English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا قاسم قریشی رحمہ اللہ ۔ امیرِ جماعت، داعی الی اللہ

share with us

بروز سنیچرروزِ انتقال ہی آپ کا خطاب طئے تھا ، مگر آپ نے طبیعت میں ناسازگی محسوس کرتے ہوئے معذرت فرمائی، احباب نے باصراردرخواست کی، کہ آپ کی وجہ سے لوگ جمع ہوئے ہیں ، آپ کے نام پر مجمع آتا ہے، اس پر فرمانے لگے کہ شخصیت اہم نہیں بلکہ دعوت اہم ہے، لوگوں کو دعوت کے نام پر جوڑنا چاہئے نہ کہ شخصیت کے نام پر۔ بعد نماز عصر بوقتِ شام، مغرب سے کچھ پہلے اپنے اذکار میں مشغول تھے ، دل کا رشتہ رب سے جڑا ہوا تھا، اسی ذاکر وشاکر زبان سے اللہ کو یاد کرتے کرتے اس جہانِ فانی سے دارِ باقی کوچ کر گئے۔اوربروز سنچر ۱۸ /شوال المکرم ۱۴۳۸ ؁ہجری ، مطابق ۲۳ /جولائی ۲۰۱۶ ؁عیسوی بینگلورشفا اسپتال میں انتقال ہوا۔ اس طرح شمسی( عیسوی ) تاریخ کے اعتبار سے دنیا کی ۷۲ بہاریں اور قمری ( ہجری)اعتبار سے ۷۵ بہاریں دیکھیں۔مولانا کی رحلت پر یہ خلا صرف تبلیغی جماعت ہی میں نہیں بلکہ دعوت واصلاح سے تعلق رکھنے والی ہر تحریک میں محسوس کیا جائے گا،آپ کی شخصیت ملک وبیرونِ ملک میں اسلامی حلقوں میں معروف تھی۔
آپ کی پیدائش ریاستِ کرناٹک کے پایۂ تخت شہرِ گلستاں بینگلور سے تقریبا پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع "رام نگرم" گاؤں کے دیندار گھرانے میں ۱۹۴۶ عیسوی کو ہوئی،نشو ونما مذہبی اور دینی ماحول میں پائی، ابتدائی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی،اور اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر دعوت وتبلیغ کے عالمی مرکز "بنگلہ والی مسجد " حضرت نظام الدین دہلی میں واقع "مدرسہ کاشف العلوم "کو اختیار کیا۔ یہاں قیام کے دوران مرکز کی مشہور دینی شخصیتوں کے اثر قبول کئے، تبلیغ کی بڑی شخصیتوں سے براہِ راست کسبِ فیض رہا، بزرگوں کی صحبتوں سے قلب کو تازگی اور روح کوبالیدگی ملی، اہلِ دل کی نگاہِ الفت اوراہلِ علم کی نظرِ شفقت سے نورانیت پائی،فکر ونظر کے زاویے دین کی طرف مڑے،جس کی وجہ سے آپ کی سیرت سازی میں دینی اور علمی شخصیتں مؤثر رہیں اور کچھ ہی سالوں میںیہیں سے دینی تعلیم کی سندِ فضلیت حاصل کی، مدرسہ کاشف العلوم سے فراغت کی بنا پر "کاشفی "کہلائے۔دستارِ فضیلت باندھتے ہی عملی اور دعوتی میدان میں قدم رکھا، یہیں سے تبلیغی جماعتی ترتیب کے مطابق فراغت کے بعد ایک سال راہِ خدا میں لگانے کا فیصلہ فرمایا، عزمِ کامل اور طلبِ صادق کے ساتھ پورا سال دعوت وتبلیغ میں گذارا ۔
مولانا کے والد ماجدجناب محمد غوث علیہ الرحمۃ کا شمار تبلیغی جماعت کے اہم لوگوں میں ہوتا تھا، آپ متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، پورے گاؤں میں با اثر تھے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کہیں پورا کا پورا خاندان دین اور دعوتِ دین سے وابستہ ہو، اہل اللہ اور بزرگانِ دین سے جڑا ہوا ہو، ماشاء اللہ مولانا کا پورا گھرانہ جماعتِ دعوت وتبلیغ سے وابستہ ہے، دینداری خاندانی ورثہ میں پائی ہے، آپ کے بڑے بھائی جناب عبد الرؤوف قریشی شہر کے تبلیغی ذمہ داروں میں تھے، اسی طرح دوسرے بھائی جناب عبد الرحیم قریشی صاحب بھی جماعتی دعوتی نظام سے جڑے ہیں اور مولانا تینوں بھائیوں میں چھوٹے تھے، اسی لیے آپ پر زیادہ توجہ دی گئی۔
مولانا اپنے پیچھے آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑگئے، آپ نے اپنے تمام بچوں کو علومِ نبوت سے سرفراز فرمایا، سب بچے حفظِ قرآن کی نعمت سے مالا مال ہو کر مدارسِ اسلامیہ سے فراغت پائی، علمِ دین کے حصول کے بعد علماء کہلائے، بچے بھی دیندار، مطیع اور فرمانبردار، دینی مزاج کے حامل اور شریعت پر عامل ہیں اور سبھی دعوت وتبلیغ سے مکمل جڑے ہوئے ہیں،اور اس وقت بھی دو فرزند افریقہ کے دعوتی سفر پر ہیں، جماعت میں چل رہے ہیں۔ 
مولانا کو قرآن اور سیرتِ رسول سے خاص شغف تھا،عربی اور اردو زبان پر عبور حاصل تھا، اپنی شعلہ بیانی سے سامعین کے دلوں کو مسحور کر دیتے، ان کوجھنجوڑ کر ایمان وعمل کی شاہراہ پر گامزن کر تے، اپنے خطابات میں قرآنی آیات اور واقعات سے استدلال کرنے پر خاصی مہارت حاصل تھی، آپ کے خطابات عالم وعامی، پڑھے لکھے اور عام آدمی پر یکساں اثر کرتے، عام فہم لہجہ ہوتا ، زبان سادہ استعمال فرماتے، جب اعلی تعلیم یافتہ لوگوں یا علماء سے مخاطب ہوتے تو ان سے اسی معیار پر بولتے، آپ کے بیانات سے ہر کوئی یکساں مستفید ہوتا،علماء یا خواص میں بات کرنے کے لیے مولانا ہی کا انتخاب ہوتا، آپ کے خطابات واہ واہ اور تعریف حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ایمان اور عمل پر ابھارنے کے لیے ہوتے تھے ۔موت سے قبل بنگلور تبلیغی مرکز میں اسی ہفتہ جو آپ کا ولولہ انگیز بیان ہواتھا ، اس میں بھی صفات ہی پر ابھارا، اخلاقیات پر زور دیا ، کام کرنے والوں کو خصوصیت سے مخاطب فرمایا، نبوی اخلاق کو اپنانے کی تعلیم دی ،اسے زندگی میں لانے کا درس دیا ،لوگوں کے قلب وضمیر کو جھنجوڑا ۔یقیناًیہی فکریں اور کوششیں ، شبانہ روز کی ہوئی محنتیں اور عمومی و خصوصی ملاقاتیں تھیں ، جس کے طفیل آج ریاستِ کرناٹک کے دور دراز گاؤں اوردیہاتوں میں مولانا کے نقوش لوگوں کے دلوں میں منقش ہو چکے ہیں، ماحول میں دعوت وتبلیغ کے مخلص داعیوں کی دینی کوششوں اور دعوتی کاوشوں کا بڑا اثر پایا جاتا ہے۔
مولانا کے چہرہ پر زہد وتقوی کے نشاں ، سفید ڈاڑھی کا وقار، بھاری بھرکم جسم کے ساتھ جاہ وجلال، با رعب شخصیت ، علمی متانت، نیک طینت، حسین فطرت، آپ کی ذات میں نبوی صفات ، اخلاق کی پاکیزگی، صدق گوئی ،دردمندی، علم دوستی ، خوش مذاقی،وضع د اری، جرات و بے باکی، مقصد کی لگن، رفتار وگفتار کی ہم آہنگی، نگاہ کی بلندی ، سخن کی دلسوزی اور دلنوازی جیسی گوناگوں صفات اور بے شمار خصوصیات پائے جاتے تھے ۔
دعوت وتبلیغ کی اہمیت،جماعت کی غیرت وحمیت بہت زیادہ تھی، مگریہ حمیت اور غیرت اسلامی اتحاد اور اجتماعیت کے دائرے میں تھی، جب آپ میدانِ تبلیغ ودعوت میں داخل ہوئے تو اپنی تمام سرگرمیوں اور توانائیوں کا رخ جماعت کی طرف موڑ دیا، دین ولادینیت اور حق وباطل کی کش مکش کے اس دور میں جہاد باللسان کا فریضہ انجام دیا، عملی اسلام کا نمونہ پیش کیا، آپ کی آواز پر نوجوانوں نے لبیک کہا، بڑوں نے استقبال کیا،علماء نے ساتھ دیا، پیش قدمی کرتے ہوئے آپ کے شانہ سے شانہ ملایا، اسی دعوت کی محنت کو مقصدِ حیات بنایا، زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی محنت کے لیے وقف کر دیا، اسی لیے تبلیغی دائرے کی وسعت اور سربلندی میں آپ کی تگ ودو کا بھی بھر پور حصہ پایا جاتا ہے، ہر سال چھ مہینہ سے لے کر آٹھ مہینے تک کا عرصہ دعوتی اسفار اور تبلیغی محنتوں میں گزراتے، نہ صحت کی ناسازی کا شکوہ اور نہ ہی وقت کی تنگ دامانی کا گلہ۔دہلی مرکز نظام الدین کی ہر ترتیب میں شامل ہوتے، تقاضوں پر حاضری دیتے، بڑوں کی غیر موجودگی میں ان کی نیابت فرماتے۔
مولانا کے بیانات اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے بہت دور رس اور اپنے اسلوب وحسنِ بیان کے لحاظ سے بہت ممتاز اور طاقتور ہوتے تھے،ہر بیان گھنٹہ دو گھنٹہ کا ہونے کے باوجود لوگ دور دراز علاقوں، گاؤں اور دیہاتوں سے بیانات سننے کے لیے جمع ہوتے، جس وقت آپ کی دعا ہوتی اس وقت کا نظارہ کچھ اور ہی ہوتا،صرف دعا میں شرکت کے لیے جم غفیر ہوتا، خصوصیت کے ساتھ حاضر ہوتے۔ دعا بھی ایسی رقت انگیز ہوتی کہ بندگان خدا اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجاتے، اپنی گناہوں پر نادم ہوتے، غفلت کی زندگی سے توبہ کرتے، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بے اختیار رو پڑتے۔اللہ نے آپ کی زبان وبیان میں وہ تاثیر عطا فرمائی تھی کہ اس کی بدولت اللہ نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کو ہدایت سے نوازا، دینِ اسلام کی طرف رخ موڑا، عملی زندگی کی طرف رجوع نصیب ہوا۔لہذا آج آپ سے فیض یافتہ اور آپ سے استفادہ کئے ہوئے احباب کی ایک بڑی تعداد ملک وبیرون میں پہلی ہوئی ہے اور اپنے اپنے حلقوں میں دعوتِ دین کی جد وجہد میں مشغول ہے ۔
راقم کے والدِ ماجد جناب سید نظام الدین دامت برکاتہم کا تبلیغی جماعت سے قلبی، عملی اور روحانی تعلق ہونے کی وجہ سے آپ مولانا کا تذکرہ بار بار فرماتے تھے۔ آپ ان کے بیانات کے حوالے دیتے،خاص خاص نکتے بیان فرماتے، خصوصا آپ ہی کے حوالے سے خصوصی جوڑمیں کئے گئے بیان کا حوالہ اکثر وبیشتر دیتے تھے، اور جامعہ کے دورِ طالبِ علمی میں مجھ سے حصولِ علم کی ترغیب دینے کے لیے کہتے تھے کہ " دعوتِ دین کے چار میدان ہیں، ہمارے اسلاف کے دعوت وعزیمت کی تاریخ انہی چار میدانوں میں ملتی ہے : (۱)تعلیم وتدریس (۲) تصنیف وتالف(۳) دعوت وتبلیغ(۴) اصلاح وتصوف ۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ تعلیم کے حصول کے لیے تم مدرسہ میں جا رہے ہو، گویا تم دعوتِ دین کا ایک کام کر رہے ہو،تمہارے بہنوی مولانا عبد الباری میدانِ تدریس میں ہیں، یعنی وہ بھی دعوتِ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جامعہ کے اساتذہ اور علماء اسی فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہیں۔دوسرے نمبر پر تصنیف وتالیف ہے، یہ کام بغیر علم کے ممکن نہیں، لہذا یہ بھی علماء ہی کا حصہ ہے، یا ان کی صحبت یا کتابوں سے فیض یافتہ افراد کا ۔ تیسرے نمبر پر دعوت و تبلیغ ہے،اور اس کی مختلف شکلیں ہیں، جس میں سے ایک تبلیغی جماعت اور اس کی کوششیں ہیں ، آج اس دعوت وتبلیغ کی با برکت محنت کی وجہ سے عوام کواس میں حصہ لینے کی آسانی ہورہی ہے اور آخری و چوتھے نمبر پر خانقاہوں کا نظام اور تصوف کے سلسلے ہیں ، اس سے بھی اصلاح ودعوتِ دین کا بڑا کام انجام پا رہا ہے۔اور فرماتے کہ جو کوئی ان چاروں میں سے کسی ایک میدان میں بھی مشغول ہو، اس کی قدر کرنی چاہئے، ان کی ہمت افزائی کرنی چاہیے، اوریقیناًخوش قسمت ہیں وہ علماء جو ان چاروں میدانوں میں کام کرتے ہوں، اس کی مثالوں میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمہما اللہ کی نام سرِ فہرست ہیں جنہوں نے ان تمام میدانوں میں کام کیا اور ایک نمونہ بتایا ۔
بھٹکل اور اہلِ بھٹکل سے آپ کا خصوصی تعلق تھا،روابط بہت پرانے تھے ، سالوں پر محیط تھے، سترھویں دھائی سے دعوتی تقاضوں پر آنا جانا رہاتھا، غالبا ۱۹۸۷ ؁ عیسوی کی بات ہے، ہم جامعہ اسلامیہ میں زیرِ تعلیم تھے ، اس وقت بھٹکل بندر روڈ کے ایک وسیع وعریض میدان میں عظیم الشان تبلیغی اجتماع کا انعقاد ہوا تھا اورہم نے شاید اپنے شعور کے ساتھ یہی پہلا بیان سنا تھا،اس کے بعد کئی بار مولانا کے بیانات میں شرکت کا موقع ملا۔ بھٹکل تعلقہ کے اجتماعات ہوں یا کوئی دوسرا بڑا اجتماع ، اکثر وبیشتر بذاتِ خود تشریف لاتے، مولانا کا آخری سفر اسی سال ماہِ جنوری میں ہوا تھا ، ضلعی تبلیغی اجتماع تھا، جبکہ مولانا کے آپریشن پر زیادہ دن بھی نہیں گذرے تھے،اور قریبی احباب نے آپ کو آرام کرنے کا مشورہ دیا، مگر اپنے تعلقات اور اپنی خصوصی توجہات کے باعث بیماری کی پرواہ نہیں کی ، اور تشریف لائے، اپنے خطاب سے مستفید فرمایا، آخری دعا میں پورے مجمع پر خشیت طاری تھی۔
بینگلور میں مقیم بھٹکل کے تاجرجناب محمد اشفاق صاحب کاڈلی کو دوعوت وتبلیغ سے جڑے رہنے کی وجہ سے پینتیس سالہ رفاقت نصیب ہوئی ہے، آپ کے تعلقات مولانا سے قریبی تھے، آپ کے برادرِ نسبتی اور ہمارے بہنوی مولانا عبد الباری رحمہ اللہ سے مولانا قریشی کے قریبی تعلقات کی ایک وجہ یہ رشتہ داری بھی تھی، مولانا قریشی مولانا عبد الباری مرحوم سے بے حد تعلق رکھتے تھے، اسی لیے ان کی عیادت کرنے اہتمام سے گھر بھی تشریف لائے، کافی دیر بیٹھے ، دعائیں دیں اور اپنے تعلق کا اظہار فرمایا ۔راقم الحروف کو بھی اسی مناسبت سے ماہِ دسمبر میں کچھ دن بینگلوررہنے کا اتفاق ہوا، اور جناب محمد اشفاق صاحب کے ساتھ مرکز جاکر مولانا قریشی سے قریبی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا،الحمد للہ میرے لیے بڑی سعادت کا مقام تھا کہ کافی وقت الگ کمرے میں بیٹھنے اور مولانا کے بعض مشوروں کو سننے کا اتفاق ہوا۔ 
دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد یہاں سے رخصت ہونا لازمی ہے، موت سے کسی کو مفر نہیں، لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دنیا سے مادی جسم وروح کے ساتھ چلے جاتے ہیں، مگر اپنے کارناموں، خدمات اور جد وجہد سے زندہ جاوید بن جاتے ہیں، ایسے ہی خوش نصیبوں میں مولانا قریشی بھی تھے ،جن کی شہادت میں ماضی کی ایک طویل تاریخ ہے، اور انتقال کے بعد جنازہ کا منظربھی تاریخ کا حصہ بنے گا، آپ کے جنازہ میں عزیزوں اور قرابت داروں کے ساتھ ساتھ جم غفیر لاکھوں کی تعداد میں عام مسلمانوں کا تھا، جن تک آپ کا فیض بالواسطہ یا بلا واسطہ پہنچا تھا، جو آپ کے مواعظِ حسنہ سے مستفید اور اخلاقِ کریمانہ سے متاثر ہوئے تھے ، اوربلا شبہ اس مقبولیت اور جنازہ میں لاکھوں کی شرکت نے آپ کی عند اللہ مقبولیت پر شہادت درج کی ہے، جسے شہر گلستاں بینگلور نے بہت کم دیکھاہوگا ،جہاں مجمع تا حدِ نگاہ تھا،قوم کا فرد فرد، بڑا چھوٹا ، امیروغریب، اور عالم اور جاہل سب جمع تھے، صبح آٹھ بجے کا منظر ایسا محسوس ہو رہا تھا گیا عید کی صبح نمازِ عید ادا کی جا رہی ہو، اور ان شاء اللہ یہ مولانا مرحوم کے حق میں روزِ عید ہی ثایت ہوگا۔ جو منظر اگر کسی بات کی بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا تو اس کی طرف کہ اللہ تعالی آپ سے محبت فرماتے ہیں ،ملائکہ بھی محبت کرتے ہیں،اور اہلِ زمین کی محبتوں کا ثبوت خود جنارہ کا منظر دے رہا تھا، جس کا اشارہ حدیثِ مبارکہ سمیں واضح موجود ہے کہ جو بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ تعالی اس سے محبت فرماتے ہیں اور اپنے سب سے مقرب فرشتہ جبرئیل کو حکم دیتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی ان سے محبت کرو، پھر وہ فرشتوں کا سردار تمام آسمانوں میں رہنے والوں کے درمیان منادی کرتا ہے کہ اللہ رب العزت فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں تم بھی ان سے محبت کرو، اس منادی پر لبیک کہتے ہوئے تمام آسمان والے اس بندہ کو چاہنے لگتے ہیں، یہی حکم زمین والوں پر نازل ہوتاہے،اور اسکی مقبولیت زمین والوں کے دلوں پر ڈال دی جاتی ہے ، تمام زمینوں اور آسمان والے اس بند ے کو ٹوٹ کر چاہنے لگتے ہیں۔
نمازِ جنازہ صبح تبلیغی مرکزسلطان شاہ شیواجی نگر میں ادا کی گئی، ادائیگی کے بعد کیہزاروں اشکبار آنکھوں نے شاہ ولی اللہ مدرسہ کے ایک جانب جناب عبد الرزاق علیہ الرحمۃ کے بغل میں اپنی آخری آرامگاہ پہنچایا گیا۔جبکہ اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ تدفین آبائی وطن کے خاندانی قبرستان میں کی جائے، مگر مرکز میں مشورہ اور اولاد کی اجازت کے بعد بینگلور شاہ ولی اللہ قبرستان ہی میں تدفین کرنا طئے پایا۔ 
اگر مولانا کی ساری زندگی اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابی اور سرفرازی پر نظر کی جائے تو اس کا سہرا توفیقِ الہی کے بعدگھریلو دینی ماحول ، والدین کی تربیت کے ساتھ ساتھ مرکز نظام الدین کے اس قیام پر جاتا ہے جہاں آپ کو بزرگوں کی صحبت اور اہل اللہ کی معیت نصیب ہوئی۔ مولانا علیہ الرحمۃکے انتقال پر اپنی متفرق و منتشر یادیں اور جناب محمد اشفاق صاحب اور محترمی مولانا مصطفی رفاعی مد ظلہ العالی سے حاصل شدہ معلومات قلم بند کرتے کرتے یہ چار مصرعے بھی زبان پر آگئے :
دستِ قضا نے ہم سے جسے کر دیا جدا وہ تھا نشان، دعوت وتبلیغِ دین کا
تاریکیوں میں شمعِ ہدایت کا رمز تھا داعی تھا ترجمان تھا دینِ متین کا
دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور ان کے اہل خانہ، اعزہ واقارب و پسما ندگان ا ورسبھی اہل تعلق کو صبر وثواب سے نوازے اور ملت کو آپ کا نعم البدل عطار فرمائے ۔آمین۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا