھر اسے مسلم طالبات سے جوڑ کر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔ تین سال پورے ہونے پر حکومت کی یہ حصولیابی ہے لیکن انتخابی سال کے اشتہار سے یہ ایشو غائب ہے اس کی جگہ پر طلباء اور طالبات کی ترقی کے لیے انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم اور روزگار مہیا کرانے کے مقصد سے تعلیمی ہب کے قیام کے لیے دو ماڈل کالج قائم کرنے کی اسکیم شروع کی گئی ہے۔ یہ ماڈل کالج کس ضلع میں اور کب تک بن کر تیار ہوں گے کا سوال جواب کا منتظر ہے۔
اترپردیش حکومت کے کارناموں کا یہ ایک مختصر جائزہ ہے جس سے اس کی کتھنی اور کرنی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پارٹی کے مسلم لیڈر اس پر خاموش کیوں ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی یہ مان کر چل رہی ہے کہ مسلمان سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔ حالات بدل چکے ہیں۔ مسلمانوں کا ووٹ لے کر یا ان کا استحصال کرکے اقتدار حاصل ہوگا، 2017کا الیکشن بتادے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا