English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہر شر میں خیر کے پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں

share with us

فرعون کا ظلم و ستم حضرت موسیٰ ؑ کی فرعون کے ہی محل میں پرورش کا ذریعہ بنا۔ سورۃ کہف میں حضرت موسی ؑ اور خضر ؑ کے مشترکہ سفر کے واقعات میں بھی اللہ کی مصلحتوں کا ذکر موجود ہیں جس کا علم حضرت موسی ؑ کو بھی نہیں تھا۔ صلح حدیبیہ کی شرائط میں بظاہر مسلمانوں کوسُبکی محسوس ہورہی تھی لیکن اللہ نے اُسے فتح مبین قرار دیا چنانچہ صرف ایک سال بعد ہی مسلمان مکہ معظمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ اگر ہم دنیا میں وقوع پذیر واقعات پر نظر ڈالیں تو بہت ساری مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بظاہر نقصاند ہ نظر آنے والے واقعات کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی کچھ مصلحتیں ہوتیں ہیں جنہیں انسان سمجھ نہیں سکتا۔خصوصاً کفار اور مشرکین کی چالیں بظاہرکامیاب اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف نظر آتیں ہیں لیکن اس کے نتائج ہمیشہ اسلام کے حق میں بہتر ثابت ہوئے ہیں۔اور یہ واضح ہو گیا کہ ’ ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین‘ ( انہوں نے چال چلی اور اللہ نے بھی چال چلی اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے) ۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ عالم اسلام کے مسلمانوں اور خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک سانحہ عظیم تھا، لیکن ہم نے دیکھا کہ اس حادثہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ مسلمان مسجدوں کی جانب پہلے سے زیادہ راغب ہوئے، ان میں دینداری کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس سانحہ نے جہاں حکومت وقت کی بد نیتی کو واضح کردیا وہیں پر مسلمانوں کے ان نام نہادہمدردوں کو بھی بے نقاب کر دیا جو بابری مسجد کے نام پر اپنی دکانیں چلا رہے تھے یا جنہوں نے بابری مسجد کے نام پر حکومتِ وقت سے سودہ بازی کی ۔ اس حادثہ کے بعد مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا، سیاسی ذہنی غلامی کاسحر ٹوٹ گیا، مسلمان کانگریس سے ایسا بدظن ہوا کہ ۲۷ برسوں سے آج تک کانگریس اتر پردیش میں اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بہانے امریکہ میں اسلام کو بدنام کرنے کی جتنی کوششیں کی گئیں اتنی ہی وہاں کی عوام اسلام کی طرف متوجہ ہوئی اور ا مریکہ میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں اسلام دشمنی کا ایک مذموم واقعہ گذشتہ دنوں بہت زبان زد خاص و عام تھا۔عالمی شہرت کے مالک ، خدا داد صلاحیتوں کے حامل ، امن و سلامتی کے پیمبر، مبلغ اسلام ہندوستانی نژاد ڈاکٹر ذاکر نائک کے بنگلہ دیشی دہشت گردوں سے مبینہ تعلقات کی افواہوں پر ہندوستانی میڈیا نے ایسا طوفان بد تمیزی برپا کیا ، ایسے ایسے انکشاف کئے جس سے شایدہندوستانی خفیہ ایجنسیز بھی شرمسار ہو گئی ہوں گی کہ یہ معلومات انہیں کیسے حاصل نہیں ہو سکی؟ مسلسل آٹھ یوم تک چلنے والے اس میڈیا ٹرائل کے دوران نیوز چینلس نے ذاکر نائک پر بے بنیاد الزامات کے ڈھیر لگا دیئے اور اپنے اپنے اسٹو ڈیوز میں بیٹھ کرمقدمات کی سنوائی میں اس شدّت و جلد بازی کا مظاہر کیا کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ فوراً ڈاکٹرذاکر نائک کو سزائے موت کا فیصلہ صادر کر دیتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستانی میڈیا نے اپنی کوششوں سے ایک ایسے دہشت گرد کو ڈھونڈ نکالا اور اس کے خلاف ثبوت و دلائل جمع کر لئے جو پوری دنیا کی خفیہ ایجنسیاں آج تک حاصل نہیں کر سکی۔اس پروپگنڈا سے متاثر ہوکر مہاراشٹرا حکومت نے خفیہ ایجنسی کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔ انٹر نیٹ اور یو ٹیوب پر موجود ذاکر نائک کے ہزاروں ویڈیوز اور تقاریر کا جائزہ لینے کے بعد خفیہ محکمہ نے یہ اعلان کر دیا کہ اِن تقاریر سے ڈاکٹر ذاکرنائک پر دہشت گردی یا دہشت گردی پر اُکسانے کہ الزامات ثابت نہیں ہوتے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ۔ڈاکٹر نائک فی الحال بیرون ملک سفرپر ہیں ان کی وطن واپسی پر حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن میڈیا کی اس شر انگیزی میں کچھ خیر کے پہلوواضح نظر آتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہوئی کہ پورے ہندوستان کی تمام بڑی مسلم تنظیموں، جماعتوں، اداروں ،دوراندیش قائدین، اورعاقبت اندیش مذہبی رہنماؤں نے اپنے مسلکی، نظریاتی اور طریقہ کار میں اختلافات کے باوجودڈاکٹر ذاکر نائک سے یگانگت کا کھل کر اظہار کیا اور ان پر لگائے گئے الزامات کی مذمت کی۔ گویا میڈیا کی یہ شر انگیزی اتحاد بین المسلمین کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ حالانکہ ابھی بھی کچھ نادان اس بات سے بے خبر کہ ایک موجِ بلا کسی وقت اُن کو بھی بحر حوادث میں کھینچ سکتی ہے ساحل سے طوفان کا نظارہ کر رہے ہیں۔ وہ طوفان کی شدت کا اندازہ لگانے کے بجائے صوفیانہ کلام میں مسحور ، مقلّد اور غیر مقلّدکی کشمکش میں مبتلا،ابابیلوں کے انتظار میں خود فریبی کا شکار ہیں۔ اللہ اُنہیں باطل کے منصوبوں کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اس شر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک مسلسل آٹھ دن تک نیوز چینلز پر چھائے رہے اس سے بہت ممکن ہے کہ جو لوگ بد قسمتی سے آج تک ذاکرنائک کو نہیں جانتے تھے وہ لوگ بھی ان سے واقف ہو گئے ہوں۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں نے گوگل اور یو ٹیوب پر ذاکر نائک کو سرچ کیا ہوگا اُنہوں نے ذاکر نائک کی تقاریر بھی سنی ہوگی اور اس سے متاثر بھی ہوئے ہوں گے اور آج یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ آخر سچا سناتن دھرم کون سا ہے؟ 
اس شر کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیشی اخبار کی خبر جس کو بنیاد بنا کر ہندوستانی میڈیا اتنا اچھل رہا تھا جب اس اخبار نے اس خبر کی تردید کردی اور معذرت پیش کردی اس کے باوجود میڈیا کا اس بات پر اصرار کہ ذاکر نائک پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے خود میڈیا کی ساکھ کو متاثر کئے بنا نہیں رہ سکا۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی پول کھل گئی اور خود ہندوستان کے کروڑوں غیر متعصب سیکولر ذہن رکھنے والی عوام پر میڈیا کی جانبداری اورایک مخصوص نظریہ کی حمایت ایک بار پھر واضح ہو گئی۔ یہ وہ پہلوں ہیں جو مجھ جیسے کم عقل کو دکھائی دے رہے ہیں یا عام طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں لیکن مشیت خداوندی کے تحت ہو سکتا ہے کہ اور بھی کئی پہلو ہوں گے جو ہنوز پوشیدہ ہیں۔ 
ہم بڑے ادب سے ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب سے گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ اس آزمائش کے وقت میں جن دینی و ملّی تنظیموں اور قد آور رہنماؤ نے ملّی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ان تمام سے آپ اپنے داعیانہ کردار کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں۔ اپنے تبلیغی اجتماعات میں مسلکی اور اختلافی مسائل پر گفتگو کرنے سے حتی الامکان گریز کریں، کہ اب بھی جاہلوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جو اس بات پر مصر ہے کہ ہم تو اسی دین پر قائم رہیں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے یا جو ہمیں اپنے پیشواؤ سے ملا۔کفار اور مشرکین مکہ کا بھی یہی موقف تھا ۔اور شائد انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ،وہ واضح نشانیوں کے باوجود حق اور باطل میں فرق نہیں کرسکتے۔مسلک مکتب تقلید اور فرقوں کے نام پر اسلام کو بانٹنے والے لکیر کے فقیر اِن مخالفین کی اجتہادی صلاحیتیں جیسے سلب کر لی گئیں ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا